(تحریر :- ڈاکٹر فرح ناز راجہ)
کافی دنوں سے جب بھی فیس بک کھولو،
یا خبریں سنو تو اسی بچی کے بارے میں بات ہو رہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
اس قدر تواتر کے ساتھ مختلف بچیوں کے اسی طرح کے واقعات نظر سے گزرنے سے میر ے دل اور دماغ شل سے ہوگئے ہیں ، اور میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ دعا زہرہ کا کیس کوئی معمولی کیس نہیں ہے ۔۔۔
ایک ایسی لڑکی جس نے زندگی میں کبھی سبزی بھی نہ خریدی ھو ، کیا وہ اپنے لئے اچھا خاوند ڈھونڈنے کی صلاحیت رکھتی ھے؟؟؟
دعا زہرہ کیس گزشتہ کئی ہفتوں سے شوشل میڈیا پر زیر بحث ہے اور اس پر میں نے دانستہ خاموشی اختیار کئے رکھی ۔
اس خاموشی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی روز مرہ کی باتوں کو زیر بحث لانا میں ذاتی طور پر پسند نہیں کرتی جب تک کہ کوئی بہت بڑا واقعہ نہ ہو ۔۔۔ کیونکہ آج کل سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تمام لوگوں کا رویہ بو کاٹا اور لے دوڑی جیسا ہے ۔۔۔
اور میری حتی الامکان یہ کوشش ہوتی ہے کہ میں ایسے رویوں کی حصے دار نہ بنوں ۔۔۔
ویسے بھی اس طرح کی تمام باتیں میرے مزاج کے خلاف ہیں
۔۔
اور دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک بچی کا معاملہ تھا اور بچیوں کے معاملات میں میں بہت حساس واقع ہوئی ہوں ۔۔۔۔۔ کیوں کہ میں بھی ایک بچی کی ماں ہوں اور میں بھی کسی ماں کی بیٹی ہوں ۔۔۔
اسی لیئے ایسی تمام باتوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی ہوں جس سے کسی کی بچی پر اور اس سے منسلک خاندان پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہوں ۔۔
مگر تواتر کے ساتھ اس طرح کے کیسز کا سامنے آنا بھی ایک تشویش ناک بات ہے ۔۔ جس پر خاموش رہنا کفر ہے۔۔۔ اسی لیئے میں نے بالآخر یہ سوچا کہ دعا زہرہ
کے کیس کو کیوں نہنایک سیمپل بنا کراس پر بحث کرنے کی جسارت کی جائے ۔۔۔
ہو سکتا ہے اس موضوع پر بات کرنے سے کوئی ایسا نقطہ یا ایسا سرا مل جائے جس سے ایسے معاملات کو سلجھایا جا سکتا ہو۔۔
آیئے دعا زہرہ کے کیس پر مختلف محرکات کے حوالے سے ایک نظر ڈالتے ہیں۔۔۔۔
دیگر محرکات کے علاوہ
اس کیس میں دو فریق بہت اہم ہیں ایک والدین
اور دوسرا بچی دعا زہرہ۔۔۔۔۔۔
•سب سے پہلے والدین کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
▪︎والدین
والدین میں خاص طور پر بچی کے*والد * کی تمام کاوشیں قابل ستائش ہیں ۔۔۔
•سلام ہے دعا زہرہ کے والدین کو جنہوں نے اپنی عزت، اپنی انا، خاندان، اور معاشرے کی پرواہ کئے بغیر اپنی بیٹی کی سلامتی کو مقدم رکھا۔
"لوگ کیا کہیں گے” کا مفروضہ کہیں دور پھینک دیا اور اپنی بچی کو حاصل کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔۔۔۔
خاص طور پر دعازہرہ کے باپ مہدی کاظمی صاحب کی عظمت کو سلام ہے ۔۔
میں سمجھتی ہوں کہ آج کل کے دور میں وہ ایک جراتمند اور ناصرف قابلِ تکریم بلکہ قابلِ تقلید باپ ہے۔۔۔
جس نے دعا کے گھر سے نکلنے سے لے کر اُس کی بازیابی تک اَنتھک محنت و کوشش کی۔ اور بطور ایک باپ معاشرتی مجبوریوں، طعنوں، طنز، زلت، بدنامی کی پرواہ نہیں کی۔ اپنی بیٹی کی کم عمری کی نادانی کو انا اور عزت کا مسئلہ بھی نہیں بنایا۔
