(تحریر۔۔۔لیاقت علی رانا)
دعازہرہ کےکیس کےحوالےسے سوشل میڈیاپرطوفان بدتمیزی جو آیاتووہ تھمنےکانام ہی نہیں لےرہا۔یوٹوبرزاور وٹس ایپ جرنلسٹس حقاٸق کوجاننے کی بجاٸےگالم گلوچ اور بدعاٶں کامقابلہ کررہےہیں۔لاہورمیں ایک خاتون ظہیرکی والدہ سےپوچھتی ہےکہ ایک بیٹی کوماں باپ سےچھین لیاتمہیں شرم نہیں آٸی ۔۔اللہ کےبندوں یہ کونسی صحافت ہے یہ سوال کرنےکاکون سااندازہےاورکہاں راٸج ہے؟کراچی میں ایک صاحب محترم مہدی کاظمی سےکہتےہیں یہی طریقہ (احتجاج مظاہرے )ہےمسلےکوحل کرنےکا۔بیٹی کےغم سےچور والدین کی بےبسی اور بےچارگی کامذاق اڑیاجارہاہےجبکہ کچھ لوگوں کاتواس واقعہ کی وجہ سےدال دلیےکاسلسلہ شروع ہوگیاہے۔دعازہرہ کےوالدبھی جذبات میں آکرسپریم کورٹ پہنچ گٸےہیں, سپریم کورٹ نےبھی ملک میں راٸج قوانین کےتحت ہی فیصلہ کرناہےاگر سپریم کورٹ نےبھی دعاکومرضی سےزندگی گذارنےکی اجازت دی تومہدی کاظمی صاحب کیاکریں گے۔یافرض کریں سریم کورٹ مہدی صاحب کےحق میں فیصلہ کردیتی ہے۔(اس کوکوٸی امکان نہیں ہے)توکیامہدی صاحب بیٹی کوطلاق دلوادیں گے۔۔۔
میں دعازہرہ کےکیس پرپربات کرنےسےپہلےدوواقعات کازکر کروں گا۔
سندھ ہاٸیکورٹ میں چند سال قبل لاڑکانہ کی ایک خاتون(نام یاد نہیں) نےخواتین وکلاکی ایک تنظیم کےتوسط سےاپنےان چاربچوں کی کسٹڈی کاکیس داٸرکیاجن کوخاتون نے تین سال سےدیکھابھی نہیں تھا۔یہ کیس جسٹس امیرہانی مسلم کی عدالت میں زیرسماعت آیا۔خاتون کی طرف سے ایک سنیٸرخاتون وکیل عدالت میں اپنی جونیٸرزکےہمراہ پیش ہوٸیں۔عدالت کوبتایاگیاکہ خاتون نےلاڑکانہ پولیس کے ایک افسرسےشادی کی جونہ صرف شادی شدہ تھابلکہ تین بچوں کاباپ بھی تھا۔پولیس آفیسرکی دوسری شادی کےوقت اس کابڑابیٹا17سال کاتھا۔خاتون کوشادی کےدس سال بعد اس وقت احساس ہواکہ اسکاسوتیلا بیٹا اس پربری نظررکھتاہےجب وہ خود چاربچوں کی ماں بن چکی تھی۔۔دوران سماعت خاتون کاشوہراور چاروں بچےعدالت میں موجودتھےپوری سماعت میں بچوں نےماں کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھا(دعانےبھی دوران سماعت یہی کیا)۔چاربچوں میں سےایک بچی 4سال کی اور ایک بیٹاپانچ سال کاتھا۔شوہرکاکہناتھاکہ وہ اپنی شادی کوبرقراررکھناچاہتاہےاور اس کیلٸےالگ گھربھی فراہم کرنےکوتیارہے۔جبکہ خاتون کی وکیل مسلسل انکی علیحدگی اور بچوں کی کسٹڈی ماں کودینےکی بات کررہی تھیں۔خاتون جس نےتین سال کےبعد بچوں کودیکھاتھابچوں کی عدم توجہ کےباعث کنفیوژن کاشکارہوٸی۔