گوئی یانگ(شِنہوا) چین کی گوئی ژو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد تحقیق میں مصروف حافظ محمد عثمان کو چین کے تحقیقی اداروں اور پاکستان میں اپنے آبائی علاقے کے اداروں اور کسانوں کے درمیان "پی ایچ ڈی ویلج چیف” پروگرام کے تحت تعاون کے لیے ایک رابطے کا کردار ادا کرنے پر خوشی اور فخر ہے۔2017 سے، یونیورسٹی نے غربت کے خاتمے اور دیہی ترقی کو فروغ دینے کی اپنی کوششوں کے تحت پیشہ ور افراد کو زرعی پیداوار کے ترجیحی شعبوں میں کام کرنے اور اپنی سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو زرعی صنعتوں کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی دعوت دی ہے۔جنوب مغربی صوبے گوئی ژو میں 2012 میں غربت کا شکار لوگوں کی تعدا92 لاکھ30ہزار تھی اور یہ چین کا سب سے زیادہ غریب آبادی والا صوبہ تھا۔گوئی ژو نے غربت زدہ کاونٹیوں کی اپنی قدرتی آب و ہوا کے حالات، وسائل اور صنعتی بنیادوں کی بنیاد پر فائدہ مند زرعی صنعتیں تیار کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی صوبے میں غربت کے خاتمے کے لیے جامع تکنیکی خدمات فراہم کرنے کے لیے تحقیقی اداروں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ماہرین اور زرعی تکنیکی ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دیں۔2024 میں، پاکستان اور بھارت سے پانچ اوورسیز پوسٹ ڈاکٹروں نے "پی ایچ ڈی ویلج چیف” پروگرام میں حصہ لیا اوراپنے آبائی ملکوں کے مقامی کسانوں کو تکنیکی مدد فراہم کرنے کے لیے واپس لوٹ گئے۔عثمان گوئی ژو یونیورسٹی کے کالج آف ایگریکلچر کے پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ میں پھپھوندی سے لگنے والی بیماریوں کے ایک ماہر کے طور پر کام کررہے ہیں،وہ جنوری 2024 میں پاکستان واپس آئے اور ڈیڑھ ماہ تک سمارٹ زرعی طریقوں، آب و ہوا کے خلاف مزاحم فصلوں، بیماریوں کی مناسب طریقے سے نشاندہی اور انتظامی حکمت عملی کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کو پیش کیا۔مرچ گوئی ژو صوبے کی سرکردہ زرعی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ پودوں کی پیتھالوجی ٹیم جس میں عثمان بھی شامل ہیں نے صوبے میں مرچ کی فصل کی بیماری کی وجوہات جاننے کے لیے صوبے بھر سے نمونے لیے ،بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر کیمیکلز تلاش اور بیماری سے نمٹے کے لیے ماحول دوست اورپائیدارطریقوں کے حوالے سے پروگرام کیے۔عثمان نے مقامی زرعی تحقیقی اداروں کے تعاون سے تین سیمینارز کاانعقاد کیا، جن 500 سے زیادہ مقامی کسانوں کو زرعی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے پائیدار طریقوں سے آگاہ کیاگیا۔
عثمان نے کہا کہ پہلی بار لیبارٹریز سے باہر کھیتوں میں کام کرنے اور کسانوں سے بات کرنے کا موقع ملا جس سے ان کے حقیقی مسائل کو سمجھا گیا اور یہ بہت نتیجہ خیز اور مفید رہا۔
سیمینارز کے دوران، انہوں نے پودوں کی بیماریوں کی صحیح تشخیص اور موثر اور درست کیمیکلز کا استعمال کرکے ان پر قابو پانے کے لیے کسانوں کو آگاہی فراہم کی اور بتایا گیا کہ کس طرح سے ایک ہی فصل کی بجائے مختلف فصلوں کی کاشت اورڈرپ اریگیشن جیسے دیگر طریقوں سے ان بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔محدود زمین رکھنے والے لوگوں کے لیے، انہوں نے سمارٹ کاشت کے لیے کچن گارڈننگ اور چھتوں یا بالکونیوں پر سبزیاں اگانے کی تجاویز دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس پروگرام سے نہ صرف کسانوں کے شعور میں اضافہ ہوا بلکہ نسبتا کم لاگت کے ساتھ فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں مدد کی گئی اس سے فیلڈ اسٹڈی کے ذریعے ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوا۔گوئژو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی ویلج چیف پروگرام کے رکن ،پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلومقصود احمد کا تعلق پاکستان کے اہم زرعی صوبے سندھ سے ہے جو بنیادی طور پر مکئی، گندم، چاول، آم اور کیلے سمیت اناج اور پھل پیدا کرتا ہے۔اپنے آبائی شہر میں پانی کی کمی کی وجہ سے احمد نے ڈرپ ایریگیشن کے طریقوں کو فروغ دیا اور کسانوں کو فصلوں کے کیڑوں اور بیماریوں کے نقصانات کی شناخت اور ان پر قابو پانے کی بنیادی مہارتیں سکھائیں۔اپنے علم کے اشتراک کے لیے، انہوں نے یونیورسٹی کے طلبا اور دیہاتی لوگوں کے لیے سیمینار کا بھی انعقاد کیا۔ مقصود نے کہا کہ طلبا مستقبل کے محقق ہیں جس سے مزید زیادہ لوگوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔کالج آف ایگریکلچر کے پلانٹ پروٹیکشن شعبے کے پروفیسر اور ڈپٹی ڈائریکٹر وانگ یونگ نے کہا کہ اساتذہ اور طلبا نے غربت کے خاتمے اور دیہی ترقی سے بھرپور تجربہ حاصل کیا ہے اور امید ہے کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ کے ساتھ واقع ممالک کے پسماندہ علاقوں کے لیے اپنے تجربات کا تبادلہ کریں گے۔گزشتہ برسوں کے دوران ملک میں سب سے زیادہ گوئژو صوبے میں لوگوں کو غربت سے نکالا گیاہے۔ گوئژو یونیورسٹی کے کالج آف ایگریکلچر کے ڈین پھان شیو جون کا کہنا ہے کہ اب تک 16ہزار سے زیادہ اساتذہ اور طلبا اس پروگرام میں حصہ لے چکے ہیں جس سے کسانوں کو اپنی آمدنی میں3ارب یوآن( تقریباً41کروڑ40 لاکھ ڈالر)سے زیادہ کا اضافہ کرنے میں مدد ملی ہے۔