اللہ تعالیٰ ایسا وقت کبھی کسی باپ کو نہ دکھائے ، بیٹیوں کے باپ ایسے ہونے چاہئیں۔
سلام ہے اس باپ کو , جس نے اس معاشرے کی اقدار کو جوتے کی ٹھوکر پر رکھتے ہوئے صرف اپنی بیٹی کی فکر کی, ناموس, غیرت, برادری یہ سب ثانوی ہیں,
جان افضل ہے۔۔۔
اگر مرضی سے بھی گئی تھی تو ایسی صورتحال میں بھی کوئی کمزور باپ ہی بیٹی کو چھوڑ سکتا ہے۔۔
اسکے علاوہ یہ بھی اہم بات ہے کہ تمام والدین کا تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہونا اور اولاد کے بنیادی انسانی حقوق سے واقفیت نہائیت ضروری ہے جو بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اتنی عام نہیں ہے۔۔۔۔
بچوں کو پسند کا اختیار بھی فہم کی بنیاد پر ہی ہونا چاہئیے۔۔۔
ورنہ نور مقدم کیس کی مثال بھی پرانی نہیں ہے۔۔۔
خیر زاتی طور پر میں خود گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والوں (چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں )کے سخت خلاف ہوں۔۔
اس کے لیئے میں سمجھتی ہوں کے آج کل کے اس میڈیائی دور میں جہاں میڈیا اور پوری دنیا کی رسائی انسان کے بیڈ رومز تک آگئی ہے۔۔ والدین کو گھر کا ماحول ہلکا اور فرینڈلی رکھنا چاہیئے جہاں پر پروان چڑھنے والی نسل اپنے بڑوں کے ساتھ ہر قسم کی گفتگو آسانی سے کر سکے۔۔۔
خیر بات کے رخ کو واپس وہیں موڑتے ہیں کہ دعا زہرہ کے جیسے والدین کو دیکھ کر مجھے تو کم از کم ایسا ضرور محسوس ہوا کہ ایسے بھی والدین ہونے چاہیں!!!!!
اور وہ بھی بیٹیوں کے والدین۔۔
حادثے کے اصل محرکات الگ ہیں اور اپنی جگہ اٹل ہیں لیکن کم از کم والدین کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ کوئی سخت یا ظالم جابر قسم کے والدین ہوں گے ۔۔۔
ان کو دیکھ کر دل کو دکھ کے ساتھ اک خوشی سی ہوئی کہ اس بگڑے ہوئے معاشرے میں جہاں کبھی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی جان سے مار دینے کے واقعات سننے میں آ جاتے ہیں تو کہیں بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے بیوی اور بیٹیوں کو منحوس قرار دے کر زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔۔ ایک امید کی کرن نظر آئے یہ لوگ۔۔
نہ صرف یہ ہی بلکہ ان لوگوں نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کو یہ سوچ دی کہ بچوں سے غلطیاں ہو جائیں تو
"غلطیوں کو سدھارتے ہیں” بچوں کو اکیلا نہیں کر دیتے۔۔۔
اس معاملے میں میں دعا گو ہوں کہ اللہ ان کی بیٹی دعا کا دل موم فرمائے اور وہ اپنے والدین کے دل کو قرار دے۔
ماں باپ کے حق میں احسن معاملات ہوں۔
•اب آتے ہیں کیس کے دوسرے حصے کی طرف مطلب بچی کی بات کرتے ہیں ۔۔۔
•بچی
•دعا زہرہ
بچی جو کہ خود کو بالغ بتاتی ہے۔ مگر والدین کے مطابق وہ 14، 15 سال کی ہے۔
جب میں نے دعا زہرہ کا گزشتہ دنوں ہونے والے انٹرویو کو دیکھا ۔۔جس میں اس لڑکی نے اور اسکے ساتھ بیٹھے ہوئے اس لڑکے نے جس کو وہ اپنا شوہر بتارہی تھی ہاتھوں سے وکٹری کا نشان بنا کر یہ بتارہی ہے کہ میں جیت گئی بوڑھے ماں باپ ہارگئے،
ھاۓ ،بدقسمتی اولاد کی بھی اور والدین کی بھی۔۔۔
چلیں اس بات سے بھی بالا تر ہو کر بات کرتے ہیں اور دیگر محرکات پر آتے ہیں ۔۔۔
