ہاربن (شِنہوا) پاکستان میں تعطیلات گزارنے کے بعد عبا س کو چین واپسی پر ہمیشہ یہ محسوس ہو تا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔چین میں عباس کیلئے ترقی کے مواقع اور خواب بھی موجود ہیں۔
عباس 1992 میں پیدا ہوئے اور پاکستان میں ہی جوان ہوئے۔ 2013 میں جامعہ پنجاب سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے چین میں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
عباس کا انڈر گر یجو یٹ تعلیم کے دوران ارادہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کا تھا تاہم انہوں نے اس حوالے سے اپنی منزل طے نہیں کی تھی۔اس فیصلے نے ان کا مستقبل مکمل طور پر بدل دیا۔
انہوں نے بتایا کہ میرا بھائی چین کے شمال مشرقی صوبہ حئی لونگ جیانگ کے شہر ہاربن کی شمال مشرقی زرعی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کررہا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہاربن میں تعلیمی ماحول بہت اچھا ہے لہذا میں نے ہاربن کے ایک تعلمی ادارے میں درخواست دینے کا فیصلہ کیا۔
عباس نے بتایاکہ آخر کار انہوں نے ہاربن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا اور اسکالرشپ حاصل کیا ۔انہوں نے 2014 سے 2015 تک ہاربن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پہلے چینی زبان کا ایک سال کا کورس کیا۔
چین آمد سے قبل عباس چینی زبان نہیں بول سکتے تھے جب وہ پہلی بار ہاربن پہنچے تو وہ بہت سی چیزوں سے مطمئن نہ تھے۔ ہاربن میں موسم سر ما میں موسم کافی سرد ہوتا ہے اور پاکستان سے دوری بھی بہت ہے ۔ لیکن یہاں رہائش اور شہری ماحول بھی بہت اچھا ہے۔ یہاں کے اساتذہ خاص طور پر بہت دوستانہ ہیں۔
چینی زبان کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عباس نے اکاؤنٹنگ میں ماسٹر ڈگری کی تعلیم شروع کی ۔
عباس نے بتایا کہ انہیں یہاں بہت مدد ملی اور گرم جوشی کا احساس ہوا جس کے بعد یوں لگتا تھا کہ وہ اپنے گھر میں ہیں۔
عباس نے 2018 میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد انہیں ہواوے سمیت کئی کمپنیوں سے ملازمت کی پیشکش ملی تاہم انہوں نے پی ایچ ڈی کے لیے ہاربن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا۔
عباس نے بتایا کہ میں نے کامیابیوں کے لئے اس وقت چین میں قیام کا فیصلہ کیا تا کہ نہ صرف تعلیم جاری رکھ سکوں بلکہ ملازمت کے بہتر مواقع بھی مل سکیں ۔
بلاشبہ پی ایچ ڈی کے لیے کئی جا معات کا انتخاب کرسکتا تھا لیکن مجھے لگا کہ ہاربن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے اساتذہ بہت اچھے ہیں، اس لیے میں نے یہاں رہتے ہوئے اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔
بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو کے تحت چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ 2013 میں شروع ہوا تھا جس کے بعد دونوں ممالک میں نقل و حمل، توانائی اور دیگر شعبوں میں تبادلے اور تعاون میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
عباس نے کہا کہ پاکستان میں متعدد چینی کمپنیاں سڑکیں اور پل تعمیر کررہی ہیں اور ان کا کام بہت مئو ثر ہے ۔ چونکہ میں نے چین میں تعلیم حاصل کی تھی، اس لیے مجھے ایک چینی کمپنی میں ملازمت مل گئی اور میں نے پاکستان میں ایک بجلی منصوبے پر کام کیا۔
عباس نے پاکستان میں تھر کول فیلڈ کے بلاک 1 میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا ذ کر کیا۔صوبہ سندھ میں واقع یہ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت توانائی شعبے میں تعاون کا ایک اہم منصوبہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی رہتی ہے، لہٰذا یہ منصوبہ مقامی لوگوں کی زندگیوں میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ نہ صرف لاکھوں گھرانوں کی بجلی کی ضرورت پوری کررہا ہے بلکہ اس نے پاکستان میں توانائی کی لاگت میں بھی کمی کی ہے۔ اس نے توانائی ڈھانچے کو بہتر بناکر روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا کئے ہیں۔
عباس نے منصوبے کے دوران متعدد چینی ساتھیوں سے ملاقات کی اور ان تبدیلیوں کے بارے میں بھی سیکھا جو چینی کمپنیاں کام کے کے حوالے سے پاکستان لائی ہیں۔ یہ منصوبہ ایک صحرائی علاقے میں ہے اور اس نے مقامی ماحول کو بہتر بنانے کا عمل تیز کیا ہے۔
عباس کا کام ستمبر 2022 میں ختم ہوا جس کے بعد وہ ہاربن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے واپس آگئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کام سے انہیں نہ صرف چین پاکستان تعاون سے دونوں ممالک کو حاصل فوائد کا احساس ہوا بلکہ انہیں ترقی کے لئے چین میں دستیاب مواقع سے سیکھنے اور چین میں رہنے کے عزم کو تقویت ملی۔
گزشتہ برسوں کے دوران عباس نے بیجنگ، شنگھائی، دالی اور نان جنگ جیسے درجنوں چینی شہروں کا سفر کیا اور چین کی تیز رفتار ترقی دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ ہاربن اس کی مثال ہے جہاں گزشتہ 10 برس میں بہت کچھ بدل گیا ہے، نقل و حمل، عمارتوں اور ماحول میں بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی لہٰذا چین مجھے ترقی کے بہت سے مواقع فراہم کرسکتا ہے۔
رواں سال عباس اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے ہیں ۔ ان کی بہن بھی پی ایچ ڈی کرنے کے لئے ہاربن میڈیکل یونیورسٹی آرہی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ آپ دیکھیں، میرا خاندان بھی میری طرح چین کو بہت پسند کرتا ہے، کیونکہ ہاربن میں تعلیم حاصل کرنا اور رہنا بہت آرام دہ ہے۔ میں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کہاں جانا ہے تاہم میں جانتا ہوں کہ چین میرا گھر بن سکتا ہے۔