عقدہ
(تحریر-امتیاز متین)
سفر پاکستان کے یہ حقیقی اور آنکھوں دیکھے واقعات میری والدہ مرحومہ زاہدہ بیگم نے کئی بار مجھے سنائے تھے تاکہ پاکستان کے لیے دی جانے والی قربانیاں یاد رہیں۔ وہ لاکھوں لوگ یاد رہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کی لیکن راستے میں ہی مار دیے گئے۔ یہ کہانی اس طرح لکھنے کی کوشش کی گئی ہے جس طرح امّی نے سنائی تھی۔ پاکستان بننے سے پہلے کیا حالات تھے اور پھر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ 75ویں سالگرہ کے موقع پر ان واقعات کی ایک جھلک اسی طرح بیان کی جا رہی ہے جس طرح مختلف اوقات میں سنائے گئے تھے۔
’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب پنجاب کا شہر کرنال ایک چھوٹا سا اور پرسکون شہر ہوا کرتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ شہر کی آبادی پانچ ہزار ہے۔ ہمارا گھر شہر کے آخری سرے پر تھا اور گھر کے پیچھے کچھ رعیت کے لوگوں کے مکان تھے جن میں سقہ، بڑھئی اور تانگے والا اور ایسے ہی دوسرے پیشوں سے وابستہ لوگوں کے مکان تھے۔ ہمارا اسکول شہر کے دوسرے کونے پر تھا یہ لڑکیوں کا واحد مشنری ہائی اسکول تھا۔ اس اسکول میں بورڈنگ کی سہولت بھی موجود تھی اس لیے یہاں دوسرے شہروں کی لڑکیاں بھی پڑھنے کے لیے آتی تھیں۔ اسی طرح دوسرے شہروں سے آئی ہوئی لیڈی ٹیچرز بھی تھیں۔ ہماری کلاس میں صرف پانچ مسلمان لڑکیاں تھیں کیونکہ ان دنوں وہاں مسلمان لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔ عام طور پر چار پانچ جماعت پڑھ لینا ہی کسی بھی لڑکی کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا۔
مجھے یاد ہے جب میں نے پانچویں جماعت پاس کی تھی تو خاندان کے لوگ ابّا جی کے پاس آنے لگے تھے اور سب کا یہی مطالبہ تھا کہ لڑکی نے پانچ جماعتیں پڑھ لی ہیں لہٰذا اب اسے اسکول سے اٹھا لیا جائے۔ مگر ابا جی (حافظ ناظر حسن انصاری) نے تمام لوگوں کی باتیں سنیں اور ہر بار اپنا یہی فیصلہ سنایا کہ ’’جب میری بیٹی آگے پڑھنا چاہتی ہے تو میں اسے نہیں روکوں گا۔‘‘ خاندان اور پاس پڑوس کے لوگوں کو ابّا جی کے اس رویے سے سخت مایوسی ہوئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ مشنری اسکول میں پڑھنے سے بچیاں عیسائی ہو جائیں گی۔ اسکول میں یوں تو مذہب کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی تھی البتہ اسمبلی میں بائبل سے ایک صفحہ پڑھ کر ضرور سنایا جاتا تھا۔ اسکول کی پرنسپل عیسائی تھیں اور باقی اسٹاف میں ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان ٹیچرز شامل تھیں، یہی حال اسکول کی طالبات کا بھی تھا۔ سخت ڈسپلن کا ماحول تھا اور اس زمانے کے ماحول کے مطابق اسکول میں مسلمان لڑکیوں کے لیے پردے کا سخت اہتمام کیا گیا تھا۔
