(تحریر راجہ کامران)
اس وقت ملک میں عمران خان کی قیادت میں اپوزیشن جماعت تحریک انصاف قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے۔ جبکہ ماضی میں دست گریباں رہنے والی سیاسی جماعتوں کی اتحادی وفاقی حکومت اپنے مقررہ وقت پر انتخابات کی بات کررہے ہیں۔ پاکستان کے جمہوری عمل میں انتخابات ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں۔ چاہے وہ حکومتی سطح پر ہوں یا بیشتر کاروباری انجمنوں کے انتخابات کے حوالے سے ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔ اور اکثر عدالتوں میں مقدمات کرتے ہیں۔ ریاستی انتخابات کے علاوہ کاروباری انجمنوں میں انتخابات میں بھی تنازعات ہوتے ہیں۔ اور وہ عدالتوں میں جاتے ہیں سال 2005 سے اب تک وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت ( ایف پی سی سی ) کے تقریبا ہر انتخاب میں یہی ہوتا نظر آیا ہے۔
کراچی پریس کلب کا انتخابی عمل ہفتہ 31 دسمبر کی رات مکمل ہوا۔ مگر اس مرتبہ وہ ہوا جو کہ پریس کلب کے قیام سے اب تک نہ ہوا تھا۔اور اس عمل نے ممبران کراچی پریس کلب کو تشویش وپریشانی میں مبتلائ کردیا ہے۔
کراچی پریس کلب 1958 میں قائم ہوا پہلے اس کی عبوری باڈی بنی جس نے آئین مرتب کرنے کے بعد انتخابات کرائے اور تب سے اب تک ملک میں مارشل لائ ہویا جمہوریت کراچی پریس کلب کے انتخابات ہر سال منعقد ہوئے ہیں۔ یہ ایک روایت ہے کہ پولنگ ہر سال دسمبر کے اخری ہفتے والے دن کی جائے گی۔
مگر سال 2023 کے عہدیداران اور گورننگ باڈی کے انتخابات میں انہونی یہ ہوئی کہ ڈیموکریٹس کا پورا پینل بلا مقابلہ منتخب ہوگیا۔ ڈیموکریٹس گزشتہ 30 سال سے زائد عرصے قائم ہے۔ اور سال 2010 سے تقریبا ہر سال تمام جیتنے والوں کا تعلق اسی گروپ سے ہوتا ہے۔ مگر اس مرتبہ ڈیموکریٹس کے مقابلے میں جمع ہونے والے تمام کاغذات نامزدگی واپس لے لئے گئے اور مقابل کوئی امیدوار بچا ہی نہیں۔ تو پھر پولنگ کا کیسے ہوگا۔ اور یوں پورا کا پورا پینل بلا مقابلہ منتخب قرار پایا۔ مگر یہی بات صحافیوں اور ممبران کراچی پریس کلب کے لئے تشویش کا باعث ہے۔
کراچی پریس کلب میں انتخاب لڑنے کا عمل بھی بہت ہی سادہ سا ہے۔ سابق پروفیسر جامعہ اردو ڈاکٹر توصیف احمد خان کئی دھائیوں سے پریس کلب کی الیکشن کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ پروفیسر صاحب نے ضابطہ اخلاق کے تحت انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد پریس کلب کے احاطے میں کسی قسم کی تقریب کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ صحافیوں کے پاس نہ تو پیسہ ہے اور نہ ہی پریس کلب کے اراکین یہ بات پسند کرتے ہیں کہ انتخابات کے لئے پر تکلف دعوت کی جائے یا پیسہ خرچ کیا جائے۔ اس لئے پریس کلب کے انتخابات میں الیکشن لڑنے والوں کو دفتر دفتر جاکر اپنی مہم چلانی پڑتی ہے۔
