بیجنگ (شِنہوا) پاکستان کے صوبے پنجاب کےدارالحکومت لاہور کے کسانوں کو مئی کے وسط میں مونگ پھلی کے خصوصی بیجوں کی ایک کھیپ موصول ہوئی۔چین کے مشرقی صوبے شان ڈونگ کے شہر وائی فانگ سے آنے والے یہ بیج چین اور پاکستان میں مونگ پھلی کی افزائش اور فروغ کے منصوبے کے تحت تیار کردہ نئی اقسام کے ہیں۔اس وقت پاکستان میں مونگ پھلی کی بوائی ہورہی ہے اس لئے منصوبے میں شامل دونوں طرف کے اہلکار ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ بات چیت اور تعاون میں مصروف ہیں۔ آن لائن ملاقاتوں کے ذریعے چینی تکنیکی ماہرین پاکستانی کاشتکاروں کو مونگ پھلی کی افزائش کی جانچ پڑتال اور کھیتوں کے انتظام پر پیشہ ورانہ رہنمائی فراہم کررہے ہیں۔آن لائن میٹنگ میں ایک مقامی کسان بابر عباس نے کہا کہ اعلیٰ معیار کے بیج مہیا کرنے پر وہ چین کے مشکور ہیں اب مونگ پھلی اچھی طرح کاشت ہوتی ہے، پیداوار بھی زیادہ ہے اور ہم مستقبل میں پودے لگانے کا رقبے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہے اور یہ کبھی نہیں مل سکتے تاہم دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کے لئے بہت گرم جوشی اور دوستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔وائی فانگ شہر کی شان ڈونگ رینبو ایگریکلچرل ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ نے 2016 میں پاکستان کے ساتھ زرعی تعاون منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔کئی برس کی فزائش نسل کے بعد کمپنی نے 2023 میں مونگ پھلی کے اصل بیج کی پہلی کھیپ پاکستان برآمد کی۔ جنہیں صوبہ پنجاب کے علاقوں اٹک اور چکوال میں بڑے پیمانے پر کاشت کیا گیا جس کا رقبہ تقریباً 66 ہیکٹر تھا۔رینبو ایگریکلچرل ٹیکنالوجی کے وائس جنرل منیجر فان چھانگ چھنگ نے شِنہوا کو بتایا کہ ہم نے پاکستان میں مونگ پھلی کی پانچ نئی اقسام کا کامیاب تجربہ اور پودے لگائے ہیں جن کی اوسط پیداوار مقامی اقسام کے مقابلے میں دوگنا زائد تھی ۔ کمپنی رواں سال کاشت کا آزمائشی رقبہ تقریبا 132 ہیکٹر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔پاکستان خوردنی تیل کا بڑا صارف ہے مونگ پھلی اس کی بنیادی اور نقد آور فصلوں میں سے ایک ہے۔ تاہم اعلیٰ معیار کی اقسام اور موثر پیداواری طریقہ کار کے فقدان سے پاکستان میں خوردنی تیل کی پیداوار ہے جس میں مونگ پھلی کی پیداوار تقریبا 1 ٹن فی ہیکٹر ہے۔ اس کے برعکس چین کی اعلیٰ تیل دار مونگ پھلی کی اقسام تقریبا 4 ٹن فی ہیکٹر پیداوار دیتی ہیں جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے امکانات مزید روشن ہوجاتے ہیں۔چین میں کئی برس تک تعلیم حاصل کرنے والے 35 سالہ عمران محمود نے دو برس قبل رینبو ایگریکلچرل ٹیکنالوجی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ کمپنی میں ٹیکنیکل ڈائریکٹر مقرر ہونے کے بعد وہ مونگ پھلی کی افزائش اور کاشت منصوبے میں حصہ لیتے ہیں اس منصوبے میں پاکستان کے ساتھ رابطہ کار کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے ہیں جو آہنی بھائیوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں اس دوستی میں پل کا کردار کرکے چین سے جدید زرعی ٹیکنالوجی پاکستان لاسکتا ہوں۔نوجوان پاکستانی زرعی ماہر نے مزید کہا کہ اس منصوبے سے نہ صرف مقامی کاشتکاروں کی آمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ درآمد شدہ خوردنی تیل پر پاکستان کا انحصار بھی کم ہوسکتا ہے۔رینبو ایگریکلچرل ٹیکنالوجی چین کے مشرقی شہر اور پاکستان کے درمیان تعاون کی ایک مثال ہے۔ مار2023 میں وائی فانگ میں "چین پاکستان زرعی تعاون مرکز” قائم ہوا تھا جس کے بعد سے 10 سے زائد پاکستانی زرعی کمپنیوں نے چینی کاروباری اداروں کے ساتھ تعاون کے لئے بات چیت کی ہے۔تعاون میں پیشرفت پر بات کرتے ہوئے فان شِنہوا کو بتایا کہ فریقین نے مونگ پھلی کی افزائش اور کاشت، آلو اور ادرک کے ٹشو کی پیوندکاری ، کپاس کے کیڑوں ، بیماریوں پر قابو پانے اور زرعی ٹیکنالوجی کی تربیت سمیت متعدد نوعیت کے مشترکہ منصوبوں کا آغاز کیا تاکہ مونگ پھلی، آلو اور ادرک کی نئی اقسام کو پاکستان میں متعارف کرکے اس کی پیداوار اور جرم پلازم کا معیار بڑھایا جاسکے۔فان نے مزید کہا کہ پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہے اور صنعتی ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان منصوبوں سے ملک کو زراعت میں صنعتی چینز قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
سی پیک ، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ایک اہم منصوبہ ہے جو اب اعلیٰ معیار کی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔ چینی دارالحکومت بیجنگ میں 2023 میں تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے عالمی تعاون میں چین اور پاکستان نے فصلوں کی کاشت، پودوں اور جانوروں کی بیماریوں پر قابو پانے، زرعی مشینری ، ٹیکنالوجی کے تبادلے اور زرعی مصنوعات کی تجارت میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔محمود نے کہا کہ بی آر آئی بہت سے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر مشتمل ایک دور رس اقدام ہے جس کا مقصد توانائی، نقل و حمل، بجلی اور دیگر شعبوں سمیت پاکستان کی سماجی و اقتصادی حالت میں بہتری لانا ہے۔ چین کو فصلوں کی اقسام، صنعتی چینز ، ٹیکنالوجیز اور آلات میں نمایاں فوقیت حاصل ہے جبکہ پاکستان زمین اور افرادی قوت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون سے مزید باہمی فوائد پیدا ہوں گے۔