(تحریر نذیر لغاری)
تین اور چار اپریل 1979ء کی درمیانی رات کو تاریخ کے ایک ہولناک رات کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ویسے یہ خبرایک روز پہلے ہی ہمارے دوست خان رضوانی ایک روز پہلے ہی بریک کرچکے۔صدیق کھرل کے بتانے سے پہلے ہم نے روزنامہ جنگ نہیں دیکھا تھا۔جنگ کے صفحۂ اول پر ملتان کی ڈیٹ لائن سے خان رضوانی کی بائی لائن سنگل کالمی خبر لگی ہوئی تھی۔جس میں بتایا گیا تھا کہ بھٹو صاحب کو چار اپریل کو پھانسی دے دی جائے گی۔
شفیع محمدی بھٹوصاحب کی زندگی بچانے کی کوششوں میں ناکامی پر بہت دلگرفتہ تھےمگر انہیں باقی سیاسی قیدیوں کو عہدِستم میں کوڑوں اور قید سے بچاناتھا۔اس لئے وہ جلد معمولات کی طرف لوٹ گئے۔وکلاء فوجی عدالتوں کارُخ کرنے سے گریز کرتے تھے مگر شفیع محمدی فوجی عدالتوں میں بیٹھے میجروں اور کرنلوں سے بھڑ جایا کرتے تھے۔انہی دنوں میں اور شفیع محمدی باقاعدگی سے شوکت صدیقی، ابراہیم جلیس، محمود شام ارشاد راؤ اور دیگر صحافی دوستوں سے بھی ملا کرتے تھے۔ایک بار ہم محمود شام صاحب کے بہنوئی کے سوئم میں شرکت کیلئے جہانگیرروڈ کے علاقے میں پہنچے تو شام صاحب نے شفیع محمدی سے پوچھا کہ توہین عدالت کی سزا کتنی ہے ۔اس پر شفیع محمدی نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔تو محمود شام نے کہا کہ میں ذرا مولوی مشتاق کی بھری عدالت میں عملی توہین کرنا چاہتا ہوں۔طریقۂ کار انہوں نے وہی بتایا جو ایک عرصہ بعد عراق میں پریس کانفرنس کے دوران جارج بُش جونیئر کے ساتھ ایک عراقی صحافی نے اختیار کیاتھا۔شفیع محمدی نے کہا کہ عملی کارروائی کی سزا الگ ہوگی۔شام جی ایک شریف النفس آدمی ہیں۔مگر اس زمانے میں عممومی طور پر غصہ کا یہی عالم تھا۔
انہی دنوں ملتان میں ہمارے دوست عمرعلی خان سرائیکی کا متفقہ رسم الخط طے کرنے کی مہم چلارہے تھے اور انہوں نے ملتان میں سرائیکی ادیبوں، دانشوروں اور ماہرین لسانیات کا ایک نمائندہ اجتماع منعقد کرنے کی کوششیں شروع کی ہوئی تھیں۔ادھر اس سلسلے میں شفیع محمدی نے کراچی میں سرائیکی رسم الخط کمیٹی بنائی تھی جس کی حتمی رپورٹ تیار ہوچکی تھی۔اس کمیٹی نے سرائیکی کے پانچ اضافی صوتیاتی حروف کی املا طے کرلی تھی۔اس کمیٹی میں ملک اکبر سینئر(کراچی میں ایک سیکنڈری اسکول کے ہیڈماسٹر)میاں محمدغیاث الدین، مشتاق احمد فریدی، بشیرملک اور یہ احقر شامل تھے۔بعض دوستوں کے نام ذہن سے محو گئے۔تاہم اس کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دینے والی مرکزی کمیٹی میں غلام فرید راجہ ، غلام حیدر جعفری، حافظ ریاض بھٹی، ملک وریام، ملک محمد افضل، حمیداصغر، مولوی فاروق حافظ ذاکر اور دیگرشامل تھے۔
