حسینہ واجد کے ایوان وزیر اعظم چھوڑتے ہی اگلے لمحے طلبہ کی لیڈرشپ نے مطالبہ کیا کہ عبوری حکومت کا سربراہ گرامین بینک کے بانی اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو بنایا جائے ۔ یہ عجیب سی بات تھی کہ ابھی حسینہ واجد ٹھیک طرح سے رخصت بھی نہیں ہوئی تھیں کہ عبوری حکومت کے سربراہ کا نام احتجاجی طلبہ کی جانب سے نہ صرف سامنے آگیا بلکہ فوری طور پر قبول بھی کر لیا گیا ۔سب سے پہلے ڈاکٹر محمد یونس کا پروفائل دیکھتے ہیں ۔ اس سے معاملات سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ ڈاکٹر محمد یونس چٹاگانگ کے علاقے ہتھ ہزاری کے ایک گاؤں میں 28 جون 1940 کو پیدا ہوئے ۔ اس طرح ان کی عمر 84 برس ہوچکی ہے ۔ 14 بہن بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم ڈھاکا یونیورسٹی ، Colorado یونیورسٹی ، Boulder یونیورسٹی اور وانڈربلٹ یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ایک روسی خاتون Vera Forostenko سے انہوں نے 1970 میں شادی کی بعدازاں یہ شادی طلاق پر 1979 میں ختم ہوگئی ۔ Vera سے ان کی بڑی بیٹی مونیکا ہے جو امریکی شہریت کی حامل ہے اور وہیں پر وہ مختلف اوپرا کمپنیوں کے لیے بطور مغنیہ پرفارم کرتی ہے ۔ بعدازاں انہوں نے 1983 میں جہانگیر نگر یونیورسٹی ڈھاکا کی فزکس کی پروفیسر افروزی سے شادی کی جس سے ان کی ایک اور بیٹی دینا ہے ۔یوں تو ڈاکٹر یونس کو آغا خان اور گاندھی پرائز سمیت درجنوں اعزازات و انعامات دیے گئے مگر قابل ذکر نوبل انعام اور دیگر دو امریکی انعامات ہیں ۔ انہیں 2006 میں نوبل پرائز ملا جبکہ 2009 میں US Presidential Medal of Freedom اور 2010 میں Congressional Gold Medal دیا گیا ۔اب تک دنیا میں صرف سات افراد ایسے ہیں جو یہ تینوں پرائز رکھنے یا گرینڈ سلام کا اعزاز رکھتے ہیں اور ڈاکٹر یونس ان میں شامل ہیں ۔ڈاکٹر یونس پر ان سب انعامات اور اعزازات کی بارش گرامین بینک کے قیام کے بعد سے ہوئی ۔ گرامین بنگالی زبان میں دیہاتی کو کہتے ہیں ۔ یوں ہم اسے اردو میں دیہاتی بینک یا زیادہ بہتر الفاظ میں کسان بینک کہہ سکتے ہیں ۔ آخر یہ گرامین بینک تھا کیا ، جس پر پوری دنیا میں ان کی واہ واہ ہوئی ۔ ڈاکٹر یونس نے انتہائی غربت میں پھنسے ہوئے افراد کو قرض دینے کی اسکیم شروع کی ۔ نہیں نہیں ، ایسا نہیں تھا کہ وہ ان کی امداد کررہے تھے بلکہ انہوں نے ان غریب افراد کو انتہائی مہنگی شرح سود پر قرض دیا ۔ یوں سمجھیں کہ یہ ہمارے ہاں کے سود خور پٹھان یا ہندو بنیے کی ایک شکل تھی جو گاؤں گاؤں منظم طریقے سے پھیلا دی گئی ۔میرے ایک دوست تھے سہیل صدیقی ۔ وہ پی آئی اے کے سپلائرز میں سے ایک تھے ۔ انتہائی زیرک اور دانشور ۔ سہیل صدیقی کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص بینک سے قرض لے لیتا ہے تو اس دن سے وہ اپنے لیے نہیں کماتا بلکہ بینک کے لیے کماتا ہے ۔ یوں محمد یونس نے دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں انتہائی غریب دیہاتی افراد کو بینک کے لیے کمانے پر مامور کردیا ۔ مائیکرو کریڈٹ کو پوری دنیا میں غریبوں کے کے لیے موت کے پھندے سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس میں قرض خواہ سے ہفتہ واری وصولی کی جاتی ہے اور سود کی شرح انتہائی بلند ہوتی ہے جو عمومی طور پر 15 فیصد سے 40 فیصد کے درمیان ہوتی ہے ۔یہ ایسا کارنامہ تھا جو دنیا پر قابض بین الاقوامی بینکاروں کے لیے انوکھا تھا کہ کوئی ان افراد سے بھی پیسے نکلوا سکتا ہے جن کے پاس اپنے کھانے کے لیے پیسے نہ ہوں ۔ ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ محمد یونس کی اس کمال فنکاری پر اش اش کر اٹھے ۔ یوں ڈاکٹر محمد یونس کو اچانک سے بین الاقوامی بینکاروں میں پذیرائی حاصل ہوگئی اور ان پر انعامات و اعزازات کی بارش کردی گئی ۔ پوری دنیا میں ان کی image building کی گئی اور انہیں غریبوں کے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا ۔موجودہ صدی کے آغاز سے ہی نہ صرف ڈاکٹر محمد یونس بین الاقوامی بینکاروں کے راڈار پر تھے بلکہ ان کے رابطے میں بھی ۔ اب وہ ان کے چہیتے اور پسندیدہ بن چکے تھے اور ان کے رنگ میں رنگے بھی جاچکے تھے ۔ اس طرح اب وہ ان کی ہدایت کے مطابق اور معاونت سے روز ایک نیا ادارہ بنا رہے تھے، غریبوں کو قرض کے پھندے میں پھنسانے کے لیے بینک میں روز ایک نئی اسکیم متعارف کروا رہے تھے اور ان بین الاقوامی بینکاروں کی جڑیں مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہورہے تھے ۔اب ڈاکٹر یونس کی خواہشات بڑھ رہی تھیں اور وہ بین الاقوامی بینکاروں کی ہدایت کے مطابق حکومت میں بھی دخیل ہونے لگے تھے ۔2006 کے شروع میں انہوں نے ناگورک شکتی کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنانے عزم کا اعلان کیا ۔ ناگورک بنگالی زبان میں شہریوں کو اور شکتی طاقت کو کہتے ہیں ۔ اسے اردو میں ہم عوامی طاقت کا نام دے سکتے ہیں ۔ گو کہ پارٹی کا عزم دیہاتوں میں انتہائی نچلی سطح پر کام کرنا تھا یعنی ہر 20 دیہاتی خاندان پر پارٹی کا ایک یونٹ تجویز کیا گیا تھا مگر یہ ایک طرح کی اشرافیہ کی پارٹی تھی جس کے بانیوں میں ڈاکٹر یونس کے علاوہ سول سوسائٹی کے پروفیسر رحمٰن سبحان ، سابق چیف جسٹس محمد حبیب الرحمٰن ، جیورسٹ کمال حسین ، پروتھوم آلو، اسٹار کے ایڈیٹر مطیع الرحمٰن ، ایڈیٹر محفوظ انعم اور معیشت داں دیبا پریا بھٹا چاریہ شامل تھے ۔ 18 فروری 2007 میں پارٹی کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا اور یوں ڈاکٹر یونس کے سیاسی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ۔ گاہے بگاہے ڈاکٹر یونس نے ملک کے سربراہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا مگر وہ ناکام رہے ۔ 2013 میں بھی ڈاکٹر یونس نے وزیر اعظم بننے کی بھرپور کوشش کی تھی ۔ ڈاکٹر یونس کی یہ سیاسی خواہشات و عزائم حسینہ واجد کو کھٹک رہے تھے ۔ ڈاکٹر یونس کے ایوان وزیر اعظم میں داخلے کا واضح مطلب حسینہ واجد کی رخصتی تھی جو حسینہ کو کسی بھی صورت منظور نہیں تھی ۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ عالم سازش کاروں کا ہر کام انتہائی مربوط ہے ۔ ہر پروجیکٹ کے لیے وہ ایک فوکل پرسن مقرر کرتےہیں جو مذکورہ پروجیکٹ کا ذمہ دار ہوتا ہے جیسا کہ بل گیٹس ویکسینیشن کے لیے یا جارج سوروز دنیا بھر میں ناپسندیدہ مقتدر افراد کی تبدیلی کے لیے ۔ اسی طرح ڈاکٹر یونس سے رابطے اور ان سے کام لینے کے لیے ہلیری کلنٹن کا بطور فوکل پرسن تقرر کیا گیا ۔ جب بھی ڈاکٹر یونس پر کوئی برا وقت آیا ۔ ، ہلیری کلنٹن دامے ، درمے، سخنے ان کی مدد کے لیے موجود تھیں ۔ انہوں نے ڈھاکا کو ہر مرتبہ واضح الفاظ میں پیغام بھیجا کہ وہ ڈاکٹر یونس کے کام میں مداخلت نہ کریں بصورت دیگر نتائج کے لیے تیار رہیں ۔ اس کے لیے انہوں نے بین الاقوامی سازش کاروں کے نیٹ ورک کا بھرپور استعمال کیا ۔ڈاکٹر یونس کے پروفائل کا مختصر جائزہ لینے کے بعد ہم جان گئے ہیں کہ عالمی سازش کاروں کا ڈھاکا میں گھوڑا کون سا ہے ۔ اب معاملات سمجھنے آسان ہوگئے ہیں کہ کس طرح سے بنگلا دیش میں رنگین انقلاب کے لیے بھرپور مالی معاونت فراہم کی گئی ۔گو کہ بنگلا دیش میں رنگین انقلاب کے حوالے سے بہت سارے سوالات کے جواب مل گئے ہیں مگر اب بھی دو اہم سوالات باقی ہیں کہ عالمی سازش کار اس رنگین انقلاب سے چاہتے کیا ہیں اور کیا بنگلا دیش میں آنے والا یہ رنگین انقلاب محض ڈھاکا تک محدود رہے گا یا بہار عرب کی طرح اس کا پھیلاؤ خطہ میں مزید ہوگا ۔ اگر اس کا پھیلاؤ ہوا تو کیا پاکستان بھی اس میں شامل ہوگا ۔ان سوالات کا جواب آئندہ آرٹیکل میں بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