(تحریر۔ عارف الحق عارف )
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی اچانک موت کا سن کر بڑا دکھ ہوا۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔وہ بڑی صلاحیتوں کا مالک تھا۔اس نے اپنی مختصر سی عمر میں دنیاوی اور دینی علمیت میں، خطابت میں، صحافت میں، سیاست میں،وزارت میں،اردو زبان کی مہارت میں اور اقتدار کی عمارت میں اور عالمی شہرت میں وہ بلندی اور اعلی مقام حاصل کر لیا تھاجو بہت کم لوگ حاصل کر پاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے دنیا جہان کی صلاحیتیں اس میں ایک ساتھ جمع کردی تھیں،جن کے لئے لوگ بس خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ٹیلی ویژن کی دنیا کے اس جیسے بڑے اینکر کی ایک قیمتی ہیرے کی اس طرح جوانی اور بے بسی کی موت کا ہمیں زیادہ صدمہ اس لئے ہے کہ ہمارا اس کے خاندان کی تین نسلوں سے گہرا اور قریبی تعلق رہا ہے۔
۱۹۶۷ میں ہم روزنامہ جنگ میں آئے اور ایک صحافی اور سیاسی نامہ نگار کے طور پر ہماری شناخت بنی تو سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے ہمارے تعلقات قائم ہوئے۔ پیر پگارا شاہ مردان مسلم لیگ کے صدر تھے۔ان سے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے تو ان کی جماعت کے رہنماؤں سے بھی روبط قائم ہوئے۔شیخ لیاقت حسین مسلم لیگ کے متحرک لیڈر تھے۔ان کو پتہ چلا کہ ہمارے پیر سائیں سے دوستی کا تعلق ہے تو انہوں نے پیر صاحب سے روابط بڑھانے کے لئے ہمارا سہارا بھی لیا اس طرح ان سے بھی ہمارا دوستی کا تعلق قائم ہوا۔ یہ ۱۹۷۷ کی بات ہے۔بھٹو حکومت کے خلاف مفتی محمود کی قیادت میں نو جماعتوں کے قومی اتحاد کی تحریک چل رہی تھی۔ہمارا شیخ لیاقت حسین کے گھر آنا جانا شروع ہوا تو پورے خاندان سے بھی تعارف ہو گیا۔معلوم ہوا کہ شیخ لیاقت کی اہلیہ آپا محمودہ کالم نگار ہیں اور ایک بڑے صحافی سردار علی صابری کی صاحبزادی ہیں۔ان سے بھی جان پہچان ہوگئی۔ اس وقت ان کے دو نٹ کھٹ سے بچوں سے بھی واقفیت ہوئی۔ایک کانام عمران لیاقت حسین اور دوسرا عامر لیاقت حسین تھا۔ان کی عمر یں اس وقت لگ بھگ ۸ سال اور ۶ سال ہوں گی۔ان کے گھر مشہور شعیہ ذاکر علامہ عباس حیدر عابدی کا آنا جا نا بہت تھا وہ بڑے خطیب تھے۔شیخ لیاقت حسین اور محمودہ آپا ان بچوں کو بھی بڑا خطیب بنانا چاہتی تھیں۔چنانچہ ان دونوں بچوں کو خطابت کا درس دینے ان کے حوالے کر دیا۔علامہ عابدی نے دونوں کو بڑا خطیب بنا دیا ان دونوں نے ان سے نا صرف خطابت سیکھی بلکہ ان کے مذہبی اثرات بھی قبول کیے۔عمران لیاقت حسین نے تو باقائدہ شیعہ عقائد اختیار کرلئے اور قُم ایران جاکر اعلی تعلیم حاصل کی مجتہد بنے اور آئت اللہ بن کر واپس لوٹے۔اس کی فرزانہ سے منگنی ہوئی تو ہم بھی شریک تھے۔منگنی کی ایک یادگاری پلیٹ عرصے تک ہمارے پاس محفوظ رہی۔وہ ایران میں قید ہوا۔ رہائی ملی اور واپس آیا تو عقائد میں شدت اور انتہا پسندی زوروں پر تھی۔ سہون شریف (سندھ) چلا گیا اور وہاں اپنی خانقاہ بنا لی، مریدوں اور پیرہ کاروں کا جم ظفیر تھا۔ معلوم نہیں کیسے وہیں اس کا بھی جوانی ہی میں انتقال ہواوہ بھی اچانک اور افسوس ناک۔