اب شفیع محمدی فوجی عدالتوں، سول کورٹس اور ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ کراچی سنٹرل جیل کا بھی مسقل چکر لگاتے تھے جہاں سینکڑوں سیاسی قیدی اپنی اسیری کے دن گزار رہے تھے۔بعض اوقات میں بھی ان کے ساتھ جیل کا سفر کرتا تھا۔میں نے اور شفیع صاحب نے جیل میں کئی بار رسول بخش پلیجو، کامریڈ زبیررحمن، ڈاکٹرامیراحمداور دیگرقیدیوں سے ملاقاتیں کیں۔ڈاکٹرامیراحمد کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں شوکت صدیقی صاحب بھی ساتھ ہوا کرتے تھے۔اسی عرصے میں ملتان سے عمرعلی خان کا پیغام ملا کہ 18مئی 1979ء کوعام خاص باغ ملتان میں ان کے گھر پر سرائیکی رسم الخط طے کرنے کیلئے اجلاس بلایاگیاہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے دوستوں کو بھی اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیئے۔چنانچہ کراچی میں شفیع محمدی کے گھر ہونے والی میٹنگ میں طے ہوا کہ یہاں سے ایک چار رکنی وفد اس اجلاس میں شرکت کرے۔ان چار ارکان میں شفیع محمدی، میاں غیاث الدین، بشیر ملک اور راقم شامل تھے۔ہم اپنی جامع سفارشات ساتھ لے کر ایک دو روز پہلے ہی چل پڑےتاکہ ہمیں اپنی سفارشات کے بارے میں لابنگ کیلئے بعض بزرگوں سے ملاقات کا موقع مل سکے۔ہم یہاں ایک ساتھ روانہ ہوئے مگر شفیع محمدی سمیت دیگر تینوں حضرات راستے میں اپنے اپنے اسٹیشنوں پر اُترتے گئےجبکہ میں براہ راست ملتان عام خاص باغ پہنچ گیا۔شام کو شفیع محمدی میرے پاس پہنچ گئے اور ہم دونوں ڈاکٹر مہر عبدالحق سے ملنے چلے گئے۔ڈاکٹر صاحب کا اپنا رسم الخط تھا۔ان کا یہ موقف تھا کہ پانچ اضافی حروف کی شناخت کیلئے دائرہ کا استعمال کیا جائے جبکہ ہم دونقطوں اور ن کے اوپرط کی علامت کی سفارشات بنا کر لائے تھے۔ڈاکٹر مہر عبدالحق سے اپنے اسکول کے زمانے کے لگ بھگ پندرہ سال بعد مل رہا تھا۔اس زمانے میں وہ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز تھے اور میں ایک عام سا طالب علم۔میں تو آج بھی کچھ بھی نہیں تھا(اور اب بھی کچھ نہیں ہوں) مگر ڈاکٹر صاحب پی ایچ ڈی کرنے کے علاوہ کئی کتابیں لکھ چکے تھے۔ہم دونوں نے بساط بھر ان سے بحث کی مگر وہ اپنے موقف سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔اگلے روز صبح ہم ناشتہ پر خان رضوانی صاحب سے ملنے چلے گئے۔ہم نے اُن کے سامنے اپنی سفارشات رکھیں تو ان سے ہم دونوں کی دوستی کام آگئی۔انہوں نے نہ صرف ہماری تجویز سے اتفاق کیا بلکہ وہ ہمارے وکیل بھی بن گئے۔رات کو میری ملاقات ظفر لاشاری، مجاہدجتوئی اور عمرعلی خان کے علاوہ ان کے والد مولانا نوراحمدخان فریدی سے بھی ہوئی بلکہ میں ظفرلاشاری اور مجاہد جتوئی نے رات کا قیام بھی عمرعلی خان کےگھر پر ہی گیا اور دوسری باتوں کراچی کی تجویز پر بھی باتیں ہوتی رہیں۔
صبح اجلاس شروع ہواتھا تو مولانا نوراحمدفریدی غائب تھے۔وہ عمرعلی خان کے بارے میں کسی خبر کا سن کر کوئٹہ چلے گئے تھے۔مولانا کے چلے جانے ہم خود کو کمزور سمجھ رہےتھے۔
