جکارتہ (شِنہوا)عوامی جمہوریہ چین کی آنجہانی اعزازی صدر سونگ چھنگ لنگ نے انڈونیشیا کے شہر سے متعلق ایک تبصرے میں کہا تھا کہ تاریخ میں بہت کم شہروں نے بانڈونگ کی طرح بہت سے دل و دماغ جیتے ہیں۔تاریخی ایشیا۔ افریقہ کانفرنس کا انعقاد 18 اپریل 1955 کو بانڈونگ شہر میں کیا گیا تھا اور اس وقت یہ پہلا موقع تھا کہ جب عالمی جنوب کے ممالک اپنے خود مختار حقوق اور زیادہ منصفانہ دنیا کے دفاع میں سامراج اور استعمار کے خلاف متحد ہوئے۔ اس کانفرنس کو بانڈونگ کانفرنس بھی کہا جاتا ہے۔مغربی نوآبادیات کے دہائیوں تک بے رحمی سے نجات حاصل کرکے آزادی حاصل کرنے والے29 ایشیائی اور افریقی ممالک کے رہنماؤں اور نمائندوں نے یکجہتی ، دوستی اور تعاون” کے ساتھ بانڈونگ جذبہ کی تجویز پیش کی جس سے غیر وابستہ تحریک اور جنوب ۔ جنوب تعاون کا آغاز ہوا۔کانفرنس کے انعقاد کو 7 دہائیاں بیت چکی ہیں تاہم بانڈونگ جذبہ اب بھی برقرار ہے جس نے عالمی جنوب ممالک کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور دیگر پلیٹ فارمز کے فریم ورک کے تحت باہمی مفید تعاون سے مشترکہ ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہونے کی ترغیب دی ہے۔سطح سمندر سے 768 میٹر کی بلندی پر واقع بانڈونگ میں انڈونیشیا کے دیگر شہروں کی نسبت سال بھر ٹھنڈک رہتی ہے، ڈچ نوآبادیاتی دور میں اسے "جاوا کا پیرس” کہا جاتا تھا۔جاوا جزیرے کا دفاعی نظام بہتر بنانے ، فوجیوں اور سامان کی نقل و حمل میں آسانی کے لئے ڈچ ایسٹ انڈیز کے گورنر جنرل ہرمن ولیم ڈینڈلز نے 1809 میں مغرب سے مشرق تک جاوا جزیرے پر تقریبا ایک ہزار کلومیٹر پر محیط ایک سڑک کی تعمیر کا حکم دیا جسے بعد میں ایشیا ۔ افریقہ شاہراہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ایشیا۔ افریقہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں سڑک کے کنارے تین منزلہ دودھیہ سفید عمارت میں انڈونیشیا کے پہلے صدر سکارنو نے جنوبی ممالک کی طرف سے بیدار ہونے کی اپیل کی۔سکارنو نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ انسانی تاریخ میں رنگ دار افراد کی پہلی بین البراعظمی کانفرنس ہے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی اور جہاں بھی نوآبادیات نمودار ہوگی یہ ایک بری چیز ہی رہے گی اور اسے زمین سے ختم ہونا چاہئے۔اس کے بعد کانفرنس میں شریک چینی وفد کے قائد اور اس وقت کے چینی وزیراعظم ژو این لائی نے پرامن بقائے باہمی کے 5 اصول پیش کئے جو بانڈونگ جذبہ کا ایک اہم جزو بن گئے اور اسے بعد میں دنیا بھر کے ممالک کی اکثریت نے عالمی تعلقات اور عالمی قانون کے بنیادی اصولوں کے طور پر قبول کیا۔اس 1955 کی بانڈونگ کانفرنس کو ایک علامتی لمحے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اس وقت غیر مغربی دنیا نے باآواز بلند کہا تھا عالمی سیاست میں اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