یوں تو سیالکوٹ میں فلم اور ڈرامہ کے بہت سے بڑے نام پیدا ہوئے مگر شیام جیسا فلمی ہیرو ایک بڑا نام سمجھا جاتا ہےاداکار شیام کے آباواجداد کئ صدیوں سے راولپنڈی میں آباد چلے آ رہے تھے، جو 1947ء میں بھارت ہجرت کر گئے۔شیام کے بھائی ہربنس کی بیٹے بیمل کی اہلیہ وینا کے آباواجداد کا تعلق بھی راولپنڈی سے ہے۔مگر شیام کی قسمت میں سیالکوٹ کی دھرتی میں پیدا ہونا تھا شیام کے والد فوج میں ملازمت کرتے تھے اور ان دنوں سیالکوٹ میں تعینات تھے جب شیام نے 20 فروری 1920ء میں شاعر مشرق کے شہر میں جنم لیا۔ شیام نے راولپنڈی میں پرورش پائی اور مشہور زمانہ گورڈن کالج میں داخلہ لیا جہاں سے پاکستان کے بہت سے معروف نام فارغ التحصیل ہیں۔ان کی والدہ بہت چھوٹی عمر میں انہیں داغِ مفارقت دے گئیں لیکن والد کی دوسری شادی کے بعد سوتیلی ماں نے نہایت محبت اور شفقت سے ان بچوں کو پال پوس کر بڑا کیا۔ گو کہ شیام نے اپنے سوتیلی والدہ کا بہت احترام کیا اور اپنے بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا لیکن اپنی والدہ کی کمی کو وہ ہمیشہ محسوس کرتے رہے۔ ان کے چھوٹے بھائ کا نام ہربنس تھا جنہوں نے طویل عمر پائ۔
1940ء میں لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کی ایک تقریب میں شیام کی ملاقات اداکارہ ممتاز قریشی سی ہوئی جو اپنی بہن زیب قریشی کے ساتھ تقریب میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔ یہ ان کہ پہلی ملاقات تھی۔ شیام ان مسلمان اداکارہ ممتاز قریشی، جو فلمی حلقوں میں ‘تاجی’ کے نام سے مشہور تھیں، کی محبت میں گرفتار ہو گئے اور صرف بیس برس کی عمر میں ممتاز سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور بمبئ میں گھر بسایا۔
ممتاز کا تعلق لاہور سے تھا۔ ممتاز کی پہلی شادی شاید اداکار ظہور راجا سے ہوئ تھی۔ شیام سے ممتاز کے دو بچے تھے۔ ایک صاحبزادی تھیں، ساحرہ انصاری، جنہوں نے ڈرامہ آرٹسٹ راحت کاظمی سے شادی کے بعد ساحرہ کاظمی کے نام سے ٹی وی ڈراموں میں شہرت پائی اور بہت سے کامیاب ڈراموں کی ہدایتکاری بھیی کی۔ شیام کے ایک صاحبزادے شاکر بھی ہیں جو اپنے والد کی وفات کے دو ماہ بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ اب بیرون ملک ذہنی امراض کے ڈاکٹر ہیں۔
شیام مردانہ وجاہت کا اعلی نمونہ تھے۔ وہ طویل القامت، خوش شکل، خوش مزاج، اور رنگین مزاج تھے۔ اداکاری کا شوق چرایا تو قسمت آزمائی کے لئے لاہور آ گئے اور فلم انڈسٹری کا رُخ کیا۔ والد کی مخالفت کے باوجود 1942 میں صرف اکیس برس کی عمر میں فلمی دنیا میں قدم رکھ دیا اور پہلی پنجابی فلم ‘ گوانڈی’ (1942ء) میں جلوہ افروز ہوئے جن میں ان کی ہیروئین خوبصورت سی وینا تھیں جنہوں نے رومانوی کرداروں اور پھر شادیوں کے باعث شہرت پائی۔
شیام نے بہت سی اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا لیکن زیادہ شہرت اردو فلموں سے پائ۔ ان کی مشہور فلموں میں ایک فلم ‘بازار’ تھی جو 1949ء میں ریلیز ہوئ۔ اس میں ان کی ہیروئین نگار سلطانہ تھیں۔ نگار سلطانہ نے شہرہ آفاق فلم ‘مغل اعظم’ (1960ء) میں بہار بیگم کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ فلمساز کے۔ آصف ان کے پہلے شوہر تھے۔