جسٹس امیرہانی مسلم نےفریقین کوایک گھنٹےکاوقت دیاکہ وہ بات چیت کرکےکوٸی حل نکال لیں۔وقفے کےدوران خواتین وکلا نےخاتون کوگھیرےرکھاتاکہ وہ اپنےشوہراور بچوں سےبات نہ کرسکے۔ سنیٸرخاتون وکیل اپنی کلاٸنٹ کوباربارصلع سے منع کرتی رہیں ان کاکہناتھاکہ وہ اسےہرحال میں شوہرسےطلاق لینی چاہیٸے(یہ ساری گفتگومیرےسامنےہوٸی تھی)وکلانےخاتون کی کنفیوژن دور کرکےاسے طلاق کےمطالبےپرقاٸم رکھا۔اس سارے وقت میں بچےباپ سےچمٹےرہے۔سماعت دوبارہ شروع ہوٸی توجسٹس امیرہانی مسلم نےچھوٹےبچےماں اور بڑےبچوں کوباپ کےحوالےکرنےکافیصلہ سنادیا۔فیصلےپرفوری عمل ہوا اور عملدرآمدکےدوران بچوں اور انکےباپ کی تڑپ دیکھ کروہاں موجودہرشخص کی آنکھیں بھرآٸیں جبکہ دوسری جانب خواتین وکلاکےچہروں پراطمنان بھری مسکراہٹ رقصاں تھی۔ اب آتےدوسرےکیس کی طرف کورٹ ہےجسٹس شاہدانورباجوہ کی۔ اور ایک خاتون ڈاکٹرعدالت کےروبرو حلفیہ بیان دےرہی ہے۔اس موقع پر کورٹ روم کھچاکھچ بھراہواہےاور سماجی تنظیموں کےدرجن بھرکارکن ہاتھوں میں رینکل کماری کوآزاد کروکےپلےکارڈتھامےہوٸےہیں اور نعرےبھی لگارہےہیں جبکہ یہی رینکل کماری عدالت کوبتارہی ہے کہ اسےکسی نےاغوانہیں کیا۔اس نےاسلامی تعلیمات سےمتاثرہوکراسلام قبول کیاہےلیکن وہاں موجوداین جی اوکےکارکن اس بات پربضدہیں (این جی اوزکےکارکن بھی مسلمان ہیں)کہ یہ بیان دباٶپردیاگیاہے۔
عدالت نے نومسلم ڈاکٹرکوشوہرکےساتھ جانےکی اجازت دی توعدالتی فیصلےپرشدیدتنقیدکی گٸی اور نعرےبازی کرکےاپنی ڈیوٹی بھی پوری کی گٸی اس زمانےمیں یوٹیوبرزہوتےتوان کاکیاردعمل ہوتاوہ سب جانتےہیں۔اب آتے دعازہرہ کی طرف۔عدالتی ہدایت پراسےپنجاب سےبازیاب کرکےسندھ ہاٸیکورٹ میں پیش کیاگیا۔جہاں اس بچی نےکلمہ پڑھ کرکہاکہ اسےاغوانہیں کیاگیاوہ اپنی مرضی سےگھرسے گٸی اور اس نےلاہورمیں ظہیراحمدسے شادی کی ہےاور وہ اپنےشوہرکےساتھ ہی جاناچاہتی ہے۔جب دعازہرہ بیان ریکارڈکروارہی تھی ججز سمیت عدالت میں موجود ہرشخص کی نظراس پرتھی۔وہ بچی نہ کنفیوز ہوٸی نہ شرماٸی اور نہ ہی خوفزدہ۔اس کےاعتماد اوردوفٹ کےفاصلےپرکھڑےماں اور باپ کونظرانداز کرناسب کیلٸےباعث حیرت او سوالات کوجنم دیےرہاتھا۔کہ بیٹی اور اس کےوالدین میں اتنی اجنبیت کیوں پیداہوٸی۔اس کاجواب تومحترم مہدی کاظمی اور انکی اہلیہ یاپھردعاکےپاس ہی ہے۔