لاہور (رپورٹ:خالد اعجاز مفتی) نامور ڈرامہ لکھاری، ہدایت کار نیز ٹی وی اور تھیٹر کے اداکار سی ایم منیر کی 14ویں برسی کے موقع پر "ماس فاؤنڈیشن” کی جانب سے ایک نیا میوزیکل ڈرامہ "آج کی امراؤ جان” الحمراء ہال ،مال روڈ، لاہور میں پیش کیا گیا۔ ڈرامے کو ڈاکٹر ریاض بابر نے تحریر کیا ہے جبکہ اس کی ہدایات صدر ماس فاؤنڈیشن عامر نواز نے دی ہیں۔ اس کی کوریوگرافی گلشن مجید اور شاہد بلوچ نے کی ہے جبکہ میوزک عمران مانی نے ڈیزائن کیا ہے۔ عامر علی ڈرامے کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں جبکہ میڈیا کوآرڈینیشن خالد اعجاز مفتی نے کی۔ کاسٹ میں ایشا شکیل، زوہیب حیدر، ایشا ملک، ظہیر تاج، مقدس ملک، کامران بلوچ، ماروی اور سرفراز انصاری شامل ہیں۔ پرفارمنس کے دوران حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہال بار بار تالیوں سے گونجتا رہا جس سے ڈرامے کو ذبردست پذیرائی ملی۔ ڈرامے کے آغاز سے ہی خوبصورت سیٹ، اچھی روشنی کا استعمال اور تمام کرداروں کی پرفارمنس نے شائقین کی توجہ حاصل کی۔ماس فاؤنڈیشن کے صدر اور آرٹسٹک ڈائریکٹر عامر نواز نے کہا کہ ماس فاؤنڈیشن کو پاکستان کی واحد تھیٹر کمپنی ہونے پر فخر ہے جس نے انگریزی، اردو، پنجابی اور غیر زبانی (خاموش پرفارمنس) سمیت تمام فارمیٹس اور مختلف زبانوں میں تھیٹر ڈرامے پیش کیے ہیں۔ ماس فاؤنڈیشن نے مختلف بین الاقوامی تھیٹر فیسٹیولز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے جس میں بھارت، چین، ترکمانستان، جنوبی کوریا، متحدہ عرب امارات اور سری لنکا کے تہوار بھی شامل ہیں۔اس سب سے زیادہ منتظر ڈرامے کا مرکزی خیال مرزا ہادی رسوا کے مشہور ناول "امراؤ جان ادا” سے لیا گیا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ مرزا کا دور سماجی اور ثقافتی اتھل پتھل کا دور تھا، پرانی مغلیہ اور اودھی اقدار ختم ہو رہی تھیں اور انگریز حکمران آہستہ آہستہ عام لوگوں کی زندگیوں کی ہر تہہ میں گھس رہے تھے۔ آرٹ کا یہ نمونہ بے رحمی اور خود غرضی کے اُس دور کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈرامے کی کہانی تقسیم ہند سے لے کر انگریزوں سے آزادی اور ہمارے آج کے معاشرے تک پھیلی ہوئی ہے۔ ڈرامہ نہ صرف امراؤ کی وجہ سے باپ اور بیٹے کی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے بلکہ درحقیقت اس میں مادیت اور آئیڈیلزم، سرمایہ داری اور سوشلزم کے درمیان تصادم کے تاریک پہلو کو بھی دکھایا گیا ہے۔ اس ٹکڑے کو متاثر کرنا اس بحث کا نقطہ آغاز ہے کہ ہم سب کیا خواب دیکھ رہے ہیں اور حقیقت میں ہم کیا ہیں۔ سٹیج پر ٹائم لیپس دکھانا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے لیکن اس ڈرامے میں رقص اور موسیقی کے سفر کے ذریعے فنکارانہ انداز میں اس کی نمائندگی کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ میوزیکل ڈرامہ ایک تفریحی ٹکڑا ہے لیکن گہری حساسیت رکھنے والے لوگ اس میں سماجی پیغام بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ فوری طور پر اس کے کرداروں کی سماجی حیثیت سے نفرت نہ کریں تو یہ کردار آپ کو اُن انسانوں کی طرح دکھائی دیں گے جو ہماری طرح اتفاقاً وقت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کبھی وہ جدوجہد جیت جاتے ہیں اور کبھی ہار جاتے ہیں۔ دن رات ان سانحات سے گزرتے ہوئے اس ڈرامے کے کرداروں کو وقتاً فوقتاً ان سانحات سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ آپ ان کی جدوجہد کو محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ اگر آج کی تیز رفتار زندگی سے اپنے آپ کو سست کر سکتے ہیں تو آپ کو ڈرامے کے مرکزی خیال، الفاظ کے چناؤ اور اردو شاعری کی مٹھاس سے پیار ہو جائے گا۔ ڈرامے میں زبان اور محاورے کی غلطیاں جان بوجھ کر کی گئی ہیں، حادثاتی نہیں۔اس ڈرامے کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے بلکہ اُس انسانی ہمت کو اُجاگر کرنا ہے جس کی وجہ سے کائنات کو فتح کیا گیا۔