•دیگر_محرکات
پتہ نہیں دعا زہرہ کے کیس میں کون سچا ہے ؟؟
اور کون جھوٹا؟
اس نے اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ کر نکاح کر لیا۔ یا اسے اغوا کیا گیا ۔۔۔
مگر اب بظاہر لڑکا اور اس کا خاندان اس کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کر رہے ہیں۔
یقیناً دعا زہرہ نے جو کچھ بھی کیا یا اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کا کسی صورت میں جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ۔
اب تک کی عدالتی کاروائیوں اور بعد کے انٹرویوز سے یہ بات واضع ہوتئ ہے۔
چاہے اسے برین واشنگ کہیں یا بچپن کی نادانی لیکن کم از کم اس وقت تک تو وہ اپنے عمل کی پوری ذمہ داری قبول کررہی ہے۔۔۔۔
کیس
اس لحاظ سے کم از کم مجرمانہ اغوا کا مقدمہ نہیں بن پایا، اب سارا سوال صرف اتنا رہ گیا ہے یانیوں کہہ لیں کہ والدین کے لئے اب صرف اتنا ہی راستہ بچ گیا ہے کہ اس بچی کی عمر اور عدم بلوغت کے سہارے اس کے مبینہ نکاح کو nil and void یعنی منسوخ قرار دیا جائے۔
اس میں بھی سندھ اور پنجاب کے قوانین کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکنہ فیصلہ کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں ہے۔
اگر بادی النظر شواہد کی روشنی میں یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی تھی،
تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسے عوامل تھے جن کی وجہ سے بچّی اتنا انتہائی قدم اُٹھانے کا حوصلہ کرسکی ۔انسانی نفسیات بڑی ہی پیچیدہ چیز ہوتی ہے ۔۔۔
کسی 14 کہو 15، 17 یا 18 سالہ لڑکی کے لیئے اپنے گھر سے ہزاروں کلو میٹر سے زائد سفر کرکے اجنبی شھر میں جانا مذاق نہیں ہے ،
بلکہ ناممکن ہے۔۔۔
تو اب یہ سوال اٹھتا لازمی بنتا ہے کہ دعا زہرہ جو زندگی میں گھر سے کبھی نکلی ہی نہیں تھی ۔ اور اسکا خاوند جو مارکیٹ میں موبائل بیچتا اور خریدتا ھے ۔۔
کیا ان دونوں کی ذہنی سطح ایک جیسی ھو سکتی ھے ؟؟؟
یہاں واضع طور پر نظر آتا ہے کہ لڑکے نے لڑکی کو ٹریپ کیا ہے ۔۔۔۔
اور ٹریپ ایسے ہی تو نہیں ہو جاتا کوئی۔۔کوئی نہ کوئی ذریعہ تو رہا ہو گا۔۔۔
اس کے باوجود میرا تجربہ و مشائدہ یہ ہےُکہ انسانی دماغ اتنا پیچیدہ ہوتا ہےُکہ اس سے کسی بھی غیر معمولی حرکت کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچی والدین سے کیا چاہتی ہے ۔۔۔؟؟؟
•بچی بار بار والدین سے منہ موڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔
•برملا کہتی ہے کہ اسے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہنا۔
•میڈیا کی یلغار، عدالتیں، پولیس کے چھاپے، تھانے، گرفتاری سے بچنے کے لئے جگہ جگہ در بدری،
•حکام بالا کی ملاقاتیں، رشتے دار اور والدین اسے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹا نہیں سکے۔
•شہلا رضا نے شیلٹر ہوم میں ملاقات تو کر لی لیکن بچی کا بیان والدین کے حق میں نہیں ہو سکا۔
کیوں؟
وجہ ؟؟؟
شیلٹر ہوم میں تو پریشر گروپ نہیں تھے،
•اگر کوئی اور بات تھی تو دعا نے کیوں نہیں بتائی؟
•دعا زہرہ والدین کی التجاؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے پتھر کی کیوں بن گئی ہے؟
مختلف آرائیں۔