عدالت نےحلفیہ بیان کےبعداغواکامقدمہ غیرموثرقراردےدیایہ ساری کاررواٸی اوپن کورٹ میں ہوٸی۔لیکن میڈیاکےسامنےمحترم مہدی کاظمی اور انکےوکیل الطاف کھوسونےمیڈیاکوبلیم کیاجس پرہم کورٹ رپورٹرزکی جانب سےکچھ تلخ سوالات کٸےگٸےجن کےجواب میں بدعاٸیں سننں کوملیں۔ حالانکہ میڈیانےعدالتی کاررواٸی کےساتھ دعاکے والدین انکےوکیل اورصوباٸی وزیرشہلا رضاصاحبہ کاموقف بھی رپورٹ کیا۔دعازہرہ کوعدالت میں پیش کرنےکےاندازپربڑھی باتیں ہورہی رہی ہیں توتمام کورٹ رپورٹرزاور وکلاکوپتہ ہے کہ پولیس کس طرح زیرحراست لوگوں کوپیش کرتی ہے۔عدالتی حکم پردعازہرہ کی عمرکےتعین کیلٸےمیڈیکل ہوالیکن میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش ہونےکے20گھنٹےپہلے میڈیاکوفراہم کردی گٸی جس کانوٹس کورٹ کولیناچاہیٸےتھا۔دو روزکےبعد دعازہرہ کودوبارہ سندھ ہاٸیکورٹ میں پیش کیاگیاتودعاکے والدین۔بہن اور خالہ سےدوری۔بےرخی۔بےاعتناعی اور اجنبیت میں کوٸی کمی نہیں آٸی تھی۔میں اس کو نفرت اس لٸےنہیں لکھ رہاکیونکہ والدین کی کسی بات پرناراضگی یاوقتی غصہ توہوسکتاہےنفرت نہیں ہوسکتی۔۔دعانےعدالت میں ایک بارپھرسامنےروتی کھڑی ماں کونظراندازکرکےکہاکہ وہ اپنےشوہرظہیرکےساتھ جاناچاہتی ہے۔عدالت نےدعاکووالدین سےملاقات کیلٸےکہاتواس نےصاف الفاظ میں منع کردیاتاہم جسٹس امجدسہتونےدعاسےکہاکہ بیٹاآپکےوالدین پریشان ہیں آپ ان سےمل لو۔انکارکےباوجودعدالت نےعدالتی اہلکاروں کودعاکوعدالتی چیمبرمیں لےجانےکاحکم دیاجہاں دعازہرہ کی والدہ,والد,بہن اورخالہ نےملاقات کی۔10منٹ کی یہ ملاقات 8منٹ میں ختم ہوگٸی اور دعاخواتین پولیس اہلکاروں کےہمراہ چیمبرسے باہرآٸی پولیس جیسےاسےلےکرآٸی تھی اسی طرح واپس لےگٸی۔ دعاکےباہرجانےکےکچھ لمحات کےبعددعاکےوالدین باہرآٸےاور روتے ہوٸے شورمچایاکہ دعااپنےشوہرظہیرکےبجاٸے والدین کےساتھ جاناچاہتی ہے۔میں نےدونوں میاں بیوی کومشورہ دیاکہ یہ بات میڈیاکیمروں کےسامنےجاکرکہیں۔
دوسری جانب دعاسے ہم کورٹ رپورٹرزنے باربارملاقات سےمتعلق سوال کیالیکن اس نےکوٸی جواب نہ دیا۔ملاقات کےحوالےسےجب عدالتی عملےسےپوچھاگیاتوان کاکہناتھاکہ ملاقات میں دعأزہرہ زیادہ ترسرجھکاکرخاموش بیٹھی رہی۔ماں کےگلےلگانےپربھی اس نےکوٸی ردعمل ظاہرنہیں کیا۔۔ماں باپ اسے دوماہ میں شادی کروانےکی آفرکرتےرہےلیکن دعابت کی طرح خاموش رہی اور اسنےماں باپ کی بجاٸےشوہرکےساتھ جانےپراصرارکیا۔