وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان سمیت پارٹی کے قائدین کے خلاف مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ان مقدمات کا مقصد یہ ہے کہ تحریک انصاف کو عدالتی شکنجے میں جکڑا جائےاور عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے۔اس اقدام کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف نے بھی جوابی چال چلتے ہوئے جارحانہ انداز اپنا لیا ہے۔اس حکمت عملی کے تحت خیبر پختونخو میں تحریک انصاف کی حکومت پی ڈی ایم رہنماؤں پر ماضی میں دئے گئے بیانات پر بغاوت کے مقدمات درج کرے گی۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لئے مشاورتی عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اس مشاورت میں پارٹی قیادت کے خوش آمدی حلقوں نے تو اس کی خوب تائید کی ہے، لیکن معتدل حلقوں کا موقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو ایسے مقدمات سے گریز کرنا چاہیے جن پر وقت گزر چکا ہے۔ان حلقوں کا استدلال ہے کہ یہ فیصلہ اس لئے خلاف مصلحت ہوگا کہ جب اس طرح کی پریس کانفرنس کی گئی تھیں توانہی دنوں مقدمہ درج کیا جا تا تو ٹھیک تھا۔ تاخیر کے بعد اس کی قانونی طور پر گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ان آراء کے برعکس اگر حالات وواقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ جوابی وار عدالت کی توجہ بھی حاصل نہیں کرپائے گا اور باشعور عوام میں بھی اس کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔موجودہ وقت میں صوبائی حکومت کا اقدام بے موقع شمار ہوگا اور اس کی قانونی و اخلاقی حیثیت بھی ممکنہ طور پر کمزور ہوگی۔ بعض اطلاعات کے مطابق پشاور میں اس طرح کی ایک کوشش پر حکومتی ذمہ دار عہد یداروں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بہر حال اس ضمن میں صوبائی کابینہ نےپی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی قیادت کے ماضی قریب میں ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی ، نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیانات پر مقدمات درج کرانے کا فیصلہ کیااور ان مقدمات کو درج کرنے کے لئے ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنر ڈی آئی خان منیر احمد کوسیکشن 196 کے تحت اور صوبائی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں اختیارات تفویض کئے گئے تھے۔وزیراعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی اطلاعات بیر سٹر محمد علی سیف کے مطابق یہ مقدمات پاکستان پینل کوڈ کے سیکشنز 108A 153A اور 505 کے تحت درج کئے جانے تھے ۔ بیرسٹرمحمدعلی سیف کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنرڈی آئی خان سابقہ وفاقی وزیر ورہنما پی ٹی ائی علی امین گنڈاپور کی یاکسی اور شخص کی شکایت پر مقدمات درج کر یں گے ۔ بیرسٹر سیف نے واضح کیا کہ پی ڈی ایم میں شامل چند جماعتوں کے رہنما جلسے جلوسوں ، پر یس کا نفرنسز اور دیگرکئی مواقعوں پر فوج،عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں ۔ یہ مقدمات ماضی میں ان کی انہی ہرزہ سرائیوں ،نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیانات کی بنا پر درج کئے جائیں گے۔صوبائی کابینہ کو اس معاملے سے دور ہی رہنا چاہیے تھا لیکن اس نے یہ فیصلہ لیا جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماؤں پر مقدمات کے اندراج کا اختیار دینے کا یہ اقدام پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیاگیا ہے۔ ہائیکورٹ میں دائر رٹ میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی ہے، دائر رٹ کے مطابق صوبائی کابینہ نے سی آر پی سی کے سیکشن 196۔کی غلط تشریح کرتے ہوۓ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان کو پی ڈی ایم رہنماؤں پر مقدمے کے اندراج کا اختیار دیا ہے تاہم مذکورہ سیکشن کے تحت جب تحقیقات کے دوران کسی پر الزام ثابت ہوتا ہے تو سی آر پی سی کی سیکشن 196 کے تحت ایف آئی آرکے اندراج کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے۔اس کے باوجود خیبر پختونخوا کابینہ نے غیر قانونی اقدام کی منظوری دیتے ہوئے یہ اختیار ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنر کو دیا ہے ۔ دائر رٹ کے مطابق سیکشن 196 کے آفیسر کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی فرد کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کر سکے۔اس معاملے پر رائے زنی تو نہیں کی جاسکتی کہ یہ معاملہ اب عدالت کے زیر سماعت ہے۔اس حوالے سے عدالت جو بھی فیصلہ کرے یا ہدایت دے تو عدالت ہی کا نقطہ نظر معتبر اور قابل عمل ہوگا۔عدالتی فیصلے سے قطع نظراگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہ صوبے میں خواہ مخواہ ایک نیا تنازعہ کھڑا کر نے کی ایسی کوشش ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔اس بات کا مقصد حکومت کے مقدمہ درج کرانے کے اقدام کی مخالفت نہیں لیکن اس کے لئے وقوعہ کا حال ہی میں ہونا ضروری ہے۔ ماضی قریب میں اگر ان بیانات اور پر یس کا نفرنسز سے صرف نظر برتا گیاتھا تو یہ گویا موقع گنوا دینے کے مترادف تھا اب گڑ ھے مردے اکھاڑ ناسود مندنہیں۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی سود مند نہیں ہوگا کہ اس سے پہلے وزیر اعلی خیبر پختونخوا اپنے قائد عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے ایک فیصلہ کن بیان دے چکے ہیں جس میں انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی رکھےکہا تھا کہ عمران خان ہمارے لئے ریڈ لائن ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ جمہوریت ہے اور جمہوریت میں ہر کوئی اپنی رائے کے اظہار کا پورا حق رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت ہے جس میں عمران خان سمیت دیگر پارٹی قائدین اور صحافیوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ بالکل غلط ، غیر قانونی اور قابل مذمت ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ میں امپورٹڈ حکمرانوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہیں۔ وزیر اعلی محمود خان نے اپنے اور اپنی جماعت کے قائدین کے جذبات کا اظہار کردیا ہے۔ ان حالات میں مرکزی حکومت کو بھی چاہیے کہ تحریک انصاف کے جنونی کارکنوں سمیت ان کی قیادت کے جذبات سے کھیلنے کے بجائے ملک میں اس وقت جو سیلاب کی صورت حال ہے ہے اس سے نمٹ کر بہتر طرز حکمرانی کی ایک ایسی مثال پیش کرے کہ وہ جب عوامی عدالت میں جائے تو عوام کے سامنے خود کو سرخرو ثابت کر سکے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کس جماعت نے دوسرے کے خلاف کتنے مقدمات قائم کئے؟ عوام کو اگر سروکار ہے تو اس بات سے کہ اس کے لئے ریلیف کس نے فراہم کیا؟