(تحریر۔سعید جان بلوچ)
بھارتی سرحد سے ڈیرھ کلو میٹر دور سیالکوٹ میں 10جنوری 1968کوجنم لینے والے کراچی کے صحافتی حلقوں اور ٹریڈ یونین سیاست کے اہم کردار جاوید اصغر چوہدری پاکستان بھر میں صحافتی آئین کے ماہر تصور کیئے جاتے ہیں ۔
1974 میں والد کی پاکستان نیوی میں ملازمت کی وجہ سے ان کو اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی شفٹ ہونا پڑا ۔کراچی میں ابتدائی تعلیم کے بعد جب وہ وفاقی اردو کالج میں داخل ہوئے تو طلبہ تنظیم کی سیاست نے انکو اپنی جانب متوجہ کیا جس کے بعد وہ پیپلز اسٹوڈینس فیڈریشن (پی ایس ایف ) پاکستان پیپلزپارٹی کی طلبہ تنظیم میں شامل ہوئے ۔محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد میں ان کی سیاست کے میدان میں متحرک ہونے کی وجہ بنی وفاقی اردو کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ ان کی طرح پاکستان نیوی کا حصہ بنیں لیکن وہ کسی اور دنیا کا انسان تھا فوجی گھرانے میں پیدا ہونے اور جائے پیدائش میں بھارتی ٹینکوں کی روزانہ گولہ باری کی گھن گرج بھی ان کو فوج میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے تیار نہ کرسکی ہوسکتا ہے اگر وہ سیالکوٹ میں ہوتے تو فوج میں شامل ہو جاتے لیکن کراچی کی آزاد فضا اور جمہوری رویہ نے انکی سوچ کو تبدیل کردیا ۔1999 میں جب صحافت کے میدان میں آئے تو کراچی سے شائع ہونے والے مشہور رسالے تکبیر کا حصہ بنے جس کے بعد وہ روزنامہ خبریں ، جناح ،نئی بات اور جہان پاکستان میں کام کرتے رہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں وہ نیوز ون ،ڈان نیوز اور اب جی ٹی وی میں اہم عہدے پر کام کر رہے ہیں۔میری ان سے پہلی شناسائی اس وقت ہوئی جب میں روزنامہ امن کا ڈپٹی یونٹ چیف منتخب ہوا انہوں نے مجھے مبارکباد کے لیے فون کیا۔اس کے بعد انہوں نے مجھے ہمیشہ صحافتی سیاست میں متحرک بنانے میں حوصلہ افزائی کی 2006 میں جب کے یوجے کی اندرونی معاملات کی وجہ سے لاہور میں پی ایف یو جے کی بی ڈی ایم کے لیے مجھے نظرانداز کیے جانے پر انہوں نے کہا کہ تم ابھی صحافتی سیاست میں نئے آئے ہو لیکن تمہاری مخالفت ہورہی ہے مجھے یقین ہے کہ تم بہت آگے جاو گئے۔2011 میں کےیوجے کے صدارتی انتخاب میں انہوں نےمجھے کراچی پریس کلب اور کے یوجے کے سابق صدر سنئیر صحافی سراج احمد کے مقابلے میں میدان میں اتارا آج میں پی ایف یو جے کا نائب صدر اور سندھ چیپٹر کا صدر ہوں اس میں میری بنیادی حوصلہ افزائی جاوید چوہدری اور سید حسن عباس کا بہت بڑا کردار ہے۔
جاوید چوہدری کی اور ایک وجہ شہرت سول ایوی ایشن اور امیگریشن رپورٹنگ میں جداگانہ انداز ہے ۔کراچی میں شاید ہی کوئی ایسا صحافی ہوگا جن کے اہل خانہ کے نادرا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوانے کیلئے جاوید چوہدری سے رابطہ نہ کرنا پڑتا ہو۔ کراچی پریس کلب میں متعدد مرتبہ نادرا وین کی آمد دراصل جاوید چوہدری کی مرہون منت ہوتی ہے ۔
اگر ہم صحافت کی سیاست میں ان کے کردار پر نظر ڈالیں تو کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے ) کی تمام سیاست جو کراچی پریس کلب کی سیڑھیوں کے نیچے موجود ایک لاکر میں بند ہوتی تھی 2007 میں جنرل سیکرٹری اور 2009 میں کے یو جے کے صدر بننے کے بعد انہوں نے کے یو جے کو لاکرز سے باہر نکال کر موجود دفتر کی بنیاد رکھی جس کی کراچی پریس کلب اور کے یو جے دستور کے چند دوستوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود اس کی تعمیر کی گئی جس کو بعد میں کے یو جے سابق صدر سید حسن عباس نے مزید جدید انداز میں تعمیر کرایا وہ 2015 اور 2017 میں کراچی پریس کلب کے گورننگ باڈی کے رکن بھی منتخب ہوئے لیکن وہ معتدد ایشوز پر اختلاف رائے کا اظہار برملا کرتے رہے انہوں نے 2017 میں احتجاجا گورننگ باڈی کے عہدے سے استفی دے دیا ۔