1۔۔۔رائے نمبر ایک:
شاید وہ شدید خوف کے عالم میں ہے۔
کسی گینگ کی دھمکیاں، تشدد، یا موت کا ڈر؟
لیکن وہ تو عدالت میں کھڑی ہے، منصف، وکیل، پولیس کے اعلی افسران، میڈیا اور تماشائیوں کا ہجوم سامنے ہے۔
ایک لفظ منہ سے نکالنے کی دیر ہے اور ظہیر سمیت سب گرفتار۔
پھر کس بات کا ڈر؟
2۔۔۔۔رائے نمبر دو:
شاید بلوغت کے بعد ہارمونز کے طوفان نے اسے بے بس کر رکھا ہے اور جو جنسی تعلق اسے شادی کی شکل میں ملا ہے، وہی اس کی شدید خواہش ہے۔
لیکن دنیا بھر میں بچیاں بلوغت کو پہنچتی ہیں، ہارمونز کے طوفان سے سب ہی کو واسطہ پڑتا ہے، منہ زور خواہشات سب کو تنگ کرتی ہیں، لڑکوں سے دوستی بھی ہوتی ہے لیکن پھر بھی بچیاں اتنے بڑے فیصلے نہیں کرتیں اور اتنی کٹھور نہیں بنتیں۔
3۔۔۔۔رائے نمبر تین:
دعا زہرہ کا دماغ خراب ہے،
کیا ہے اس عجیب سے لڑکے میں؟
واقعی ظہیر کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔
نہ تعلیم،
نہ عہدہ،
نہ مرتبہ،
نہ دولت،
نہ وجاہت۔
پھر کیا ہے ایسا اس لڑکے میں جس کے لئے اس بچی نے اپنے ماں باپ کی
بے بسی،
اپنی ماں کے آنسو اور التجائیں،
اپنے باپ کی درخواست،
اپنی بدنامی،
اپنے خاندان کی بدنامی ،
اور حالات کا دباؤ سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم ہے۔
کچھ اور حقائق دیکھ لیتے ہیں جو مختلف انٹرویوز کے ذریعے ہم تک پہنچے۔
“ میں اینگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار تھی اس لیے گھر دعا زہرہ سنبھالتی تھی” ( والدہ)
“ دعا زہرہ ہی مکمل طور پہ اپنی چھوٹی بہنوں کا خیال رکھتی تھی” ( نانی)
“ دعا زہرہ سکول نہیں جاتی تھی”
“ دعا زہرہ کی کوئی سہیلی نہیں تھی” ( والدہ)
دعا کوڑے کے تھیلے گلی میں رکھنے گئی تھی ( والدہ)
“ میں نے دعا زہرا کو پب جی کھیلنے سے روک دیا تھا۔
بعد میں اس نے یہ دوسری گیم کھیلی جس میں اس کی دوستی ظہیر سے ہوئی” ( والد)۔
حیرت ہوئی کہ ،
1•بچی سکول نہیں جاتی، 2•سہلیوں سے نہیں ملتی،
3•ماں باپ کی روک ٹوک کے ساتھ گھریلو کاموں اور چھوٹی بہنوں کے کاموں کی ذمہ داری،
کیا ایک ٹین ایجر کی زندگی میں کچھ اس کے اپنے لیئے بھی تھا؟
• ایک بات ،
ہماری کامن سینس یہ بھی کہتی ہے کہ کشش ظہیر میں نہیں بلکہ اس رشتے کے ذریعے حاصل ہونے والی آزادی اور اپنی مرضی کے جادو میں ہے۔
شاید یہ وہ طاقت ہے جس کے سہارے دعا زہرہ ساری دنیا کا مقابلہ کر رہی ہے۔
میرے کچھ سوالات ہیں اور ان کا مقصد دعا کے والدین کا دل دکھانا ہرگز نہیں، بلکہ تمام بچیوں کے والدین کی توجو کو اس لمحہ فکریہ کی طرف مبذول کروانا ہے جس سے آج کل تقریبا سارے والدین گز رہے ہیں ۔
*سوالات *
1•کیا دعا کو اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کی اجازت تھی؟
2•کیا دعا کو اپنی مرضی کی کتابیں اور رسالے پڑھنے کی اجازت تھی؟
3•کیا دعا کی پٹائی ہوتی تھی؟
4•کیا معمولی باتوں پہ ڈانٹ پھٹکار زندگی کا حصہ تھی؟
5•کیا دعا کو ٹی وی پہ اپنی مرضی کے پروگرام دیکھنے کی اجازت تھی؟
6•کیا دعا کو سہیلیاں بنانے کی اجازت تھی؟
7•کیا دعا کھیل کود میں حصہ لیتی تھی؟
8•کیا ہوتا اگر دعاگھر کے کام نہ کرتی؟
9•کیا دعا کو اجازت تھی کہ وہ چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دے؟