اجلاس شروع ہوا تو مجھے زیادہ دلچسپی اس بات سے تھی کہ اس میں کون سی شخصیات شریک ہو رہی ہیں۔مولانا نوراحمد فریدی تو چلے گئے تھے مگراب بھی سرائیکی ادب کی بہت قدآور شخصیات اجلاس میں موجود تھیں، تاہم 1942ء میں نواب آف بہاول پور کی جانب سے دیوانِ فرید مرتب کرنے والی کمیٹی کے واحد رکن مولانا نوراحمدفریدی کے چانک کوئٹہ چلے جانے سے مجھے قدرے پریشانی ہورہی تھی کیونکہ میں نے انہیں کراچی تجاویز کی حمایت پر قائل کرلیا تھا۔دیگرنامورشرکاء میں پروفیسرعطامحمددلشاد کلانچوی، ڈاکٹرمہرعبدالحق، سیٹھ عبیدالرحمن، واحدبخش پنڈت، پروفیسرعطامحمدحامی(خیرپورسندھ)خان رضوانی، عمرکمال خان(پی پی پی ملتان) ابنِ قیصرعیدوخان قیصرانی، ممتازاحمدڈاہر، احسن واگھا، ارشد ملتانی، حیدرگردیزی، میاں غیاث الدین ، بشیراحمدملک، ممتاطاہر، شفیع محمدی ، ظفرلاشاری، مجاہدجتوئی اور راقم کے علاوہ بھی دودرجن سے زائد مندوب موجود تھے۔جن کے نام میرے ذہن میں نہیں رہے۔
اجلاس کے آغاز میں شفیع محمدی نے سندھ بھر کی جیلوں کے اسیروں اور خاص طورپر رسول بخش پلیجو کا سلام اور نیک خواہشات اجلاس کے شرکاء تک پہنچائیں اس پر عمرکمال خان ہتھے سے اُکھڑ گئے۔وہ طویل القامت تھے اور ان کا اچھاخاصا ڈیل ڈول تھا۔وہ بلندآواز سے دھاڑتے ہوئے بولے کہ آپ لوگ غداروں کے سلام اور پیغام لے کر سندھ سے آئے ہیں۔آپ کیسے لوگ ہیں، آپ اس خالص ادبی کام میں تعصب پھیلانے کا مشن لے کرآئے ہیں۔اس پر اجلاس کے شرکاء ششدر رہ گئےکہ عمرکمال خان ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اجلاس میں خفیہ ایجنسیوں کے کوئی لوگ موجود ہیں۔تاہم ایسا لگ رہا تھا کہ عمرکمال خان خفیہ اداروں کے لوگوں کوباور کرا رہے تھے کہ ان کا سیاست اور سیاسی لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔تھوڑی سی تلخی کے بعد اجلاس کی کارروائی کے دوران سرائیکی رسم الخط کے بارے میں مختلف تجاویزپیش کی گئیں۔یہ تجاویز مہر عبدالحق، پروفیسر دلشاد کلانچوی، خان رضوانی اور شفیع محمدی نے پیش کیں۔شفیع محمدی کی تجاویز اور دلائل کے بعد خان رضوانی شفیع محمدی کی تجاویز کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ممتازحیدرڈاہر اور ظفرلاشاری نے ان تجاویز کے حق میں بات چیت کی۔کچھ دیر بعد بحث مباحثہ ہوا۔مختلف شخصیات نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔بالآخر شفیع محمدی تجاویز پر اتفاق رائے حاصل ہوگیا۔مہرعبدالحق اپنی تجاویز پر جمے ہوئے تھےمگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ پروفیسر دلشاد کانچوی اور خان رضوانی اپنی اپنی تجویز سے دستبردار ہوگئے ہیں اور سیٹھ عبیدالرحمن نے بھی ان کی تائید کردی ہے تو ان تجاویز پر اتفاقِ رائے ہوگیا۔اوران تجاویز کواختیار کرلیا۔مگر بالکل آخر میں احسن واگھا نے ایک رخنہ پیدا کردیا(جاری ہے)