(سیلانی کے قلم سے)
جی کمان تبدیل ہوگئی کون بھلا کب تک ‘‘جاوید’’ رہتا ہے قمر جاوید باجوہ صاحب کے اختیار کا ‘‘ قمر’’ بھی اک شب ڈھلنا تھا سو ڈھل گیا اب اک عاصم ملکی سرحدوں کا
‘‘ عاصم ’’ یعنی نگہبان ہے دعا ہے کہ عاصم کی نگہبانی ملکی سرحدوں تک ہی رہے ان کی آنیاں جانیاں چھاؤنیوں تک محدود رہیں وہ ‘‘آب پارہ ’’ بھی آئیں جم جم آئیں اور ملک دشمن پیچ و تاب کھائیں
جنرل عاصم منیر کے لئے یہ ذمہ داری اپنے سابقین سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہو گی کہ انہیں ملک دشمنوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے محاذ پر بھی لڑنا ہوگا اور یہ ٹوئیٹر، فیس بک، یوٹیوب سوشل میڈیا ساڑھے چارسو میل لمبی لائن آف کنٹرول نہیں کہ سیز فائر ہو جائے یہ وہ محاذ ہے جو چوبیس گھنٹے گرم رہتا ہے اور دشمن ہاتھ تاپتا بٹیر بھونکتا رہتا ہے
یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف پہلوان کسی قمر کے نہ ہونے کے باوجود ، راولپنڈی کی جانب امداد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے لازما فنا بلند شہری کا کلام گنگنائیں کہ
میرے رشک قمر ۔۔۔ آواز بلند بھی ہوسکتی ہے
آنے والے دنوں میں خوب گرد اڑائی جائے گی دباؤ بڑھانے کے لئے بے توقیر کرنے کی پالیسی وہ ہتھیار ہے جو کسی ایک کے لئے مخصوص نہیں ہے وہ کہا جاتا یے نہ کہ جھانکا کھل گیا تو وہ کھل چکا ہے کمپیوٹر کی بورڈ کے بٹن سب ہی دبا سکتے ہیں فیک آئیڈیز سے کوئی بھی چاند ماری کرسکتا ہے پروپیگنڈہ فلمیں سب بنا سکتے ہیں سب کے پاس صحافت میں اپنے اپنے میاں مٹھو ہیں، ممکن نہیں کہ تنازعات جنم نہ لیں سب و وشتم ہوگی اور بہت ہوگی لیکن یہ سب بعد کی بات ہے سب سے بڑا مسئلہ ملکی معیشت کا ہے قرضوں کا بوجھ اٹھائے نہیں اٹھ رہا ملک نادہندگی کے گڑھے پر پہنچا ہوا ہے اور ہم نالائقی بے حسی تغافل میں بھی بہت پہنچے ہوئے ہیں
دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں ہم کہاں پہنچتے ہیں
لو چراغوں میں بہت کم ہے خدا خیر کرے