10•کیا دعا کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی؟
11•کیا دعا شادی کی بجائے کیرئیر بنانے کا خواب دیکھ سکتی تھی؟
12•کیا دعا کو اپنی مرضی سے سونے جاگنے کی اجازت تھی؟
13•کیا دعا اپنی مرضی سے اپنے شوق اور مشغلے اپنا کر پورے کر سکتی تھی؟
14•کیا دعا کو اجازت تھی کہ وہ سیر و تفریح کے لیے باہر جائے؟
15•کیا دعا کو فیشن کرنے کی اجازت تھی؟
16•کیا دعا کو جیب خرچ ملتا تھا؟
17•گھر کا ماحول کیسا تھا؟
18•کیا ماں باپ کے آپس کے تعلقات خوشگوار تھے یا گھر میدان کارزار بنا ہوا تھا؟
کیس کا دوسرا حصہ
اب کیس کے دوسرے حصے مطلب بچی کی بات کرتے ہیں۔ •فرض کیا بچی اسی عمر کی ہے جو والدین بتا رہے ہیں۔ ساتویں، آٹھویں جماعت کے بچے بچیاں اسی عمر کے ہوتے ہیں۔
میڈیا اور بچوں کی آزادی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ وقت سے پہلے بالغ ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ •انھیں وہ باتیں جو مناسب عمر ہونے پر پتہ چلنی چاہیں تھیں وہ کم عمری میں کارٹونز، فلموں، ڈراموں اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا اور دوسری سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے پتہ چل رہی ہیں۔
•بچے ناسمجھی اور اپنی دانست میں خود ہی یا اپنے ہم عمر دوستوں سے ان معلومات کا تبادلہ کر کے رائے لیتے ہیں۔۔۔۔۔
•سوشل میڈیا جس میں فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، اور اب رابطے کی سماجی ویب سائٹس کے علاوہ گیمز ایسی ہیں جن میں آپ ایک جگہ بیٹھے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے شخص سے رابطہ استوار کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ اس کیس میں ہوا۔ پب جی گیم کے ذریعے محبت کے جذبات پیدا ہوئے۔ یہ گیم بچوں کے لئے ویسے ہی بہت سے نفسیاتی مسائل پیدا کر رہی ہے کجا اس طرح کا معاملہ۔۔۔۔۔۔۔۔
•اب یہاں پھر سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ،
•یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کرے، ؟؟؟
•میڈیا کی ؟
•عوام یا پھر والدین کی ؟؟؟
•والدین کے پاس تو وقت نہیں۔۔۔۔۔۔۔
•باپ اس مہنگائی کے ہو شرابا طوفان کا مقابلہ کرنے اور اہل خانہ کی ضروریات زندگی پوری کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے اور ماں کو گھر کے کام الجھائے رکھتے ہیں۔ دونوں کریں تو کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
•آگے بڑھتے ہیں اب دیکھا یہ جائے کہ ایسے کون سے عوامل ہیں۔ جس کی بناء پر بچے اپنے والدین سے دور ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ بچوں کو باہر دنیا کے اجنبی لوگوں پر والدین سے زیادہ اعتبار ہے۔
•بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ اگر وہ کوئی غلط قدم اٹھا لیں تو چند دن میں انھیں احساس ضرور ہو جاتا ہے۔ ماں کا لمس اور باپ کی شفقت و محبت ضرور یاد آتی ہے۔ مگر یہاں اتنا عرصہ گزر گیا۔ بچی ہنوز وہی مجھے نہیں جانا واپس کی رٹ لگا رکھی ہے۔
•ان عوامل کو دیکھنا بہت ضروری ہے کہ بچی کن نفسیاتی مسائل سے دوچار تھی جو وہ اپنے والدین کے گھر ان کی آغوش میں جانا نہیں چاہتی۔
عوامل
دیکھیں!
