نئی دہلی: (نمائندہ خصوصی ) بھارتی دارلحکومت نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر نظر بند کشمیریوں پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کشمیری نظر بندوں کو ہفتے میں ایک مرتبہ اپنے اہلخانہ سے فون پر بات کرنے کی سہولت میسرتھی لیکن جیل انتظامیہ نے اب یہ سہولت ختم کر دی ہے۔ کشمیری نظر بندوںکو جیل میں پہلے ہی کٹھن حالات کا سامنا ہے ۔ نظر بندوں کو طبی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے نظر بندعلیل ہو چکے ہیں۔نظر بندو ں کو شدید گرمی میں پنکھوں کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔بھارتی ویب پورٹل ”دی وائر“ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ نظر بندوں کو بتایا گیا ہے کہ انہیں اہلخانہ سے فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں جس سے انکا اہلخانہ سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے ۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس پابندی کو گزرے تقریباً دیڑھ ہفتہ گزر چکا ہے ۔ نظر بندوں کے اہلخانہ اس پابندی کی وجہ سے سخت پریشان ہیں ، یہ لوگ وادی کشمیر سے تقریباً ایک ہزار کلو میٹر دور قید ہیں ۔ نظر بندوں کے اہلخانہ طویل مسافت اور مالی مشکلات کے باعث ان کے ساتھ ملاقات سے قاصر ہیں ۔ تہاڑ جیل میں بند اکثر کشمیریوںکو بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ( این آئی اے ) کی خصوصی عدالت میں بے بنیاد مقدمات کا سامنا ہے۔ نظر بندوں سے کہا گیا ہے کہ انہیں اپنے اہل خانہ سے بات کے لیے عدالت کے سامنے ایک نئی درخواست دائر کرنا ہوگی۔ رپورٹ میں جیل میں 2018سے تہاڑ جیل میں قید دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے بیٹے احمد نے اس پابندی پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی والدہ اور دیگر نظربندوں کو ہراساں کرنے کا ایک دانستہ اقدام قرار دیا۔یاد رہے کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف شاہ، سید شکیل یوسف ، بشیر احمد پنوں، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز، صحافی عرفان معراج، محمود ٹوپی والا، خالد محبوب پھلوان، عامر احمد گوجری اور نومنتخب رکن بھارتی رپارلمنٹ انجینئر رشید گزشتہ کئی سالوں سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