نئی دہلی:(مانٹرنگ ڈیسک ) بھارت میں قائم انسانی حقوق کے ادارے”ہائوسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک” کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ چند سالوں میں مودی حکومت کی ظالمانہ بلڈوزر مہم کے دوران مسلمانوں کے 153,000مکانات کو مسمار اور 738,000افراد کوبے گھر کیاگیاہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارت کی سپریم کورٹ یکم اکتوبر کو اس سلسلے میں مختلف درخواستوں کی سماعت کرے گی اورانسانی حقوق کے علمبرداروں اور متاثرہ کمیونٹیز کو امید ہے کہ اس ظالمانہ عمل پر پابندی لگائی جائے گی۔ مسماری مہم کے دوران جس کو حکام غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی قراردیکر جواز پیش کررہے ہیں، زیادترمسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا جارہاہے اور اس کومسلمانوں کی اجتماعی سزا سمجھا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اگلی سماعت تک اس کی منظوری کے بغیر مسماری مہم کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔انسانی حقوق کے حامیوں کا استدلال ہے کہ یہ کارروائیاں بغیر مناسب عمل کے اجتماعی سزا کے مترادف ہیں جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ بی جے پی کے زیراقتدارریاستوںخاص طور پر اتر پردیش میںیہ عمل بڑھ گیا ہے جہاں پارٹی ترجمانوں کے اشتعال انگیزبیانات کے خلاف مظاہروں کے بعدلوگوں کے گھروں کو مسمار کیاگیا۔ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈویژن کی ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی حکام لوگوں کی جائیدادوں کو جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، منہدم کر کے انہیں اجتماعی سزادے رہے ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکور نے انہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ رہائشی مکانات کو قانون کی پاسداری کئے بغیر اجتماعی سزا کے طور پر گرایا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ تعزیری انہدام کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، چاہے جائیداد کسی ملزم یا مجرم کی ہی کیوں نہ ہو۔ عدالت نے کہا کہ وہ ناجائز تعمیرات کے انہدام کی مخالفت نہیں کرتی لیکن مسماری کرتے ہوئے مناسب طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے۔بلڈوزر مہم اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ، آسام اور مہاراشٹر سمیت مختلف ریاستوں میں جاری ہے جن میں زیادہ تر بی جے پی کی حکومتیں ہے۔ متاثرہ کمیونٹیز سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہیں اور اس تباہ کن عمل کے خاتمے کی امید کر رہی ہیں۔