(تحریر، مسعود انور)
حصہ دوم یہ بات کم سنگین نہیں ہے کہ پاکستان میں میں پانی کے بحران کی ذمہ دار نہ تو قدرت ہے اور نہ ہی کوئی دشمن طاقت۔ اس کے اصل ذمہ دار ہمارے حکمراں ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اکیلی کلہاڑی کسی لکڑی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ لیکن اگر اس میں لکڑی کا دستہ لگ جائے تو یہ پورے جنگل کو کاٹنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ ہمارے حکمرانوں نے لکڑی کے اسی دستے کا کردار ادا کیا جس کانتیجہ اب قوم بھگت رہی ہے ۔
ملک میں پانی کے ذخائر کو محفوظ رکھنے کی جانب بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ بڑے بڑے ڈیم ملک نہ صرف کسی کام کے نہیں ہیں بلکہ یہ ملک کی معیشت کو گروی رکھنے کے ساتھ زرعی پیداوار میں کمی کا عملی طور پر باعث بنتے ہیں ۔ ایک تو یہ بہت بڑی جگہ گھیرتے ہیں ، جس کی وجہ سے خاصی قابل کاشت زمین ضائع ہوجا تی ہے ۔ دوسرے یہ علاقے کے فطری ماحول میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں اور تیسرے اس سے زیر زمین پانی کی سطح مصنوعی طور پر بلند ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں بھی قابل کاشت زمین متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل بھی جنم لیتے ہیں ۔ اب دنیا بھر مقامی طور پر چھوٹے ڈیم بنائے جاتے ہیں ۔ ایک طرف تو یہ مقامی وسائل سے ہی تعمیر ہوجاتے ہیں اور قرض نہیں لینا پڑتا ، دوسرے اس سے دیگر مسائل بھی جنم نہیں لیتے ۔ بڑے ڈیم صرف پانی کو ذخیرہ کرنے کے ہی کام نہیں آتے بلکہ بجلی بھی پیدا کرتے ہیں ۔ اب پانی سے بجلی پیدا کرنے کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوچکا ہے اور چھوٹے چھوٹے ٹربائن بہتے پانی پر لگائے جاتے ہیں ۔ اس سے بھی وہی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو چھوٹے ڈیموں سے حاصل ہوتے ہیں یعنی بجلی ضائع ہونے سے بچتی ہے ، تقسیم کا بڑا نیٹ ورک نہیں بچھانا پڑتا اور یوں قرض لینے سے بچتے ہیں ، ان کی مینٹی نینس آسان ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے برعکس ہمارے ملک میں کالا باغ ڈیم جیسے پروجیکٹ لے کر انہیں سیاسی بنایا گیا ، لسانی تفریق کا باعث بنایا گیا اور ملک کو مزید تقسیم کی جانب لے جایا گیا ۔
صاف پانی کی کمی کو اب ترقی یافتہ دنیا میں سیوریج کے پانی کو فلٹر کرکے پورا کیا جارہا ہے ۔ یہ فلٹر شدہ پانی کاشت کے لیے بہترین ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں نہ صرف یہ پانی ضائع کیا جاتا ہے بلکہ یہ سمندر کی آلودگی کا بھی باعث بن رہا ہے ۔ ایک طرح سے یہ دو دھاری تلوار کا کام کررہا ہے یعنی قابل کاشت زمین کو آب پاشی کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے تو دوسری جانب یہ ساحل کی آلودگی کے ساتھ ساتھ سمندری وسائل کی تباہی کا بھی باعث بن رہا ہے ۔
پانی کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے لیے ایک اور بڑا گڑھا خود کھود لیا ہے ۔ وہ ہے قابل کاشت زمین کی جگہ کنکریٹ کا جنگل ۔ کراچی سے باہر نکلیں اور صوبہ خیبر پختون خوا تک چلے جائیں ۔ سڑک کی دونوں جانب آپ کو ابھرتی ہوئی ہاوسنگ سوسائٹیاں نظر آئیں گی ۔ اب کھیت اور باغات کو یہ ہاوسنگ سوسائٹیاں نگل رہی ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ پوری دنیا میں شہروں کی حدود ہوتی ہیں جن کے علاوہ پختہ گھر بنانا ممنوع ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی قانون یا تو موجود نہیں ہے اور یا پھر اس کا کہیں پر کوئی نفاذ نہیں ہے۔ہمارے ہاں تو پھلوں کے لیے مختص باغات کی جگہ چک شہزاد پر بھی بااثر افراد نے محلات تعمیر کرلیے ہیں ۔ یہ لینڈ مافیا اتنی طاقتور ہے کہ اس نے کراچی میں نیشنل اسٹیڈیم کی جگہ پر بھی جنرلز کالونی بسا ڈالی ۔
میرے ایک پرانے دوست عارف بٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں صرف لاہور کے ارد گرد دو لاکھ ٹن گندم پیدا کرنے والا زرعی رقبہ رہائشی کالونیوں کا حصہ بن گیا ہے ۔ اب ملک اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ زرعی ایمرجنسی نافذکرنے کا مرحلہ آن پہنچا ہے ۔ ۔ یعنی جہاں جگہ ملے ، کاشتکاری کی جائے ، حتیٰ کہ گھروں کی چھتوں ،گیلریوں اور فلیٹوں کی بالکونیوں میں بھی ۔ ڈیکوریشن کے پودوں کی جگہ سبزی اور پھلوں کے پودوں کو لگانے کی مہم چلائی جائے ۔ یہ سب کچھ کرنے والے ہم اکیلے نہیں ہوں گے بلکہ جاپان پہلے سے یہ سب کچھ کر رہا ہے ۔ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ اب وقت ہے کہ ن لیگ، پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے جھمیلوں سے بلند ہو کر ملکی بقا کی بات کی جائے ۔
مذکورہ بالا معاملات انتہائی سنگین ہیں مگر اس سے بڑھ کر ہم نے اپنے ایک اور ڈیتھ وارنٹ پر خود دستخط کیے ہوئے ہیں ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار کھیے ۔ ہشیار باش ۔