•زمانے کی رفتار بہت تیز ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔۔۔۔
اگر اس مقابلے میں اپنی جان سے پیاری، سب سے قیمتی چیز؛ اپنی اولاد ہار دیں تو نہ تو آپ کی اندھا دھند محنت کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی آپ کی سارا دن کی تھکان اور برسوں کی ریاضت کا۔۔
وقت نکالیں اپنے بچے کو وقت دیں۔۔۔
•ہر وقت پرفیکٹ نظر آنے کی بجائے لوگوں کے لئے ام پرفیکٹ مگر اپنے اچھے والدین بنیں۔۔۔
•سب کو تو خوش نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم اپنے بچوں کے لیے اچھے والدین بننے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔
انھیں تو خوش رکھا جا سکتا ہے۔
ہنستا مسکراتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے ۔
•یہ صرف دعا زہرہ کے ہی نہیں سب والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آپ اپنی اولاد کو ان کے اپنے گھر میں سکون اور محبت دیں تا کہ باہر محض ذہنی سکون یا محبت کی خاطر کسی غلط شخص کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچیں۔
ہم جیسے بڑوں کو بھی اگر ذرا سی تکلیف ہو جائے تو سب سے پہلے والدین یاد آتے ہیں۔ خواہ وہ سلامت ہوں یا دنیا سے چلے گئے ہوں۔
تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کی نسل کے بچوں کو چھوٹی سی عمر میں والدین کی کمی محسوس نہ ہو۔
اصل میں والدین کو خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
خدارا اپنا اپنا محاسبہ کیجئیے اور اپنی سرمایہ حیات،
متاع جان ،اپنی اولاد کو محفوظ کیجئیے۔
ان کو پیار دیں ،
وہ ضد کریں تو بے شک ضد مت مانیں مگر مزید پیار دیں۔
بجائے اس کے کہ وہ اپنی ذہنی اور نفسیاتی مسائل کی وجہ سے آپ سے تنگ پڑ کر باہر کی دنیا میں پناہ تلاش کریں والدین اپنے دامن میں ان کو سمیٹ لیں۔۔۔
•والدین کو علم ہونا چاہئے کہ بچہ پیدا کر لینا، اس کا پیٹ بھر دینا اور چھت فراہم کرنا کافی نہیں ہوتا۔
بچے کی جذباتی احتیاجات پوری نہ کرنا، اس کے لیئے اس کی اپنی مرضی کا دروازہ نہ کھولنا، پرسکون ماحول فراہم نہ کرنا، اس پہ اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ لادنا، اس کی خواہشات کو نظر انداز کر دینا، اسے زمانے کے دھارے سے کاٹ کر پروان چڑھانا، اس کی غلطیوں پہ بے پناہ سرزنش کرنا، بچے کو قبل از وقت بڑا بنا دینا، بچے کو روبوٹ سمجھ کر ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا وہ غلطیاں ہیں جن کی سزا ساری عمر آپ بھی بھگتیں گے اور بچہ بھی بھگتے گا ۔
اب آتے ہیں خلاصے اور اصل مدع کی طرف۔
*اصل مدعا *
دعا کی تصویریں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اگر ان حالات میں بھی دعا اپنی مرضی سے گھوم پھر رہی ہے، ہوٹلنگ کر رہی ہے، سالگرہ کا کیک کاٹ رہی ہے ، تو کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ کھلی فضا میں سانس لینا چاہتی تھی؟
وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی جینا چاہتی تھی ؟؟
اور اس نے یہ راستہ ظہیر کے ذریعے چنا ؟؟؟
