عدلیہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جج انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر نہیں بولا کرتے بلکہ اچھے جج تو عوامی محافل میں جانے سے بھی گریز کرتے ہیں تاکہ انصاف کھل کر کر سکیں۔ججوں کے اس خود ساختہ طرز عمل کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ججوں کی زبان بندی ہوجاتی ہے بلکہ ججوں کی زبان ان کے فیصلوں کے ذریعے بولتی ہے۔گویا جج خود نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں ۔جج بننے کے بعد ججوں کے فیصلے ہی ان کی شہرت کا تعین کرتے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ نے بھی ایسا ہی شاندار عوامی فیصلہ جمعہ کے روز جاری کیا ہے جس نے خیبر پختون خوا کے مہنگائی کے ہاتھوں پسے عوام کو ریلیف فراہم کیا اصل میں تو یہ فیصلہ خود حکومتکو کرنا چاہئے کہ وہ عوام کو ریلیف دے لیکن 10۔اپریل 2022 سے پہلے موجودہ حکومت کے اہلکار جس طرح آئی ایم ایف کو بڑا بھلا کہہ رہے تھے اب اقتدار میں آکر ان کی حالت یہ کہ عوام کے بجائے ان کے نزدیک آئی ایم ایف زیادہ عزیز ہوگیا ہے۔آئی ایم ایف نے یہ شرط عائد کی تھی کہ بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی رقم بھی شامل کی جائے۔اس بارے میں حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ آئی ایم ایف کے حکام کو ملک کے معروضی حالات آئی ایم ایف کے عملے کو بتاتی کہ مہنگائی کے باعث پاکستانی عوام یہ بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ حکومت نے یہ بوجھ عوام کے کاندھوں پر منتقل کردیا۔حکومت نے تو عوام کا احساس نہیں کیا البتہ پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختونخوا کے بجلی صارفین سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وصولی روک دی اور وفاقی حکومت، واپڈا، پیسکو اور نیپرا حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوۓ جواب طلب کر لیا۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس روح الامین اور جسٹس شاہد خان پرمشتمل دورکنی فاضل بینچ نے شاہد قیوم خٹک ایڈوکیٹ کی وساطت سے دائر رٹ کی سماعت کی جس میں فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ خیبر پختون خوا میں ساری بجلی پانی سے بنتی ہے جبکہ سر پلیس بجلی وفاقی حکومت کو دی جاتی ہے تا ہم نیشنل گرڈ میں جانے کے بعد خیبر پختون خوا کے صارفین سے فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کی وصولی بلوں میں جاری ہے جو غیر قانونی ہے۔ واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کا صوبہ کلی طور پر پانی سے بجلی پیدا کرتا ہے جس پر کوئی اضافی رقم نہیں لگتی۔درخواست گزار کا یہ موقف سوفیصد درست تھا کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی یہ رقم صرف ان علاقوں سے بی وصول ہونی چاہیئے جہاں پر بجلی پانی کی بجاۓ پٹرول یا دیگر زرائع سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ درخواست گزار کے مطابق اس حوالے سے خیبر پختون خوا کے بجلی صارفین کی حق تلفی ہورہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر غریب صارفین سے لاکھوں روپے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کئے جارہے ہیں جو غیر قانونی ہے عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسمنٹ کی وصولی روک دی اور اس حوالے سے حکم امتناعی جاری کرتے ہوۓ متعلقہ حکام سے جواب طلب کر لیا۔
عدالت عالیہ پشاور کے اس فیصلے پر خیبر پختونخوا کے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ یہ فیصلہ حقیقی معنوں میں انصاف کے بول بالے کو ثابت کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ عدالت عالیہ پشاور نے صوبے کے عوام کی کمزور معاشی حالت کا ادراک کرتے ہوئے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ عدالتی ریلیف خود حکومت صوبے کے عوام کو فراہم کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ خیبر پختونخواکے عوام کا یہ مطالبہ کہ انہیں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے چارجز سے علیحدہ رکھا جائے کوئی ایسا غیر منطقی مطالبہ نہیں ہے۔ اس مطالبے کے حق میں یہ استدلال پیش ہے کہ جیسے پنجاب جو گندم کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ وہ گندم دوسرے صوبوں کو بھی فراہم کرتا ہے ۔ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی گندم کی پنجاب میں قلت واقع ہوئی تو اس نے دوسرے صوبوں کو گندم کی منتقلی پر پابندی عائد کر دی۔صوبہ پنجاب بڑا بھائی ہونے کے باوجود اپنا یہ حق تواتر کے ساتھ استعمال کرتا رہا ہے۔بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اسی طرح گندم کی قیمت بھی پنجاب میں کم ہے جبکہ دیگر صوبوں میں اس کے دام زیادہ ہیں۔پنجاب کے وسائل پر اس کے تصرف کئے اختیار کا یہ کلیہ اگر گندم پر لاگو کیا جا سکتا ہے تو پھر یہی طرز عمل پن بجلی کی صورت میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی صورت میں خیبرپختونخوا پر کیوں لاگو نہیں کیا جا سکتا؟وفاقی حکومت کو صوبے کے عوام کو بجلی کے بلوں کی مد میں ریلیف دینا ہوگا کیونکہ کہ صوبہ پن بجلی کی جو پیداوار نیشنل گرڈ کو دے رہا ہے وہ اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے اگر صوبے کے عوام سے پیٹرول کی ترسیل کے فی لٹر چارجز وصول کئے جاتے ہیں تو پھر بجلی میں ریلیف دینے کا اس کا حق بنتا ہے۔صوبے کے عوام کو یہ حق دینا حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ آئی ایم ایف کے عملے کو دلیل کے ساتھ قائل کرتی اور خود حکومت عوام کو ریلیف دلاتی ہے لیکن یہ ریلیف عدالت عالیہ نے دلایا جس پر صوبے کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