واشنگٹن:(مانیٹرنگ ڈیسک )دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ بہت طویل ہے جہاں اقلیتیں بالخصوص مسلمان بھارتی حکومت کے مظالم کا شکار ہیں۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق جب بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے تو بھارت اس میں سر فہرست ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کانگریشنل ریسرچ سروسز کی اپریل 2024کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بھارت انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا گیا ہے جن میں سے اکثر سنگین نوعیت کی خلاف ورزیاں ہیں۔رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں جو اہلکار ملوث پائے گئے ہیں، بھارتی حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ گزشتہ سال سویڈن میں قائم” ورائٹیز آف ڈیموکریسی پروجیکٹ” نے بھارت کو گزشتہ دس سالوں میں بدترین آمریت پسندوں میں سے ایک قرار دیا۔ اس سے قبل 2021میں امریکی فریڈم ہائوس کی رپورٹ میں کہاگیاتھاکہ انتہا پسند مودی اور ان کی جماعت بھارت کو بدترین آمریت کی طرف لے کر جا رہے ہیں اور بھارت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دوسرے ممالک میں بسنے والے افراد کے خلاف اپنی ایجنسیوں کے ذریعے حملے بھی کرواتا ہے۔بھارت میں تقریبا 80فی صد ہندو، 14 فی صد مسلمان ، 2 فی صد سکھ اور صرف 2 فیصد عیسائی آباد ہیں اور اقلیتوں کی اتنی کم تعداد بھی ہندوتوا کے پرچارکوں کو قبول نہیں جو آئے روز ان پر ظلم وستم کرتے ہیں۔ کانگریشنل ریسرچ سروسز کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میںہراساں کرنا، دھمکیاں دینا اور قتل تک کر دینا شامل ہے۔ انتہا پسند ہندو گائے کو ذبح کرنے یا اس کی تجارت کرنے کی آڑ میں مسلمانوں پر پرتشدد حملے کرتے اور ان کو قتل کرتے ہیں۔مسلمانوں کے بعد بھارتی انتہا پسندوں کے ظلم و ستم کا دوسرا بڑا شکار مسیحی برادری ہے جن پر ہر ہفتے اوسطا 11پرتشدد حملے کیے جاتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے 2022 میں کہا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں کچھ بھارتی اہلکار نہ صرف شامل ہیں بلکہ حملہ آوروں کی سہولت کاری بھی کر رہے ہیں۔انتھونی بلنکن کا یہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے حملوں کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے 2020میں یہ سفارش بھی کی کہ وزارت خارجہ بھارت کو مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک تشویش ناک ملک کے طور پر نامزد کرے۔گزشتہ سال پریس فریڈم کی رپورٹ میں بھی بھارت میں آزادی اظہار رائے، میڈیا پر سنگین پابندیوں، صحافیوں کی بلاجواز گرفتاریوں اور ان کے خلاف مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پریس فریڈم رپورٹ 2023 کے مطابق بھارت میں انٹرنیٹ پر سنگین پابندیاں، آن لائن مواد کی سنسر شپ اور ڈیجیٹل میڈیا صارفین پر بھارتی حکومت کا دبائو آزادی اظہار رائے کو سلب کرتا ہے، سال 2022میں 84بار انٹرنیٹ کو بلیک آئوٹ کرنے پر مسلسل پانچویں سال بھارت کو دنیا کا سب سے بڑا مجرم قرار دیا گیا۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ2019میں انتہا پسند مودی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کردیا جو اقلیتوں کے حقوق کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق خصوصی اختیارات کے قانون کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے بھارتی فورسز کو بغیر کسی الزام کے بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتارکرنے کی اجازت دی گئی۔بھارت میں خواتین کو ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں جنسی تشدد عام ہے۔بھارت میں جبری شادی، خواتین کا قتل، جبری گمشدگیاں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ایک معمول بن چکا ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں کوکی اور میتی قبائل کے درمیان تنازعے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔ رپورٹ سے ظاہرہوتا ہے کہ بھارت میں ہندوانتہا پسندی عروج پر ہے اور آئے روز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