لکھنو:(مانیٹرنگ ڈیسک )بھارتی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں پولیس نے2020میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنے والی خواتین کو اپنے گھروں میں نظربند کردیا۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق خواتین رہنمائوں نے کہاکہ اتر پردیش پولیس نے انہیں 15مارچ کو گھروں میں نظر بند کر دیا تاکہ ہم شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھاسکیں۔معروف شاعر منور رانا کی دو بیٹیوں کو بھی جمعہ کی صبح سے شام تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔تاہم ان خواتین مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ ان کے مطابق یہ قانون امتیازی اور بھارتی آئین کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ لکھنو میںمشہور گھنٹہ گھر(حسین آباد) کے ارد گرد جو 2020میں تقریبا دو ماہ تک احتجاجی مظاہروں کا مرکزبنا رہا، پولیس کی بھاری تعینات کی گئی۔ارم فاطمہ 2020کے احتجاجی مظاہروں کی منتظمین میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ سی اے اے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سے ہی پولیس ہر روز ان کے فلیٹ پر آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں میرے اپارٹمنٹ کے باہر پولیس تعینات کر دی گئی ہے اور پولیس اہلکار اپارٹمنٹ میں آنے والے ہر مہمان سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف میرے لیے توہین آمیز بلکہ میرے پڑوسیوں کے لیے بھی پریشان کن ہے۔ان کے مطابق پولیس نے کچھ دیگر خواتین مظاہرین کو بھی نوٹس بھیج کر تھانوں میں بلایا ہے۔ پولیس جمعہ کی صبح 10بجے لکھنو میں جھانسی کی رانی کے نام سے مشہور عظمیٰ پروین کے گھر پہنچی ۔ عظمی کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں گھر میں نظر بند کر دیا اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی۔ عظمی نے کہا کہ یہ انتہائی شرمناک ہے کہ پولیس رمضان کے مقدس مہینے میں ہماری تذلیل کر رہی ہے۔ اسی طرح بہت سی دیگر خواتین کو بھی ان کے گھروں میں نظربند کیاگیا تاکہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں۔