کراچی ( کاشف گرامی سے)
پاکستان کے لیجنڈ اداکار وحید مراد کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 39 برس گزر گئے۔وحید مراد کی پہلی فلم ’ہیرا اور پتھر‘ تھی مگر سلور اسکرین پر مسلسل 75 ہفتے چلنے والی فلم ’ارمان‘ نے وحید مراد کو بام عروج پر پہنچایا۔
برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وحید مراد وہ واحد ہیرو تھے جن کے ہیراسٹائل اور ملبوسات کی نقل کی گئی۔
وحید مراد نے2 اکتوبر 1938 کو فلمساز نثار مراد کے گھر آنکھ کھولی اور کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا۔
ایک دور میں اداکار وحید مراد نے ہدایت کار پرویز ملک کی ٹیم، جس میں گیت نگار مسرور انور، موسیقار سہیل رعنا اور گلوکار احمد رُشدی بھی شامل تھے، مل کر کامیاب فلموں کے ریکارڈ قائم کیے۔
وحید مراد نے فلم دوراہا، عندلیب، جب جب پھول کھلے، سالگرہ، انجمن، جہاں تم وہاں ہم پھول میرے گلشن کا، دیور بھابھی سمیت 124 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائیں۔
23 نومبر 1983 کو پاکستانی فلم انڈسٹری کو نئی جدتیں دینے والے وحید مراد دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔
شاندار فنی خدمات پر وحید مراد کو ستارہ امتیاز، نگار، گریجویٹ، نیشنل مصور سمیت دیگر ایوارڈز سے نوازا گیا۔لاہور سے نمائندہ خصوصی کے مطابق اسکرین پر رومانوی کرداروں کو انتہائی منفرد انداز میں ادا کرکے مداحوں کے دلوں میں گھر کرنے والے پاکستانی فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے 39 برس ہوگئے۔
‘کو کو کورینا، پیار میں ہم نے جان تمنا، اے ابر کرم، زندگی اپنی تھی اب تک،حسن جو دیکھا تمہارا، بھولی ہوئی داستاں اور اک نظر تو دیکھیے گا حضور اعلیٰ’ سمیت درجنوں رومانوی گانوں کو اپنی اداکاری سے یادگار بنانے والے وحید مراد 2 اکتوبر 1938 کو حالیہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پیدا ہونے۔
اداکاری کی وجہ سے مداحوں کے دلوں میں اتر جانے والے وحید مراد نے ابتدائی تعلیم بھی کراچی سے ہی حاصل کی، انہوں نے ایس ایم آرٹس کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد جامعہ کراچی سے ایم اے انگلش کیا اور فلم ’اولاد‘ سے فنی سفر کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے سپورٹنگ اداکار کا رول نبھایا اور اس فلم کو ‘نگار ایوارڈ’ ملا۔
برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وہ دوسرے اداکار تھے جو نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہوئے مگر 1970 کی دہائی میں ان کے پاس اپنی ساتھی اداکار چننے کی چوائس بہت کم باقی رہ گئی تھی، زیبا کو ان کی شادی کے بعد محمد علی نے وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیا تھا۔
مستقبل میں اداکارہ شبنم کی بھی شادی ہوگئی تو انہیں ان کے شوہر نے وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے منع کردیا، اس کے ساتھ ساتھ نشو کو بھی وحید مراد کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
اور یہی باتیں ان کو پستی کی طرف لے جانے کی وجہ بنیں، اس کے بعد وحید مراد کو کم مقبول ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کی طرف سے hi کاسٹ کیا جانے لگا۔
وحید مراد کو 1964 میں ہیرا اور پتھر، ارمان (1966)، عندلیب (1969) اور مستانہ ماہی (1971) میں شاندار اداکاری پر نگار ایوارڈ جبکہ 2002 میں لائف ٹائم لیجنڈ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
چاکلیٹی ہیرو نے مجموعی طور پر 124 فلموں میں کام کیا جن میں 8 پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے اور ان کے مذکورہ فلموں کے درجنوں گیت آج بھی لوگوں میں مقبول ہیں۔بدقسمتی سے 1980 میں وحید مراد کا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا، جس سے ان کا چہرہ شدید زخمی ہوا اور انہیں پلاسٹک سرجری کرانی پڑی تاہم اس کے بعد فلموں میں ہونے والی ناکامی نے وحید مراد کو دلبرداشتہ کر دیا اور 23 نومبر 1983 کی صبح فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔وحید مراد کی وفات کے 27 سال بعد نومبر 2010 میں انہیں ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا