بیجنگ(شِنہوا) کچھ مغربی سیاست دان اور ذرائع ابلاغ انسانی حقوق کے حوالے سے دوہرے معیار پر عمل پیرا اور چین کے خلاف اطلاعات کی جنگ میں اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اور اس حقیقت سے اتفاق کرنے والے لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔مغرب کی منافقت کی ان مثالوں میں چین کے جنوب مغربی شی ژانگ خود اختیارعلاقے میں بورڈنگ اسکولوں اور شمال مغربی سنکیانگ ویغورخود اختیارعلاقے میں نام نہاد "جبری مشقت” سے متعلق الزامات شامل ہیں۔ بورڈنگ اسکول چین اور دنیا بھر میں عام ہیں۔ بہت کم آبادی والے شی ژانگ کے علاقے میں بورڈنگ اسکول منصفانہ تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنارہے ہیں۔ مکمل طور پر رضاکارانہ بنیاد پر چلائے جانے والے یہ اسکول روایتی ثقافتی کورسز سکھارہے ہیں، جن میں تبتی زبان وادب اور لوک رقص کے علاوہ روایتی کھانے پکانے کی مہارت سکھائی جاتی ہے۔ طلباء کو اسکولوں میں روایتی لباس پہننے کی آزادی حاصل ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ شی ژانگ میں بورڈنگ اسکول ان اسکولوں سے بالکل مختلف ہیں جن کا تصور کچھ مغربی ممالک کی تاریخ میں "جبری انضمام” سے لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، 19 ویں اور 20 صدیوں میں، امریکہ میں انڈینزبچوں کو بورڈنگ اسکولوں میں جانے پر مجبور کرتے ہوئے ان پر اپنی مادری زبان بولنے، روایتی لباس پہننے، یا روایتی سرگرمیاں انجام دینے پر پابندی لگا دی گئی، اس طرح ثقافتی نسل کشی کے ذریعے ان کی زبان، ثقافت اور شناخت مٹا دی گئی۔ شی ژانگ میں بورڈنگ اسکولوں کے خلاف الزام تراشی کی گندی مہم بچوں کے تعلیم کے حق کو تباہ کرنے اور خطے کو ترقی اور خوشحالی کے حق سے محروم کرنے کی کوششوں کے مترادف ہے۔جھوٹ آخرجھوٹ ہوتا ہے۔ سنکیانگ میں "جبری مشقت”، جس کا کچھ مغربی ممالک کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے، نفرت انگیز مقاصد کے لیے اسی طرح کا ایک جھوٹ ہے۔ ووکس ویگن کی جانب سے کرایا گیا آڈٹ ان افواہ سازوں کے منہ پر طمانچہ ثابت ہوا ہے۔ جرمن کار ساز کمپنی نے گزشتہ سال دسمبر میں کہا تھا کہ سنکیانگ میں کمپنی کے پلانٹ میں جبری مشقت کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