کیا نیوزی لینڈ نے واٹر سپلائی میں کرونا ویکسین شامل کر دی ہے؟ یہ پریشان کن سوال بڑی شدت سے تب اٹھا جب سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے یہ دعوے سامنے آنے لگے کہ حکومت نے کرونا انفیکشن کے بڑھتے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے واٹر سپلائی میں ویکسین شامل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے جو دعوے کیےگئے ہیں ان میں ایک مشہور اخبار کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، پوسٹس میں نیوزی لینڈ ہیرالڈ کے ایک مضمون کے اسکرین شاٹ کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ لیک ای میلز نے حکومت کے خفیہ منصوبے کو بے نقاب کر دیا ہے۔
تاہم، مذکورہ اخبار اور نیوزی لینڈ کی وزارتِ صحت نے اے ایف پی کو بتایا کہ مبینہ رپورٹ من گھڑت ہے، ایک ماہر صحت نے کہا کہ پانی کی فراہمی میں ویکسین شامل کرنے کا خیال ‘بے حد مضحکہ خیز’ ہے۔
سوشل میڈیا پوسٹس میں جو اسکرین شارٹ دکھایا گیا ہے، اس پر لکھا گیا ہے کہ ‘سرکاری حکام اور متعدد مقامی کونسلوں کے درمیان ای میلز کا تبادلہ ہوا ہے، جن میں ان علاقوں میں پانی کی سپلائی میں کرونا ویکسین شامل کرنے کی بات کی گئی ہے جہاں ویکسینیشن کی شرح 90 فی صد تک نہیں پہنچی ہے۔
یہ اسکرین شاٹ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، اسپین اور فلپائن سمیت دنیا بھر میں اسی طرح کی سوشل میڈیا پوسٹس میں گردش کرتا دکھائی دیا، خیال رہے کہ یہ پوسٹس ایک ایسے وقت میں گردش کر رہی ہیں جب نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن عہدہ سنبھالنے کے بعد کم ہوتی مقبولیت کا سامنا کر رہی ہیں، ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ڈیلٹا اور اومیکرون ویرینٹس کے چیلنجوں سے نمٹنے میں ناکام رہیں۔
من گھڑت رپورٹ
دی نیوزی لینڈ ہیرالڈ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی جانب سے آن لائن شیئر کی گئی کہانی کبھی نہیں چلائی گئی، اخبار کے منیجنگ ایڈیٹر شائن کاری نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایسی کوئی پوسٹ یا کہانی کبھی بھی ان کے اخبار نے تیار نہیں کی۔
اخبار کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مطلوبہ الفاظ کی تلاش میں مطلوبہ رپورٹ نہیں ملی۔ نیوزی لینڈ کی وزارت صحت کے نمائندے نے کہا کہ یہ دعویٰ کرنا کہ وہ پانی کی سپلائی میں ویکسین شامل کر رہے ہیں، مکمل طور پر غلط ہے۔
ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ جب وہ وائرس اور ویکسین کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں تو معلومات کے صرف قابل اعتماد ذرائع پر انحصار کریں۔
‘مضحکہ خیز’ دعویٰ
ویکسین کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ یہ کہنا کہ لوگوں کو ویکسینیٹد کرنے کے لیے پانی کی سپلائی میں شاٹس شامل کیے جا سکتے ہیں، سراسر مضحکہ خیز ہے۔
آکلینڈ یونیورسٹی کی ویکسینولوجسٹ ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیلن پیٹوسس ہیرس نے اے ایف پی کو بتایا کہ جیسے ہی ویکسین پانی میں شامل ہو جائے، اس کے نینو پارٹیکلز بہت تیزی سے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے، اور اسی طرح mRNA بھی، اور اس میں کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔
انھوں نے کہا کہ یہ خیال کہ آپ اس طریقے کو استعمال کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر دوا دے سکتے ہیں، سراسر مضحکہ خیز ہے۔