ہمارے گھر سے اسکول کا فاصلہ تقریباً چار کلو میٹر سے زیادہ ہی رہا ہوگا اور جب تک ابا جی نے تانگہ نہیں خریدا تھا ہم پیدل ہی اسکول جایا کرتے تھے۔ البتہ ایک لڑکا گھر میں ملازم رکھ لیا تھا جو ہمارے بستے اٹھا کر چلتا تھا اور دوپہر کو اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد ہمارے بستے اٹھا کر لایا کرتا تھا۔ اس طویل فاصلے میں ہندوئوں اور سکھوں کے محلے بھی آتے تھے اور سر سبز کھیت بھی، لیکن اتنے برسوں میں کبھی کسی نے ہمیں اسکول آتے جاتے کسی نے کبھی کوئی بد تمیزی نہ کی بلکہ کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ ہمارا گھر لیاقت علی خان کی حویلی سے زیادہ دور نہیں تھا۔ عید، تہوار اور محرم کے موقع پر شہر کے معزز لوگوں کو حویلی میں مدعو جاتا تھا۔ ہم نے کئی بار ان کی حویلی کی چھت سے دس محرم کے جلوسوں کا نظارہ کیا ہے جو ان کی حویلی کے بالکل سامنے سے گزرا کرتے تھے۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں ابا جی ہمیں گنگوہ لے جاتے جہاں قاضی کے محلے میں ہمارا آبائی مکان تھا، یہ ہاتھی دروازے کے اندر ایک بہت بڑا کمپائونڈ تھا جس میں چار بڑے بڑے قدیم مکان بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے ہی ایک مکان ہمارا تھا۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ یہ کمپائونڈ 1857ء کی جنگ آزادی تک بہت آباد تھا، قاضی شہر گنگوہ کی رہائش اور عدالت یہیں لگا کرتی تھی اور غربا کے لیے ہر روز لنگر جاری رہتا تھا لیکن 1857ء کے بعد یہ سب کچھ اجڑ گیا اور جو لوگ باقی بچے تھے انہوں نے اپنی جائدادیں بنیوں کے پاس گروی رکھ رکھ شان و شوکت برقرار رکھی لیکن کچھ ہی عرصے میں نوابی جاتی رہی۔ ابا جی ان تمام حالات سے واقف تھے اور شروع ہی سخت محنت کرنے کے عادی تھے، شاید تعمیرات سے دلچسپی رہی ہوگی اسی وجہ سے ایک سرکاری محکمے میں نقشے بنانے اور تعمیرات کی نگرانی کرنے کی ملازمت مل گئی تھی … اسی دوران وہ بنیوں کے قرضے ادا کرکے اپنی کچھ آبائی زمینیں واگزار کروانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ ان دنوں میں اور اپنی چھوٹی پھوپھی رابعہ کے ساتھ مل کر گنگوہ کے اس بڑے مکان میں لڑکیوں کا اسکول کھولنے کے منصوبے بنایا کرتی تھی جو بڈھے ابا کے انتقال کے بعد سے بالکل خالی پڑا تھا۔ پھوپھی رابعہ نے رواج کے مطابق گھر کی تعلیم حاصل کی تھی اس لیے وہ کہا کرتیں ’’اے زاہدہ، تم لڑکیوں کو انگریزی اور حساب پڑھا دیا کرنا۔ میں اردو اور اسلامیات پڑھا دوں گی۔‘‘
اس زمانے کے لوگوں کی سادگی کا بھی عجب ہی عالم تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار ہم اپنے تانگے کے ذریعے کرنال سے گنگوہ جاتے ہوئے راستے میں رات گزارنے کے لیے کنج پورہ میں رکے تو گائوں کے لوگ ملنے کے لیے آنے لگے۔ جس مکان میں ہم ٹھہرے تھے اس کے زنان خانے مٰیں گائوں کی عورتیں ہم سے ملنے کے لیے آ گئیں۔ وہ سب غور سے ہمیں اور ہمارے کپڑوں، چیزوں۔ شکل و صورت اور بات چیت کے انداز کو دیکھ رہی تھیں۔ اتنے میں ایک عورت نے مجھ سے سوال کیا ’’را ۔۔۔ تھارے میں ماں کون تو بیٹی کون؟‘‘ مجھے شرارت سوجھی تو میں نے اسے کہا ’’میں ماں ہوں اور (اماں جی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ میری بیٹی ہے۔‘‘ اماں جی اس سوال جواب سے بے خبر دوسری عورتوں سے باتوں میں مصروف تھیں۔ وہ ایک لمبی چوڑی خاتون تھیں اور میں اس وقت ایک چودہ پندرہ سال کی پتلی دبلی لڑکی تھی اور کوئی بھی دیکھ کر پہچان سکتا تھا کہ ہم دونوں میں ماں کون ہے اور بیٹی کون ہے۔ میرا جواب سن کر سوال پوچھنے والی عورت شک بھی نہیں کیا کہ میں نے اس سے مذاق میں غلط جواب دیا ہے ۔ وہاں بیٹھی ہوئی دوسری عورتیں بھی میرا جواب سن کر کچھ پریشان ہوگئیں اور آپس میں کہنے لگیں ’’لاگے تو یو بیٹی ہے، پر یہ کہے ہے کہ یہ ماں ہے۔‘‘ کچھ دیر تک اس مخمصے میں پڑے رہنے کے بعد گائوں کی ان عورتوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ شہر میں شاید ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ انتے میں اماں جی کو معلوم ہو گیا کہ میں نے رشتوں میں کیا رد و بدل کر دیا ہے تو انہوں نے مجھے ہلکا سا ڈٓانٹتے ہوئے کہا ’’انہیں کیوں پریشان کر رہی ہو۔‘‘
مجھے یاد ہے کہ جب عید پر ایک بہت بوڑھی اور بزرگ خاتون آکر اماں جی (ام ہانی) کو ایک پیسہ عیدی دیتیں تو وہ خوشی سے اپنے سر پر رکھ لیتیں اور کہتیں کہ ’’کوئی تو میرا بزرگ ہے جو مجھے عیدی دیتا ہے۔‘‘ چونکہ اماں جی اور ابا جی آپس میں فرسٹ کزنز تھے اس لیے دونوں ہی کے بزرگ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ اس وقت وہ بوڑھی خاتون ابا جی کو دعا دیتے ہوئے کہتیں کہ ’’اللہ تمھاری تنخواہ ایک سو روپے کر دے۔‘‘ جس پر ابا جی جواب دیتے ’’کہاں خالہ، میری تنخواہ سو روپے کہاں ہوگی۔‘‘
ابا جی بہت اچھے شکاری بھی تھے اس لیے ہمارے گھر میں بازار کا گوشت بہت کم آیا کرتا تھا بلکہ عام طور پر ہرن، مرغابیاں، مور، نیل گائے، تیتر اور ایسے ہی دوسرے جانوروں اور پرندوں کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ بعض اوقات ہرن اور مور کے گوشت سے اتنی اکتاہٹ ہو جاتی تھی کہ ہم اپنے گھر کا سالن گھر کے پیچھے رہنے والے سقے یا بڑھئی کے گھر بھجوا کر ان کے گھر میں پکی ہوئی سبزی بھی لے لیا کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ابا جی مصاحبی میں رہا کرتے تھے اور شکار پر بھی ان کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں وہاں ان جانوروں اور پرندوں کی بہتات تھی، کبھی ہم صبح صبح ابا جی کے ساتھ تانگے پر سیر کرنے کے لیے جاتے تو وہاں قلانچیں بھرتے ہوئے ہرنوں کی ڈاریں نظر آ جاتی تھیں۔
1946ء میں میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر اسی اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کر لی۔ چونکہ میں سب سے کم عمر تھی اس وجہ سے ٹیچرز کی لاڈلی بھی بن گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی اور ہر طرف پاکستان بننے اور انگریزوں کے ہندوستان چھوڑ کر جانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ عام خیال یہی تھا کہ پورا پنجاب پاکستان میں شامل ہوگا۔ اس وجہ سے مشرقی پنجاب کے مسلمان اطمینان سے تھے ان کے علاقے پاکستان میں شامل ہو جائیں گے۔اخبارات میں حالات خراب ہونے کی خبریں آتی رہتی تھیں لیکن کرنال حالات کی خرابی کا کوئی شائبہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی لوگوں کی آپس میں کوئی دشمنیاں تھیں۔