جاوید چوہدری نے کراچی پریس کلب کے ممبران کی جب اسکروٹنی کرانے کی کوشش شروع کی تو معتدد ممبران ان کے خلاف ہوگئے لیکن انہوں نے اپنا کام شروع کیا اور پہلے مرحلے میں کراچی پریس کلب کے گورننگ باڈی کے رکن سمیت معتدد ممبران کی سرکاری ملازم ہونے کا انکشاف ہوا جس کے نتیجے میں معتدد ممبران کو کراچی پریس کلب کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن یہ سلسلہ پھر دوبارہ شروع نہ ہو سکا جاوید چوہدری کراچی کی رنگینی زندگی کا بھی حصہ رہے وہ کراچی پریس کلب کے کارڈ روم۔کے ایک اہم رکن رہے اکثر رات کو گھر جاتے ہوئے ان کو حادثہ پیش آجاتا تھا اور ان کو چونٹیں آجاتی تھیں ہم اس حوالے سے چوہدری صاحب سے اکثر شکوہ کرتے تھے کہ وہ رات کو خیال کریں کوئی حادثہ انکو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے وہ اپنی دنیا میں خوش تھا2013 کو ایک روز ہمیں خبر ملی کہ جاوید چوہدری سول ایوی ایشن کی رپورٹنگ کرنے والے دیگر دوستوں کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرنے جارہے ہیں تو ہمیں بے حد خوشی ہوئی ۔کعبتہ اللہ اور روضہ رسول پر حاضری کے بعد ان کی دنیا ہی بدل گئی تاہم 2015 کو اللہ پاک نے ان کو حج کی سعادت نصیب فرمائی ان کی بارگاہ اقدس میں حاضری ایسی قبول فرمائی کہ ان کہ قسمت پہ رشک آنے لگاوہ صوم و صلواة کے ایسے پابند ہوئے کہ انکی کوئی نماز قضا نہیں ہوتی ۔وہ ایک مختلف جاوید چوہدری ہے سخت لہجہ کی جگہ نرم گفتاری نے لے لی ہے پھر کبھی کبھی ان کو غصہ آہی جاتا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ وہ ابھی چوہدری ہےان کی صحت بھی اب بہت بہتر ہوگئی ہے اور ان کا انداز زندگی تبدیل ہوگیا ہے
جب ہم۔2006 میں کراچی پریس کلب میں داخل ہوئے تو اس وقت کراچی میں قمر اللہ چوہدری ، احسن چوہدری ، صدیق چوہدری ، اور جاوید چوہدری کا ایک دور تھا لیکن اب قمر اللہ چوہدری لاہور ، احسن چوہدری امریکہ اور صدیق چوہدری محکمہ فشریز چلے گئے لیکن جاوید چوہدری کراچی پریس کلب اور ٹریڈ یونین سیاست میں اب بھی موجود ہیں ہم ان کو اب کراچی کا اکلوتا صحافی چوہدری کہہ سکتے ہیں اور یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سارے چوہدری مر بھی جائیں تو وہ چوہدری نہیں بن سکتا کیونکہ وہ ان چوہدریوں کے زندہ ہونے کے باوجود صحافت کی دنیا کا چوہدری بن چکا ہے۔
۔جاوید چوہدری کے والد محمداصغر چوہدری پاکستان نیوی سے لیفٹیننٹ کمانڈر ریٹائرڈ ہوئے ہیں ان کے والدہ بھی سیالکوٹ سے کراچی منتقل ہوگئی ہیں انکی اہلیہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اور وہ جناح اسپتال میں نرسنگ انسٹرکٹر کے فرائض انجام دے رہی ہیں ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں جو زیر تعلیم ہیں جاوید چوہدری ایک ہمدرد انسان اور دوستوں کی مشکلات میں کام آنے والا انسان ہے ۔ان کے سخت لہجے اور غصے کے باوجود وہ ایک پیارا دوست ہے جس کا تمام غصہ دوستوں کی ایک مسکراہٹ پر ختم ہوجاتا ہے ۔ چوہدری صاحب جب مجھ سے موجودہ صحافتی صورتحال پر بات کرتے ہیں تو میں ان کو کہتا ہوں آپ کو کس نے کہا تھا کہ کےیو جے کو لاکر سے باہر نکالو اب نکالا ہے تو پھر بگھتو بھی۔ہماری دعا ہے صاف دل چوہدری جاوید کو اللہ پاک ہمیشہ اسی حالت میں رکھے جس میں وہ آج ہے اللہ پاک چوہدری جاوید کی چوہدراہٹ کو قائم رکھے۔۔۔۔