یقین کر لیجیئے کہ اس طوفان سے گزرنا دعا کے لیئے بھی آسان نہیں رہا ہوگا یا ہے ۔ محبت کرنے والے ماں باپ سے منہ موڑ کر گزر جانا کسی ایسے زخم کا نشان ہے جو وقت ہی بتائے گا۔
ماں باپ سے میری درخواست ہے اپنی نوعمر بیٹیوں کے گرد دیواریں اس قدر بڑی نہ کریں کہ وہ سانس نہ لے سکیں۔ انہیں محبت، آزادی اور ان کی مرضی کی ہتھکڑی پہنائیں۔
یقین کیجئے، وہ آپ کی محبت کا مان رکھیں گی ۔
میرا خیال ہے کہ دعا کے معاملے میں یقیناً کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے جس نے اس کے والدین کے درمیانی رشتے کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ یہ انتہائی اقدام اُٹھانے کی ہمت کرسکی ۔ جبکہ دیکھنے میں ایسا محسوس نہیں ہو رہا ۔۔۔
یہ تمام والدین کے لئے ایک سبق ہے۔
بچّوں کے درمیان رعب و داب والے تعلقات کا زمانہ گذرچُکا ہے ۔ اب آپکو بچوں کی زندگی میں جھانکنے کے لئے ۔۔۔
ان کے اور اپنے درمیان یہ احترام و جھجک کی دیواریں گرانی ہوگی۔
تاکہ وہ اپنے دل کی بات کھلے دل سے کر سکیں۔
اگر ان کی بات ناگوار بھی گذرے تو سختی سے انکار کی بجائے اسے نرمی سے سمجھائیں۔۔
اور ایک بار نہیں بارہا سمجھاتے رہیں ۔۔
یہاں تک کے یا تو وہ آپ کو قائل کرلیں ورنہ وہ آپ کی بات سمجھ جائیں۔
ایسا بھی ہوا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ بچّے غلطی کررہے ہیں، لیکن معاملے کو ہمدردانہ نظر سے بے جاضد سے بچتے ہوئے ٹھنڈے دل سے ان کے سامنے اپنا موقف دلیل کے ساتھ پیش کریں اور ان کی جوابی دلیلوں کے لئے دل و دماغ کھول کر رکھیں تو اُمید ہے رفتہ رفتہ دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے کو قائل کرنے میں کامیاب ہو ہی جائیں گا۔
جب تک وہ آپ سے بلا خوف و جھجک بات کرسکتے ہوں گے، اسوقت تک وہ انتہائی قدم نہیں اُٹھائیں گے ۔۔
اس لئے گفتگو کے راستے کسی بھی صورت میں بند نہیں کئے جانے چاہیں۔۔۔
دعا کے والدین کے لئے بھی یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ جیسا بھی ہے دونوں بچّے نوجوان ہیں ضروری نہیں کہ یہ فیصلہ درست ثابت ہو۔ لیکن بچّی کے اس اقدام کے بعد بڑی حدتک کشتیاں جل چُکی ہیں، اس وقت ناگواری کے باوجود اس فیصلے کو بچّوں کے حق میں خیر بنانے کی دعا کے ساتھ بھرپور مدد بھی کریں کہ اگر یہ نکاح فسق کرانے کے بعد اگر بچّی واپس آبھی گئی اس کی دوبارہ شادی کرنا ایک مشکل امر ہوگا۔
اس وقت بچی کے مفاد کا تقاضہ یہی ہے اگر وہ لڑکا مناسب طور پر بھی مخلص ہے تو اس رشتے کو مستحکم کرنے کے لئے بھرپور مدد و تعاون کرکے بچی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے۔
اولاد سے کوئی بھی غلطی ہو لیکن ان کی فکردل میں رہے گی ہی، اس لئے اگر خدانخواستہ اگر واقعئ بدترین خدشات درست ثابت ہوگئے تو اس صورت میں بھی پس منظر میں رہتے ہوئے اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے رابطے کے دروازے کھلے رکھنا ہی بہتر ہے ۔۔۔
خلاصہ
کیونکہ گزشتہ تمام وڈیوز کو دیکھنے بعد خلاصہ یہی نکلتا ہے ایک باپ اپنی بیٹی کی عمر ثابت کرنے کے لئے ذلیل وخوار ہو رہا ہے.