ہمارے اسکول کے اوقات چونکہ طویل تھے اس لیے دوپہر کا کھانا ہم وہیں کھاتے تھے۔ یہ مئی 1947ء کی ایک گرم دوپہر میں ایسا ہوا کہ میری کلاس دیر تک تھی اس لیے میں نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ اسٹاف روم میں پہنچ کر میں نے صورتحال دیکھی اور خاموشی سے بیٹھ گئی۔ اتنے میں ہماری ایک سکھ ٹیچر (جو بے انتہا خوبصورت تھیں) نے پوچھا ’’اے زاہدہ، تو نے کھانا کھایا۔‘‘ انکار میں جواب سن کر دوسری مسلمان ٹیچر سے پوچھا ’’تم نے بچی کے لیے کھانا نہیں بچایا!‘‘ پھر دوسری ٹیچرز سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ کچھ دال اور سبزی تو موجود ہے لیکن روٹی کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس بات پر وہ دوسری ٹیچرز پر ناراض ہوئیں اور پھر خود روٹیاں پکانے کے لیے باورچی خانے میں چلی گئیں۔ میں نے انہیں منع بھی کیا لیکن وہ نہ مانیں۔ مئی کی بھری دوپہر اور پنجاب کی آگ برساتی دھوپ میں انہوں نے چولھے میں لکڑیاں ڈال کر توا روٹیاں ڈالنے کے لیے رکھ دیا۔ اس وقت دھوپ کا رخ ایسا تھا جو باورچی خانے میں پوری ان پر تھا لیکن اس تپتی دوپہر کی دھوپ میں انہوں نے روٹیاں پکائیں اور پھر اپنے ہاتھ سے نوالے بنا بنا کر مجھے اس طرح کھلائے جیسے میں کوئی چھوٹی سی بچی ہوں۔
کچھ دن بعد اسکول کی چھٹیاں ہو گئی اور چند دن بعد ہی پاکستان بننے کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ بائونڈری کمیشن نے اعلان کیا کہ پنجاب کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پنجاب میں فسادات شروع ہو گئے۔ فسادات کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے تمام لائسنس یافتہ اسلحہ اپنے مال خانے میں جمع کر لیا۔ جس کی وجہ سے ابا جی کی بندوقیں بھی سرکاری مال خانے میں جمع ہو گئیں۔ اسلحہ چھن جانے کے بعد ابا جی زیادہ فکر مند ہو گئے اور ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر باقی محلے والے بھی پریشان ہوگئے جو یہ کہا کرتے تھے ’’حافظ جی آپ کے ہوتے ہوئے ہمیں کوئی خوف نہیں ہے۔‘‘ ہمارا گھر بالکل شروع میں تھا اور باہر سے آنے والے حملہ آوروں کو پہلے ہمارے گھر کے سامنے سے گزرنا پڑتا۔
حالات بگڑتے چلے گئے اور پھر ایسا وقت آیا کہ کوئی بھی مسلمان شہر سے باہر نکل کر اسٹیشن یا کسی دوسرے شہر کی طرف جانے کی کوشش کرتا تو اس کی لاش ملنے کی ہی خبر آتی۔ جب تک ہم وہاں رہے کرنال میں ویسی تباہی نہیں ہوئی جیسی پنجاب کے دوسرے شہروں لدھیانہ، جالندھر اور امرتسر وغیرہ میں ہوئی تھی۔
ان دنوں لوگ کہتے تھے کہ ’’یہ سب بُو علی شاہ قلندر کے مزار کی بدولت ہوا ہے۔‘‘ اس زمانے میں یہ باتیں پھیل رہی تھیں کہ ہندو اور سکھ بلوائیوں نے جب بھی کرنال پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہر بار انہیں سبز پوش مسلح پہرے دار کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ انہیں دیکھ کر مارے خوف کے دور ہی سے واپس پلٹ جاتے ہیں۔ قلندر صاحب کی کرامات کی باتیں ابا جی کے لیے کچھ زیادہ اطمینان بخش نہ تھیں۔ وہ خود کو محصور اور مجبور سمجھ رہے تھے۔ ویسے بھی ان کے مزار پر اختلاف ہے کہ بُو علی شاہ قلندر کا ایک مزار کرنال میں اور دوسرا پانی پت میں ہے۔ 14 اگست سے پنجاب میں جو آگ اور خون کا کھیل شروع ہوا تھا وہ انہیں بہت زیادہ پریشان کر رہا تھا۔ ابا جی سب سے زیادہ فکر میری تھی کیونکہ سکھ بلوائی، مردوں اور لڑکوں کو قتل کر رہے تھے اور لڑکیوں اور عورتوں کو اغوا کرکے ساتھ لے جا رہے تھے۔
