نئی دلی:(مانیٹرنگ ڈیسک ) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حالیہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اپنی انتخابی مہم میں 110سے زائد تقاریر میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نفرت انگیزی کا نشانہ بنایاہے ۔نریندر مودی کے ان بیانات کو اسلام مخالف پروپیگنڈہ قراردیاگیا ہے ۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے نریندر مودی کی جانب سے لوک سبھا انتخابات کے دوران کی گئیں تقاریر کے سروے کے بعد اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ نریندر مودی نے رواں سال منعقد ہونیوالے لوک سبھا کے انتخابات میں مجموعی طور پر 173 تقاریر کیں، جن میں سے 110تقاریر میں انہوں نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ہدف تنقید بنایا۔ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر الین پیئرسن نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کی نفرت انگیز تقاریرسےعوام کے لیے عالمی سطح پر حقیقی خطرات لاحق ہیں اور بعض دفعہ لوگوں پر براہ راست جسمانی طور پر حملہ کیا گیا اور قتل کردیا گیا۔انہوں نے کہاکہ مودی کی ہندو اکثریتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت نے تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار امتیازی سلوک، دشمنی اور پسماندہ گروپوں کے خلاف تشددپر اکسانے والے بیانات دیے۔ مودی کی اسلام مخالف تقریروں میں الزام لگایاگیا کہ اپوزیشن کی جماعتیں غلط معلومات کے ذریعے ہندو برادری میں خوف پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں کے حقوق کو فروغ دے رہی ہیں۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد 20کروڑ سے زائد ہے اور وہ بھارت میں ایک مضبوط اقلیت ہیں۔انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ نریندر مودی نے اپنی تقاریر کے دوران مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے بارے میں جو بے بنیاد دعوے کیے ہیں وہ جھوٹے اور اشتعال انگیز ہیں، جو مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگراقلیتوں پر مزید مظالم کا باعث بنیں گے جو پہلے ہی مودی سرکار کے مظالم اور تعصب کا شکار ہیں۔رپورٹ میں مزیدکہا گیا ہے کہ نریندر مودی نے اپنی تقاریر میں جھوٹے دعوئوں کے ذریعے ہندوئوں میں خوف پھیلایا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آئیں تو ان کے عقائد، عبادت گاہوں، ان کے اثاثے، ان کی زمین، کمیونٹی، لڑکیوں اور خواتین کی سلامتی کو مسلمانوں سے خطرہ لاحق ہو گا ۔ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں رواں سال مئی میں انتخابات میں کامیابی کے بعد نریندر مودی کی تقریر کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے حزب اختلاف کی مرکزی جماعت انڈین نیشنل کانگریس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ملک کی دولت مسلمانوں کے درمیان تقسیم کی ہے۔انسانی حقو ق کی بین الاقوامی تنظیم نے کہا کہ نریندر مودی مسلسل پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مسلمان درانداز ہیں اورانکے بچے دیگر کمیونٹوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور 80فیصد ہندو بھارت کی اقلیت بن جائیں گے۔ملکی سطح پر مودی کے اس بیان پر کڑی تنقید کی گئی ۔ نریندر مودی نے عام انتخابات کے دوران کامیابی کیلئے جھوٹے دعوے کیے تھے، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعت کانگریس پر بے بنیاد الزامات عائد کردیے تھے کہ بھارت کے شہریوں سے قیمتوں اثاثے لیں گے اور آپس میں تقسیم کریں گے۔مئی میں جھارکھنڈ میں مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہمارے بھگوانوں کے بتوں کوتوڑا جا رہا ہے اور یہ درانداز(مسلمان)ہماری مائوں اوربیٹیوں کے تحفظ کیلئے خطرہ ہیں۔رواں سال مئی کو بارہ بنکی،اترپردیش میں مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اپوزیشن رام مندر کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور وہ اس پر بابری مسجد کھڑی کرسکتی ہے۔مودی نے اسی تقریر میں مزید کہا تھا کہ اگراپوزیشن اتحاد اقتدار میں آتا ہے تو وہ رام مندر پر بلڈورز چلا دیں گے۔ ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ بی جے پی کے دیگرلیڈروں بشمول وزیر داخلہ امیت شاہ، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما، وزیر کھیل انوراگ ٹھاکراوردیگر نے بھی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کیں جن کا مقصد ہندوئوں میں خوف پید اکرکے انہیں مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرناتھا۔رپورٹ میں مزید کہاگیاہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن بھی بی جے پی لیڈروں کی نفرت انگیز بیانات پر مبنی انتخابی مہم کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ نریندر مودی کے بیانات پر مختلف سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے مذمت کی گئی اور ان کی انتخابی مہم پر پابندی عائد کرنے کے مطالبات سامنے آئے تھے ۔ اگرچہ نریندرمودی لوک سبھا انتخابات کے بعدبھارت میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہے تاہم انہیںاپنے اہم مراکز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اتحادیوں پربی جے پی کا انحصار بڑھ گیا ہے۔