۱۹۸۰ میں ہمارا صحافی سوسائٹی بلاک ۴۔اے گلشن اقبال میں گھر بن گیا اور ہم واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا سے نئے گھر منتقل ہو گئے۔ ۱۹۸۰ سے ۲۰۰۲ تک ۲۲ سال تک وہیں رہے۔وہیں اس کے سگے ماموں ارشد علی صابری سے تعلق قائم ہوا جو ۲۲ سال تک جاری رہا وہ بڑے با صلاحیت ادیب اور شاعر تھے۔برصغیر کے بڑے اخبار نویس سردار علی صابری، عامر لیاقت حسین کے نانا اور ارشد علی صابری کے والد تھے ان سے یہیں ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ وہ جنگ کے مالک اور ایڈیٹر انچیف میر خلیل الرحمن کے صحافت میں استاد تھے۔یہ تھی عامر لیاقت حسین کی تین نسلوں سے ہمارے تعلق کی کہانی۔اس سے اور اس کے بڑے بھائی سے ہمارا تعلق بیٹے اور بزرگ کا ساتھا۔ہمارے بیٹے جواد عارف سے اس کی دوستی تھی۔ہمارے ساتھ اس تعلق کو اس نے نبھایا بھی۔
جیو شروع ہوا۔وہ جیو میں آیا، مذہبی پروگرام عالم آن لائن شروع کیا اور جیو نے اس کی اعلی صلاحیتوں کو صیقل کیا وہ ملک کا بہترین اینکر پرسن بن گیا اور شہرت کی بلندیوں تک پہچ گیا۔ ہم بھی جیو میں سنسر کے شعبہ کے سربراہ بنا دیئے گئے۔اس کے پروگرام ہمارے شعبے میں جانچ پڑتال کےلئے آنے لگے۔ہمارے تعلقات میں دراڑیں یہیں سے پڑنا شروع ہوئیں۔وہ اپنا کام کررہا تھا اور ہم اپنا فرض ادا کررہے تھے۔یہاں تک کہ نوبت تلخیوں اور دھمکیوں تک پہنچی۔وہ ایم کیو ایم میں عام کارکن نہیں رکن قومی اسمبلی اور وزیر تھا دھمکی کا مطلب آپ سمجھ سکتے ہیں۔لیکن میر شکیل الرحمن نے ہمیشہ بچ بچاؤ کرایا۔۲۰۱۱ میں وہ جیو چھوڑ کر اے آر وائی میں چلاگیا تو میر ابراہیم نے اس کے مذہبی شعبہ کی اضافی ذمہ داری ہمارے سپرد کردی اور ہمیں گروپ ڈائریکٹر بنا دیاگیا۔۲۰۱۱ اور ۲۰۱۲ میں رمضان ٹرانسمیشن، عالم آن لائن اور سارے پروگراموں کی ذمہ داری ہم پر پڑی۔اس ذمہ داری نے بھی ہمارے درمیان فاصلے بڑھائے۔ ۲۰۱۲ میں عامر جیو واپس۔ آیا نہیں بلکہ واپس لایا گیا۔مذہبی شعبہ کے لیے جو لوگ ہم نے رکھے تھے، ان کو فارغ کیا گیا کہ ہم نے رکھے تھے۔ عالم آن لائن دوباہ اس لئے شروع نہ کیا گیا کہ ہم نے اس کا فارمیٹ بدل ڈالا تھا۔خیر ۲۰۱۴ میں عامر پھر جیو چھوڑ کر ایکسپریس ٹی وی چلاگیا تو میر شکیل الرحمن نے ہم سے امریکہ رابطہ کیا کہ عامر لیاقت پھر چلے گئے ہیں آپ واپس آجاؤ۔ ہمارے دونوں گھٹنوں کی تبدیلی کے تازہ تازہ آپریشن ہوئے تھے۔سفر منع تھا۔ حکم ہوا وہیں سے کریں۔ چنانچہ امریکہ ہی سے ۲۰۱۴ کے رمضان کا پروگرام گیا۔
تو یہ تھے ہمارے عامر لیاقت حسین سے گرم سرد تعلقات کی کہانی۔کاش وہ اپنی صلاحیتوں، شہرت کی اوڑان، رشتوں کے احترام اور لوگوں سے تعلقات میں توازن برقرار رکھ سکتا۔اس کی موت خبر سن کر ہم پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو کسی عزیز ترین کی اچانک موت کی خبر سن کر ہوتی ہے۔ہمارے دل میں اس کے لئے ہمیشہ خیر خواہی کے جذبات ہی رہے ہیں۔بہر حال ان سب کے باوجود عامر لیاقت حسین کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