مجھے سال 2019 اور 2020 میں بطور ٹریژرار یعنی خارزن کے عہدے پر کراچی پریس کلب کے الیکشن دی ڈیموکریٹس کے پینل سے انتخاب لڑنے اور جیتنے کا موقع ملا ہے۔ انتخابی مہم سادہ مگر تھکادینے والی ہوتی ہے۔ انتخابی مہم میں شہر بھر میں پھیلے ہوئے میڈیا ہاوسز کا دورہ کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ دورہ کم از کم ہر ادارے کا تین مرتبہ کرنا ہوتا ہے۔ یعنی صبح دوپہر اور رات کے اوقات میں تب جاکر 90 فیصد ووٹروں سے ملاقات ہوپانی ہے۔ اور اس ملاقات کے لئے بھی کئی کئی منزلیں سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔
کراچی پریس کلب میں ڈیموکریٹس کے رہنما صبیح الدیں غوثی نے یہ روایت قائم کی کہ اپنے مخالف کی برائی کرنے کے بجائے آپ اپنے کارناموں اور وعدوں پر الیکشن لڑیں گے۔ اور اب یہ پوری الیکشن مہم کا حصہ بن گیا ہے۔ اس عمل سے ممبر کے درمیان باہمی زاتی رنجش بھی نہیں ہوتی ہے۔ اسی لئے الیکشن میں پولنگ والا دن سب سے اہم ہوتا ہے۔
جس دن پولنگ ہوتی ہے اس دن بھی نظارہ نہایت دلچسپ ہوتا ہے۔ میری صحافت کی ساتھی اور دوست سبین آغا میرے مخالف گروپ کی جانب سے انتخاب لڑتی ہیں اور اسی کو سپورٹ کرتی ہیں۔ پولنگ والے دن ہم دونوں پریس کلب کے گیٹ پر اکھٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے پینل کے لئے ووٹ مانگتے ہیں۔ لپک لپک کرآنے والے ووٹر کے پاس پہنچتے ہیں۔ اگر سبین مجھ سے پہلے کسی ووٹر کے پاس پہنچ گئی تو میں مداخلت کے بجائے سبین کی بات ختم ہونے کا انتظام کرونگا، اور اس بات پر سبین بھی عمل کرتی ہے۔ پریس کلب کے گیٹ سے پولنگ بوتھ تک یہی نظارہ ہوتا ہے۔ الگ الگ پینل کے نام اپنے اپنے سینوں پر آوزاں کیئے صحافی ووٹروں سے کونویسنگ کرتے ہیں۔ الگ الگ پینلز کے سپورٹرز ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مدمقابل بھی جب کچھ موقع ملتا ہے تو ایک دوسرے خوش گپیپاں، سلفیاں لینے کے ساتھ ساتھ ایک ساتھ کھانا کھاتے اور چائے پیتے ہیں۔
یہ نظارہ کسی بھی پاکستانی کے لئے حیران کن ہے۔ اسی کارپوریٹ کمیونیکشن سے وابستہ متعدد افراد پولنگ والے دن کراچی پریس کلب آتے ہیں۔ ایک تو ان کی ملاقات ایک ہی جگہ متعدد صحافیوں سے ہوجاتی ہے۔ تو دوسری طرف وہ منفرد انتخابی ماحول دیکھ کر حیران بھی ہوتی ہیں۔ مگر اس بات ایسا نہیں ہوا۔ اور انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد جیتنے والا رہ جانے والے ساتھی کو گلے لگاتا ہے۔ اور جیتنے والا مٹھائی کھلا کر مقابلے پر شکریہ ادا کرتا ہے۔ اور سالانہ عام اجلاس کے بعد دونوں طرف کے حمایتی اور الیکشن لڑنے والے مل کر کھانا کھاتے اور گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
