چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے ملک میں سیاسی بے یقینی ہے کہ کسی طور کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایک کے بعد دوسرا بحران جنم لے رہا ہے۔ سیاستدان خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ان کا رونا یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ اتحادی جماعتوں کے گھاگ سیاستدان ہوں یا انہیں اتحادیوں کے بقول تحریک انصاف کی ناتجربہ کار ٹیم ہو دونوں کی چار ماہی سوچ اور اپروچ ایک جیسی ہے۔ تحریک انصاف کے خیال میں اس کے ساتھ10۔اپریل کو جو ناانصافی ہوئی ہے وہ اس کی وجہ سے اپنے جارحانہ انداز کو چھوڑنا ہی نہیں چاہ رہی۔دوسری طرف اتحادی جماعتیں جو آپس کے نظریاتی اختلاف کے باوجود اقتدار اور عمران خان کی دشمنی کی وجہ سے متحد ہیں، کی ہر دم یہی کوشش رہی ہے کہ عمران خان کی جارحیت کو نکیل ڈالی جائے۔ حزب اقتدار ہو یاحزب اختلاف دونوں ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں جتے ہوئے ہیں۔ یہ سیاسی ملاکھڑاابتداء میں تو عوام کے لئے کسی حد تک کشش کا باعث رہا، لیکن اب وہ اس یکسانیت سے اکتا گئے ہیں۔ اس اکتاہٹ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران اپنے مسائل تو حل کر چکے ہیں لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں، بلکہ مہنگائی پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ ایسے میں باقی معاملات پر کسی کی توجہ نہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ان مشکلات کاذکر میڈیا بھی نہیں کررہا۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں سیلاب نظام زندگی درہم برہم کر چکا ہے۔ ان آفات سماوی پر حکمرانوں کی توجہ انتہائی کم ہے۔ آفات سماوی پر تو کسی انسان کا اختیار نہیں، اس لئے اس میں بھول چوک یا دیر کی گنجائش مخصوص حالات میں دی جاسکتی ہے لیکن عوام پر ایسی آفت لادنا جس کو وہ اٹھا ہی نہ سکتے ہوں اس پرمجاز حکام کی گرفت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سینٹ کے نام پر عوام کی جو چمڑی ادھیڑی گئی وہ قابل مذمت ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم جو خود کو عوام کے حاکم کی بجا ئے عوام کا خادم کہلوانا پسند کرتے ہیں وہ بجلی کے بلوں میں اس ہوشرباء اضافے سے ہی بے خبر پائے گئے۔ دوسری طرف حالت یہ تھی کہ خیبر سے کراچی تک کے عوام بالعموم اس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بلبلا رہے تھے۔ یوں تو پورے ملک میں اس معاملے پر ہاہاکار مچی ہوئی تھی لیکن خیبرپختونخوا میں اس اضافے پر غریب عوام کے ساتھ ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی بھی ایک زبان ہو کر گرجی۔ خیبر پختونخوامیں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا سرے سے اطلاق ہی نہیں ہوتا۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو خیبر پختون خوااپنی کھپت سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے اور یہ بجلی بلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے جس پر پر بجلی بنانے کا خرچہ صفر ہے۔ اس کے مقابلے میں دیگر صوبوں کی بجلی کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے ماضی کی حکومتوں نے آئی پی پیز کے ساتھ جو شرمناک معاہدے کئے تھے، ان کی وجہ سے بجلی کی قیمت پاکستان میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ان معاہدوں کا فائدہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کو توخوب ہوا لیکن عوام کے لئے یہ سراسر گھاٹے کا منصوبہ ثابت ہوا۔ اس لئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت جن علاقوں میں تھرمل بجلی دی جا رہی ہے وہاں کے عوام پر تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ لاگو کرتی لیکن خیبرپختونخوا میں اس کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ صوبائی اسمبلی نے ایک آواز ہو کر یہی بات کہی کہ اس صوبے سے بجلی کی اس قدر وافر مقدار پیدا کی جاتی ہے کہ صوبے میں پیدا ہونے والی بجلی دیگر صوبوں کو یہاں سے فراہم کی جا رہی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وفاق اس معاملے پر کبھی خیبرپختونخوا کا حق ماننے یا اس کا مقدمہ سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ ملک میں بدترین مہنگائی اور روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے ان بلوں کی جس طرح غریب عوام نے ادائیگی کی۔ وہ صرف وہی غریب لوگ جانتے ہیں جنہوں نے ان بھاری بلوں کو ادا کیا۔مقام شکر ہے کہ عوام کی یہ چیخ و پکار وزیراعظم نے بھی آخر کار سن لی۔ عین ممکن ہے کہ ملک میں جو سیاسی افراتفری اور غیر یقینی کی فضاء استوار ہے اس کی وجہ سے وزیراعظم عوام کی یہ چیخ و پکار نہ سن پائے ہوں۔ بہرحال اب انہوں نے اس بات کا نوٹس لے لیا ہے۔ اس نوٹس لینے پر ویسے عوام کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سابق دور حکومت میں بھی وزیراعظم جس بات کا نوٹس لیتے تو وہی معاملہ عوام کے لئے مشکل بن جاتا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بجلی کے بلوں میں اضافے کا نوٹس لے لیا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟حکومتی جاری کردہ خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی کے زائد بلوں کے حوالے سے عوامی شکایات کا سخت نوٹس لیتے ہوۓ کہا ہے کہ عوام کی شکایات کے ازالے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ وزیراعظم نے بجلی کے بلوں کے حوالے سے شکایات پر طلب کئے گئے ہنگامی اجلاس کی صدارت کی جس میں وفاقی وزیر بجلی خرم دستگیر ، معاون خصوصی احد چیمہ اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی ۔اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے متعلقہ حکام کو بجلی کے بلوں پر فوری تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔اس کے علاوہ اجلاس میں وزیر اعظم نے متعلقہ حکام کو بجلی کے بلوں کے حوالے سے عوامی شکایات پر ترجیحی بنیادوں پرتفصیلی رپورٹ اور سفارشات مرتب کر کے پیش کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں ۔ اس حوالے سے شہباز شریف کاکہنا تھا کہ عوام کی شکایات کے ازالے تک چین سے نہ بیٹھوں گا، خادم پاکستان عوامی مسائل کے حل کیلئے اپنی عوام کو جوابدہ ہے، میں اپنی عوام سے ہمیشہ سچ بولنے کے عہد پر قائم ہوں۔ خبر یہاں ختم ہو جاتی ہے، اب اللہ کرے کہ وزیراعظم نے جو نوٹس لیا ہے اس کے مثبت اثرات سامنے آئیں۔ ساتھ ہی یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ وزیراعظم نے جس طرح اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ عوام کو ریلیف ملنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے تو ان کا یہ عزم بھی پورا ہو اور عوام کو واقعی کچھ ریلیف مل جائے