دوسرا یہ بچی ایک ایسے مضبوط گروہ کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے، جس کے سامنے پنجاب گورنمنٹ سے لیکر سندھ گورنمنٹ تک گھٹنے ٹیکتی نظر آتی ہے۔۔۔
لڑکی کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کرتے وقت ایسی سیکورٹی میں لایا گیا جو ہائی پروفائل ملزمان کے لئے ہی ہوتی ہے۔۔۔۔
لڑکی کے چہرے کو پوری طرح ڈھکا ہوا تھا، تاکہ وہ اپنے والدین کو نہ دیکھ، سکے اور اگر دیکھ بھی لے تو اس کے دل میں آنے والے جزبات چہرے سے کیمرے تک نہ پہنچ سکیں۔۔۔
کل ایک پروگرام میں نشاندہی کی گئی کہ ایک سفید کپڑوں والا شخص اس بچی کے ساتھ تھا جو کہ سارے معاملات کو سنبھال رہا تھا.
اس بچی کے ماں باپ بہت باہمت لوگ ہیں، مگر پاکستان میں اس مافیا کے ہاتھ اتنے مضبوط ہیں کہ کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔
شاید آپ سب کو یاد ہو زینب کے ریپ اور قتل کے بعد” شاہد مسعود ” نے ایک پروگرام کیا تھا جس میں ایک ایسے مافیا کی
نشاندہی کی تھی جو انٹرنیشنل سطح تک اپنے تعلقات رکھتا تھا۔
اس کے بعد شاہد مسعود پر مقدمے بنے ،وہ جیل گئے وغیرہ وغیرہ….
اس سے قطعی نظر کہ یہ معاملہ محبت کا ہے یا کچھ اور اس موقع پر انتہائی دکھی دل کے ساتھ رحمان فارس کی ایک نظم یاد آرہی ہے کہ
محبت کے تقاضوں سے ،
مُکرنا تو نہیں ممکن ۔۔۔۔
تُجھے جس سے محبت ہے
اُسی کے ساتھ رہنا ،
تیری مرضی اور ترا حق ہے ،
مگر بیٹی !
محبت تو ،
تری ماں کو بھی ،
تُجھ سے تھی،
محبت تو ،
تیرے بابا کو بھی ،
تُجھ سے تھی !
محبت کرنے والوں سے یہی تو بُھول ہوتی ہے ،،،،
محبت سے محبت کے تصادم میں ،،،
محبت آپ ہی مقتول ہوتی ہے۔۔۔
•آخر میں یہی کہوں گی کہ سب یہ بات دماغ سے نکال دیں کہ یہ کوئی پسند کی شادی والا معاملہ ہے۔۔
یہ کیس پاکستان کے چہرے کی کالک دکھا رہا ہے۔۔۔
اس معاملے میں ،
میں اللہ رب التعالی دعا گو ہوں کہ اللہ ان کی بیٹی دعا کا دل موم فرمائے اور وہ اپنے والدین کے دل کو قرار دے۔
ماں باپ کے حق میں احسن معاملات ہوں۔۔
اور ماں باپ کو چاہیئے کے یہاں تک آنے کے بعد دروازے بند نہ کریں بلکہ تھوڑی ہمت اور کر کے اپنی بیٹی کی زندگی کی خاطر اپنے دل اور گھر کا دروازہ کھول کر اصل حقائق تک پہنچنے کی بھر پور کوشش کریں ۔۔۔
آخر میں دعا ہے کہ
اللہ پاک تمام والدین کو اس قسم کے امتحانات سے محفوظ رکھے۔اللہ پاک ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔
آمین ثم آمین۔۔۔