مگر کیا وجہ ہے کہ اس مرتبہ ڈیموکریٹس کے تمام ممبران بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ اس کی وجہ ہے سبکدوش ہونے والے سیکریٹری محمد رضوان بھٹی کا وژن جس نے پریس کلب کو چار چاند لگادیئے ہیں۔ محمد رضوان بھٹی ، اور صدر فاضل جمیلی نے ایک ایسی جوڑی قائم ہوئی جس نے پریس کلب کے دیرینہ رکے ہوئے کام کو پائیہ تکیمل تک پہنچایا۔ جس میں صحافی سوسائٹی ایک حصے پر سرکاری ادارے کے دعوے اور قبضے کے بعد متاثرہ صحافیوں کو ان کی مرضی کے مطابق متبادل جگہ پر پلاٹ دلوانا کے علاوہ متعدد تعمیراتی کام کرنا جس میں کلب کے نئے ایڈمن افس کا قیام، کلب کے ڈائنگ ہال کی تعمیر، نجیب ٹیرس سے ایک منزل اوپر اطہر علی ہاشمی ٹیرس کی تعمیر، کلب میں کانفرنسوں کے لئے 50 افراد اور 200افراد کی گنجائش کے ہالزشامل ہیں۔ اس کے علاوہ پریس کلب میں صحافیوں کو جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارمز یوٹیوب وغیر پر اپنے چینلزبنانے اور چلانے کے لئے ڈیجیٹل اسٹوڈیو، کا قیام، کلب کی شاندار جائے نماز کا قیام شامل ہیں۔
مگر سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ کراچی پریس کلب پاکستان یا شاید دنیا کا پہلا گرین اور ڈیجیٹل پریس کلب ہے۔ کیونکہ سبکدوش ہونے والے سیکریٹری رضوان بھٹی نے ممبران کی سہولت کے لئے ایک ڈیجیٹل ایپ بنوائی ہے جو کہ گوگل پلے اسٹور پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ پریس کلب میں بجلی کے بلوں کو کم کرنے کے لئے سولر پینلز لگانے کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ اب اگر پروگرامات کی بات کی جائے تو شاید اس بلاگ کی وسعت ہی کم پڑجائے۔
پریس کلب کے انتخابات کے بعد حلف برداری کی کوئی تقریب نہیں ہوتی۔ سالانہ عام اجلاس میں نتائج کا اعلان ہوتا ہے۔ اور نئے عہدیداران سابقہ کی جگہ سنبھال لیتے ہیں۔ اسی لئے 31 دسمبر کو ہونے والے سالانہ عام اجلاس میں بلا مقابلہ منتخب ہونے والے سیکریٹری شعیب احمد کا کہنا تھاکہ انہیں خوشی سے زیادہ افسوس ہے۔ کہ کوئی ان کے مقابل نہیں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال پریس کلب کے بطور ایک جمہوری ادارہ اچھی نہیں۔ آئندہ سال کوشش کی جائے گی کہ الیکشن کا اختتام پولنگ پر ہو۔ راشد عزیز جوکہ کامیاب پینل کے رہمنا ہیں ان کا کہنا تھاکہ اگر مجھے پتہ ہوتا ہے کہ پینل بلامقابلہ آرہا ہے تو خود اپنے پینل کے خلاف انتخاب لڑتا۔ اسی طرح سالانہ عام اجلاس میں متعدد صحافیوں نے اس بلامقابلہ الیکشن پر تشویش کا اظہار کیا۔
اب پریس کلب میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ اگر کسی امیداوار کے مقابلے میں کوئی دوسرے مقابلے پر نہیں آتا ہے تو کیا اس امیداوار کے بارے میں ممبران سے ہاں یا نہ کا ووٹ لیاجائے تاکہ بہر حال ووٹنگ کا عمل مکمل کیا جائے۔
بلاشبہ کراچی پریس کلب ایک حقیقی جمہوری ادارہ ہے۔ جہاں ممبران کی رائے کی اہمیت سب سے مقدم ہے۔ اللہ کرے کراچی پریس کلب کی طرح پورے ملک میں اسی طرح جمہوری اقدار پروان چڑھیں۔