نئی دہلی ( نمائندہ خصوصی )بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ نریندرا مودی کے ساتھ کئی وزراء نے بھی اپنے عہدے اور رازداری کا حلف لیا۔نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مسلسل تیسری بار مرکز میں حکومت بنائی ہے، لیکن اس بار مخالف اتحاد ”انڈیا“ کی جانب سے سخت مقابلے کے باعث اسے حکومت بنانے کیلئے اتحادیوں کا سہارا لینا پڑا ہے۔نریندرا مودی وزیراعظم تو بن گئے ہیں، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی اس بار بننے والی حکومت کمزور ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ وقت سے پہلے ہی مودی وزارت عظمیٰ چھوڑ دیں۔مودی کا مسلسل تیسری بار وزیراعظم کے عہدے کا حلف اُٹھانا ایک تاریخی سنگ میل ہے اور اس تقریب کیلئے متعدد ممالک کے سربراہان مملکت کو دعوت نامے بھیجے گئے، لیکن میڈیا رپورٹ کے مطابق صرف سری لنکا کے صدر رانیل وکرما سنگھے، مالدیپ کے صدر میوزو، افریقی ملک سیشلز کے نائب صدر احمد عفیف، بنگلا دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ، ماریشس کے وزیر اعظم جگناوتھ، نیپال کے وزیراعظم پشپا کمل دہل پراچندا اور بھوٹان کے وزیر اعظم شیرنگ اس تقریب میں شرکت کے لیے راضی ہوئے۔جبکہ امریکا سمیت خلیجی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے سربراہان مملکت نے شرکت سے معذرت کرلی۔کینیڈا سے پہلے ہی بھارت کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں جبکہ روس اور چین نے بھی تقریب میں شرکت پر خاموشی اختیار کی۔دو روز قبل بی جے پی کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی جانب سے نریندرا مودی کو باضابطہ طور پر تیسری بار وزیراعظم نامزد کیا گیا تھا، اجلاس میں نریندرا مودی کو متفقہ طور پر این ڈی اے اور بی جے پی کا لیڈر منتخب کیا گیا، مودی کو بی جے پی پارلیمانی بورڈ کا لیڈر بھی منتخب کیا گیا، جس کے بعد بھارتی صدر دروپدی مرمو نے مودی کو حکومت سازی کی دعوت دی۔مودی کی نئی حکومت کا قیام بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں جنتا دل (یونائیٹڈ) اور چندرا بابو نائیڈو کی زیر قیادت تیلگو دیشم پارٹی کی حمایت پر منحصر ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق مودی کی اتحادی جماعتیں، خاص طور پر تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) ایوان زیریں میں اسپیکر کے عہدے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، جبکہ بی جے پی 4 اہم وزارتیں اپنے پاس رکھے گی جن میں وزارت خارجہ، دفاع، داخلہ اور خزانہ شامل ہیں۔تاہم نریندر مودی کی پارٹی نے یہ ظاہر نہیں کیا ہے کہ اتحادی ارکان کو ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا رعایتیں دی گئی ہیں لیکن کئی بڑی جماعتوںکو اہم وزارتوں کے قلمدان دئے جانے کا امکان ہے