شیام اور سعادت حسن منٹو آپس میں بہت گہرے دوست تھے۔ اس کا اظہار منٹو نے اپنی ایک کہانی میں بھی کیا بلکہ یوں کہنا درست ہو گا کہ ساری کہانی ہی شیام پہ لکھی اور خوب لکھی۔ شیام منٹو کی بہت سی کہانیوں کا سبب بنے۔ انہوں نے کچھ عرصہ اکٹھے ایک اپارٹمنٹ میں بھی گزارا. تقسیم کے بعد شیام نے بھارت رہنے کو ترجیح دی لیکن ان کی دوستی میں کوئی فرق نہ آیا۔ ان دونوں کی دوستی اتنی مضبوط تھی کہ تقسیمِ کے بعد بھی یہ قائم رہی۔ شیام خوبصورت اور وجیہہ تھے۔ ان کے فلمی دنیا میں بہت سی اداکاروں کے ساتھ سکینڈل بھی بنے۔
25 اپریل 1951ء کو بمبئ سے چالیس میل دُور شیام ایک فلمی سیٹ پر موجود ‘شبستان’ فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ وہ بہت اچھے گھڑ سوار تھے لیکن اس دن ایک غیر تربیت یافتہ گھوڑے پر سوار تھے جو شوٹنگ کے دوران بے قابو ہو گیا۔ شیام توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گھوڑے سے اس طرح گرے کہ ایک پاوں رکاب میں پھنسا رہ گیا۔ وہ بے قابو گھوڑے کے ساتھ ساتھ گِھسٹتے رہے۔ جب تک گھوڑے کو قابو کیا گیا اس وقت تک شیام شدید زخمی ہو چکے تھے۔ ان کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔ انہیں فورا قریبی پرائیویٹ ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے انہیں پرسکون رکھنے کے لئے انجیکشن بھی لگائے لیکن ان کا انداز جارحانہ رہا۔ شیام چونکہ مشہور اداکار تھے اس لیے حادثے کا سن کر ان کے پرستاروں کا ہجوم ہسپتال کے باہر جمع ہونا شروع ہو گیا۔ ڈاکٹروں کی کوشش کے باوجود نیم بےہوشی میں ہی شیام کا انتقال ہو گیا۔ان کی وفات کا سن کر لاہور اور ممبئ میں صف ماتم بچھ گئی۔جس دن شیام کی وفات ہوئ وہ دن ان کے چھوٹے بھائ ہربنس کی سالگرہ کا دن بھی تھا۔
شیام کی وفات کے بعد اداکار دلیپ کمار نے مالی مدد کی غرض سے تاجی کو اپنی پرائیویٹ سیکرٹری بنا لیا تھا۔ فلموں میں تاجی کا کوئی مستقبل نہ تھا اس لیے ممتاز اپنے دونوں بچوں اور بڑی بہن کو لے کر بمبئ سے لاہور آ گئیں۔ یہاں آ کر ممتاز کی بڑی بہن، تعلیم یافتہ اور خوبرو زیب قریشی نے جن پاکستانی فلموں میں کام کیا وہ تھیں، ‘انوکھی ادا’ (1948ء) جس کے ہدایتکار محبوب تھے۔ ‘بھول بھلیّیاں’ (1949ء) ‘نوجواں’ ( 1951ء) ، اور ڈائیریکٹر (1951ء)۔ مگر وہ اداکارہ کے طور پر مقامی فلمی صنعت میں کوئی مقام نہ بناسکیں۔
کچھ عرصہ بعد ممتاز نے راولپنڈی کے ایک اعلی سرکاری عہدےدار انصاری نامی ایک شریف النفس انسان سے عقد ثانی کر لیا۔
جنہوں نے تاجی کے دونوں بچوں کو نہ صرف اولاد کی طرح پالا بلکہ انہیں اپنا نام بھی دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ساحرہ شادی سے پہلے ساحرہ انصاری کہلاتی تھیں۔ انصاری صاحب سے شادی کے بعد تاجی نے دو بچّوں کو جنم دیا جن میں ایک لڑکا ہے اور دوسری لڑکی۔ لڑکی کا نام زینت انصاری اور لڑکے کا شاکر انصاری ہے۔ 2000ء میں ممتاز کراچی میں انتقال کر گئیں۔
ساحرہ کاظمی اور اس کے بھائی شاکر شیام انصاری نے بمبئ اور پونا شہر میں باپ کی کافی جائیداد وراثت میں پائی لیکن رشتہ داروں کی بار بار یاد دہانی کے باوجود دونوں بہن بھائیوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی اور کوئ کلیم داخل نہ کیا۔
جب دلیپ کمار پہلی مرتبہ پاکستان آئے تو سامعین میں ساحرہ کاظمی کی طرف اشارہ کر کے بولے:’ مجھے خوشی ہے کہ میری اتنے سالوں بعد اپنے دوست ( شیام) کی بیٹی سے ملاقات ہوئ۔’شیام بلاشبہ بھارتی فلم انڈسٹری کا ایک مقبول ترین نام تھا۔ وہ پیدائشی سیالکوٹی تھے، لاہور اور راولپنڈی میں پلے بڑھے اور بمبئ میں سکونت پذیر رہے۔ جیون کی اکتیس بہاریں ہی دیکھ پائے اور بہت جلد دنیا سے رخصت ہو گئے۔