ہانگ ژو (شِںہوا) ہانگ ژو ایشیائی کھیلوں میں خواتین کرکٹ میں تیسری اور چوتھی پوزیشن کا مقابلہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کھیلا گیا۔ہانگ ژو ایشیائی کھیلوں میں پاکستانی ٹیم کا یہ آخری میچ بھی تھا ۔اس سے قبل ہونے والے سیمی فائنل میں پاکستان کو سری لنکا سے شکست ہوئی اور فائنل میں نہ پہنچ سکا۔اس تیسری اور چوتھی پوزیشن کے میچ میں اسٹیڈیم دنیا بھر کے تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے نہ صرف جوش و خروش کے ساتھ میچ کو دیکھا بلکہ میدان میں بھی ماحول گرمایا۔پاکستانی ٹیم کی کپتان ندا رشید کا کہنا تھا کہ کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل ہے اور ہر پاکستانی کو کرکٹ سے لگاؤ ہے ۔ ہانگ ژو ایشیائی کھیلوں میں انہوں نے دیکھا کہ تماشائی میچز سے بہت لطف اندوز ہورہے تھے اور انہوں نے ہما ری حمایت بھی کی۔ جب بھی میدان پر کوئی رن بنایا جاتا یا کوئی شاندار ہٹ لگا ئی جاتی تو شائقین کی خوشی ہما ری لئے حوصلہ افزا رہی۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کرکٹ کے روایتی مراکز ہیں۔کانسی کے تمغے کے حصول کے لئے سخت مقابلہ ہوا۔پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 64 رنز بنائے تاہم یہ مخالف کے لئے مشکل ہدف نہ تھا۔اس کے بعد بنگلہ دیش نے بیٹنگ کی جس میں پاکستان کو اپنے حریف کو 64 رنز تک محدود کرنے کی ضرورت تھی۔میچ کے اختتام تک مقابلہ سخت رہا، میچ کا اختتام بنگلہ دیشی بلے باز نے 4 رنز کے لئے باؤنڈری لگاکر کیا جس کے بعد بنگلہ دیش نے 65 رنز سے کامیابی حاصل کرکے کانسی کا تمغہ جیتا۔میچ ہارتے وقت پاکستانی ٹیم کی رکن صدف شمس کارکردگی سے مایوس تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارا خراب دن تھا۔ میچ جیتنے کے لیے کیچ پکڑنے کی صلاحیت اچھی ہونی چاہیئے ۔ ہم نے بہت سے مواقع ضائع کئے جس کی ہمیں قیمت چکانی پڑی ۔
صدف شمس نے کہا کہ انہیں محسوس ہوا ہے کہ ایشیائی کھیل سیکھنے کا ایک اچھا موقع تھا۔ مقابلے میں شریک ٹیمیں بہت مضبوط تھیں اور ٹورنامنٹ سے ہم نے دباؤ سے نمٹنے اور رفتار میں تبدیلیوں کے تحت ڈھلنے میں اپنی صلاحیتیں بہتر کی ہیں ۔ہم ابھی نوجوان ہیں اور کھیل میں واپس آئیں گے۔ امید ہے کہ ہمیں مستقبل میں چین آنے اور کھیلنے کا مزید موقع ملے گا اور چینی تماشائیوں کو اچھا کھیل دیکھنے کو ملے گا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ایک رکن ام ہانی نے کہا کہ پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم کا ایشیائی کھیل کا سفراگرچہ ختم ہوگیا ہے تاہم پھر بھی ان کا ایشیائی کھیلوں کا سفر نہ صرف مسابقتی مقابلہ بلکہ دوستی کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بھی تھا۔ یہاں کے رضاکار ہر روز اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے ہمارا استقبال کرتے تھے۔ کھیل کے بعد ہم اکثر ان کے ساتھ ایشیائی کھیلوں کے بیجز کا تبادلہ کرتے تھے جو ہماری دوستی کی علامت ہے۔ ام ہانی ایشیائی کھیلوں میں پہلی بار شریک ہوئی تھیں۔پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ محتشم رشید ہر میچ سے قبل اسٹیڈیم پہنچ جاتے تھے۔ جب انہیں علم ہوا کہ ایشیائی کھیلوں میں کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبان ژے جیانگ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اب کرکٹ کے منتخب کورسز پیش کررہی ہے تو انگوٹھے کا نشان دکھاتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں چین میں کرکٹ کا فروغ جاری رہے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس متاثر کن کھیل سے محبت کریں۔ یہ ایک ز بردست کھیل ہے۔کرکٹ گوانگ ژو 2010 ایشیائی کھیلوں سے اس کا حصہ بنا تھا تاہم جکارتہ 2018 کے ایشیائی کھیلوں میں یہ شامل نہ تھا۔ایشیائی کھیلوں میں 9 برس کے بعد واپسی پر ہر کرکٹ ٹیم نے اپنے طرز کی کرکٹ کھیلی ۔