دعاکے والدین ملاقات کےبعد جسٹس جنیدغفاراور جسٹس امجدسہتوکےروبروپیش ہوٸےاور کہاکہ دعاہمارے ساتھ جانےکوتیارہےوہ دوبارہ بیان دیناچاہتی ہےآپ اس کابیان ریکارڈ کرلیں تاہم عدالت عالیہ نےبرہمی کااظہارکرتےہوٸےکہاکہ ہم نےحلفیہ بیان کےبعد آرڈرکیاہےاب تمہارے کہنےپرآرڈرپرآرڈرنہیں کرسکتے۔ملاقات کےحوالےسےجب میں نےمحترم مہدی کاظمی سےسوال کیاتوانھوں جواب دینےکےبجاٸےدھمکی آمیزاندازمیں کہاکہ خداکاخوف کروتمہاری بھی بیٹی ہوگی اس کےساتھ بھی ایساہوسکتاہے۔ہماری صحافی برادری کایہ المیہ ہےکہ جب تک آپ سامنےوالے کی مرضی کی بات کرتےرہیں آپ سچے,اصلی اور نسلی صحافی ہیں جیسےہی کوٸی ایساسوال کردیں جوسامنےوالےکوناگوارگذرےفوری طورپرآپ لفافہ صحافی قراردےدیےجاتےہیں۔یہ نہیں توبدعاٸیں اور دھمکیاں توحق سمجھ کرصحافیوں کودی جاتی ہیں۔۔دعازہرہ سندھ ہاٸیکورٹ اور لاہورہاٸیکورٹ کےعدالتی حکم کےبعداپنےشوہرکےساتھ زندگی گذاررہی ہےاب اس نےیوٹیوبرزکوانٹرویوزدیناشروع کردٸےہیں جبکہ دوسری جانب دعاکہ والدین بھی احتجاج کرنےکےساتھ یوٹوبرزکےہاتھوں مذاق بن رہے ہیں۔ دعازہرہ نےجوقدم اٹھایااس کاطریقہ کارغلط ہے اس کی تاٸید کوٸی باعزت اور شعوروالاشخص نہیں کرسکتا۔لیکن بچوں سےغلطیاں ہوتیں ہیں اور ماں باپ ہمیشہ اپنی اولاد کی غلطیوں پرعقل ودانش سے پردہ ڈالتےہیں۔۔دعازہرہ اور اسکےوالدین کویادرکھناچاہیٸےکہ جتنےانٹرویودیں گے جتنااحتجاج ہوگاانکی ہی رسواٸی ہوگی۔نہ سوشل میڈیاکاکچھ بگڑےگانہ ہی این جی اوزکا۔بلکہ ان دونوں کاتوفاٸدہ ہی فاٸدہ ہے۔ مہدی کاظمی صاحب اور انکی اہلیہ کوچاہیٸےکہ جوہوناتھاوہ ہوچکاانکی بیٹی نےنکاح کرلیاہےاگروہ کم عمرثابت بھی ہوجاٸےتوکیانکاح ختم ہوجاٸےگا۔مہدی کاظمی صاحب کاالزام ہے کہ ظہیرکاتعلق بین الاقوامی گینگ سےہےاگرظہیرکاتعلق کسی گینگ سےہوتاتوکیادعاملتی, گینگ اسےوہاں لےجاتاجس کامہدی صاحب اور این جی اوز الزام لگارہےہیں۔مہدی صاحب اب بیٹی کی غلطی سمجھ کراسے گلےلگالیں اسے اور اکےسسرال سےمل کربات کریں اور اپنےخدشات دور کرنےکیلٸےحکومت پنجاب اور متعلقہ اداروں سےمددحاصل کریں لیکن دعااور ظہیرکوزندگی گذارنےدیں۔
اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں کیونکہ کوٸی ماں باپ نہیں چاہتےکہ انکی اولاد تکلیف میں رہے۔ہم سب کواپنےرویوں پرنظرثانی کرنی چاہیٸےدوسرے کی عزت کوبھی عزت سمجھناچاہیٸےگھروں سےبھاگنےکی حوصلہ شکنی کےساتھ گھرسے بھاگنےکی وجوہات کی بھی حوصلہ شکنی ضروری ہے