تیانجن (شِنہوا) بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع پاکستان کے پورٹ قاسم کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر نے 2017 میں کام شروع کیا تھا جس کے بعد سے یہ چین ۔پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں ایک اہم شناخت بن گیا ہے۔یہ سی پیک کے تحت پاکستان کا پہلا توانائی منصوبہ ہے جس سے 40 ارب کلوواٹ۔ آورز (کے ڈبلیو ایچ) سے زائد بجلی پیدا کی گئی ہے جس سے ملک بھر میں 40 لاکھ سے زائد گھروں کو مسلسل بجلی فراہم کی گئیاس توانائی منصوبے میں کوئلہ اتارنے کے مقام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جسے چین کے پاور چائنہ گروپ کا ذیلی ادارہ پاور چائنہ ہاربرکمپنی لمیٹڈ گزشتہ 7 برس سے کامیابی سے چلارہا ہے اور اس کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔پاکستان طویل عرصے سے توانائی کی قلت کا سامنا کر تا رہا ہے اور پورٹ قاسم بجلی گھر کے آغاز سے پہلے صوبہ سندھ کو بار بار بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ سندھ کے رہائشیوں کو ہر دو گھنٹے کی بندش کے بعد صرف ایک گھنٹہ بجلی مہیا کی جارہی تھی۔پاور چائنہ ہاربر کے پورٹ قاسم آپریشنز کے پروجیکٹ منیجر جانگ شوگوانگ کا کہنا ہے کہ پورٹ قاسم بجلی گھر کے فعال ہونے سے قبل بجلی کی بندش روزمرہ کی حقیقت تھی۔ 2016 سے پاکستان میں فرائض سر انجام دینے والے جانگ نے پلانٹ کے آغاز کے بعد سے ملک میں بجلی کی فراہمی میں نمایاں بہتری کا ذکر کیا۔پورٹ قاسم منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ایک اہم حصہ تھا، اس نے پاکستان میں شہری سہولیات کی ترقی کو فروغ دیا۔ اس بجلی گھر کا سنگ بنیاد مئی 2014 میں رکھا گیا تھا اور یہ سی پیک کے تحت توانائی کا پہلا منصوبہ تھا۔ کوئلہ اتارنے والے ٹرمینل کی تعمیر بجلی گھر کے ساتھ ہی ہوئی تھی جس نے منصوبے کی کامیابی میں اہم کردارادا کیا ہے۔تعمیر کے ابتدائی دنوں میں پورٹ قاسم ساحلی پٹی بڑی حد تک غیر ترقی یافتہ تھی۔ پورٹ قاسم آپریشنز کے مینٹیننس اینڈ سپورٹ ڈائریکٹر سن یی تیان نے ٹیم کو درپیش صورتحال کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہم عارضی رہائش گاہوں میں رہتے تھے اور یہ اتنی معمولی سی تھیں کہ ہم پڑوسیوں کو نیند میں بات کرتے ہوئے سن سکتے تھے۔ان تمام مشکلات کے باوجود ایک جدید بجلی گھر صرف 2 برس میں مکمل ہوا۔ 17 اگست2017 کو ایک بحری جہاز پورٹ قاسم پہنچا جس سے کوئلہ اتارنے کے ٹرمینل کا باضابطہ افتتاح ہوا۔ 2017 کے اختتام تک بجلی گھر کے پہلے یونٹ سے بجلی کی پیداوار شروع ہوئی۔ پورٹ قاسم ٹرمینل پر اب تک 1 کروڑ 80 لاکھ ٹن سے زائد کوئلہ اتاراجاچکا ہے جس سے 40 ارب کلو واٹ آور سے زائد بجلی پیدا کی گئی۔پورٹ قاسم بجلی گھر ایک طرف پاکستان کو ضروری توانائی مہیا کررہا ہے تو دوسری جانب مقامی اقتصادی ترقی میں بھی محرک ہے۔ منصوبے نے اپنے آپریشنز کو معیاری بنانے اور مقامی صلا حیتوں کے فروغ پر توجہ مرکوز کی جو اس کے طویل مدتی پائیدار اہداف کا حصہ ہے۔جانگ نے بلا رکاوٹ آپریشنزکو یقینی بنانے کے لئے سخت انتظامی فریم ورک کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا سے ہی ہم نے مقامی ٹرمینلز کے لئے معیار مقرر کیا اور اسے مقامی حالات کے مطابق بنایا۔اس منصوبے نے پانچ اہم تکنیکی معیارات، 75 انتظامی رہنما اصول، اور 50 کام کے پروٹوکولز قائم کیے ہیں۔ یہ معیارات آن لائن پلیٹ فارمز اور ملٹی میڈیا چینلز کے ذریعے پھیلائے گئے ہیں، اس بات کو یقینی بنا یا گیا ہے کہ مقامی ٹیمیں اچھی طرح تربیت یافتہ ہوں۔اس منصوبے نے مقامی روزگار اور ہنر مندی کو ترقی دینے میں اہم پیشرفت کی ہے۔ اس وقت عملے کے 100 ارکان میں سے57مقامی پاکستانی ملازم ہیں۔منصوبے کے سیفٹی ڈائریکٹر ڈنگ چھون ہوئی کا کہنا ہے کہ کمپنی نے مقامی ملازمین کو روایتی مزدوری کی بجائے انہیں ہنر مند بنانے کا فیصلہ کیا،ہم سالانہ تکنیکی مقابلوں کا بھی انعقاد کرتے ہیں اور گزشتہ 2 برس سے یہ مقابلہ مقامی ملازمین جیت رہے ہیں۔سندھ کے 28 سالہ جبار گوپانگ 7 برس سے اس منصوبے سے وابستہ ہیں۔انہوں نے پلانٹ کی جانب سے علاقے میں یومیہ 8 گھنٹے بجلی کی فراہمی شروع ہونے کے بعد اپنے علاقے میں تبدیلی دیکھی ہے۔جبار اب اس منصوبے کے ایک جامع مینجمنٹ سپروائزر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہاں کی زندگی کو اپنالیا ہے، بلکہ ان کے کام میں مسلسل نکھار آیا ہے۔ ان کی تنخواہ مقامی اوسط سے تقریباً دوگنا ہے جو ملازمت کے استحکام اور کشش کا ثبوت ہے۔جبار نے 2016 میں کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں چینی زبان کی تعلیم حاصل کرکے چینی زبان اور ثقافت کو بھی اپنایا اور بعد میں چینی زبان کے کلب میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس منصوبے کا حصہ بننے پر فخر ہے جس نے چین اور پاکستان کے درمیان دوستی کو گہرا کیا ہے۔2022 میں پاکستان کے متعدد حصوں میں شدید بارش سے تباہی آئی تھی جس کے بعد پورٹ قاسم کی ٹیم متاثرہ ساتھیوں کی مدد کے لئے فوری طور پر متحرک ہوئی۔جانگ کا کہنا تھا کہ عملے نے ذاتی طور پر چندہ دیا اور ضرورت مند ساتھیوں کی مدد کے لئے چندہ مہم شروع کی گئی۔ اگرچہ ہم مختلف معاشروں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہمارا ’’بھائیوں‘‘ کی حیثیت سے ایک مشترکہ رشتہ بھی ہے۔جانگ پرامید ہے کہ پورٹ قاسم کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر پاکستان کو مستحکم اور قابل بھروسہ بجلی کی فراہمی جاری رکھے گا اور مقامی ملازمین کو مزید مواقع مہیا کرے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی خاندانوں کو مسلسل روشنی ملے گی اور ہم آمدہ سال میں مزید مقامی افراد کو اس منصوبے کا حصہ بنائیں گے۔