گھر میں سب ہی پریشان تھے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوگا؟ ان دنوں کرنال سے باہر نکلنے کی جتنے مسلمانوں نے کوشش کی وہ سب مارے گئے تھے اور خدشہ یہ تھا کہ بلوائی کسی بھی دن مسلمان محلوں پر چڑھ دوڑیں گے۔ اسی پریشانی میں میں نے گھر میں رکھی ہوئی وظائف کی ایک پرانی کتاب کھولی اور اس سورۃ الاخلاص کا ایک وظیفہ دیکھا جو اس وقت ہمارے لیے پڑھنا آسان تھا۔ میں نے اور میری چھوٹی بہن عابدہ قاضی نے آٹھ آٹھ رکعت نماز دو سلام سے پڑھی جس میں ہر رکعت میں سورۃ الاخلاص پچاس بار پڑھنا تھی۔ ہم نے خاموشی سے وہ نماز پڑھی اور صرف یہ دعا کی کہ ’’اے اللہ ہمیں ایک ہفتے کے اندر حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچا دے۔‘‘
ابھی یہ نماز پڑھے ایک دن ہی بیچ میں گزرا تھا کہ بڑے بھائی زاہد حسن فجر کی نماز پڑھ کر جب مسجد سے گھر واپس لوٹے تو وہ یہ خبر لائے کہ ابا جی کے دوست کیپٹن حشمت سات فوجی ٹرک لائے ہیں تاکہ یہاں سے مسلمانوں کو بچا کر نکال لے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ابا جی کو بتایا کہ کیپٹن حشمت نے انہیں سلام کہلوایا ہے اور کہا ہے کہ فوراً آکر ملیں۔
تھوڑا دن چڑھا تو ابا جی گھر سے چلے گئے۔ واپس آکر انہوں نے اماں جی کو بتایا کہ کیپٹن حشمت نے ان کی صورت دیکھتے ہی کہا ’’حافظ جی! ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو جائو۔‘‘ ہمارے پاس تیاری کرنے کے لیے وقت کم تھا اور سامان رکھنے کے لیے جگہ بھی کم تھی۔ ہم چھ بہن بھائیوں اور اماں جی اور ابا جی کے کپڑے جن میں گرم کپڑے بھی شامل تھے دو بکسوں میں سما دیے گئے تھے۔ ایک ناشتہ دان اور چند برتن، ایک سلائی مشین اور ریڈیو ہمارے سامان میں شامل تھے۔ ہم نے لحاف ادھیڑ کر ساری روئی نکال دی اور لحافوں کے غلاف چند تکیوں کے ساتھ باندھ لیے تھے۔ گھر میں موجود سارا زیور اور روپیہ اماں جی نے اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم گھر سے نکل رہے تھے تو اماں جی کو اپنے پاندان کی فکر تھی اور اسی میں انہیں چند لمحوں کی تاخیر ہو گئی۔ ابا جی کو عام طور پر اتنا غصہ کبھی نہیں آتا تھا جتنا اس دن آیا … انہوں نے اماں جی کو ایک لفظ نہیں کہا بس ان کے ہاتھ سے پاندان لیا اور صحن میں پھینک دیا۔ پاندان کی ساری چیزیں صحن میں دور تک بکھر گئیں اور اماں جی کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ہم نے اپنے گھر کو ایسے تالا لگایا جیسے کسی کی تقریب میں تھوڑی دیر کے لیے شرکت کرنے جا رہے ہوں۔
مجھے یاد نہیں کہ ابا جی کب اس مکان میں آئے تھے، شاید شادی سے پہلے ہی انہوں نے یہ مکان کرائے پر لے لیا تھا جب وہ ملازمت کے سلسلے میں گنگوہ سے کرنال آئے تھے۔ گھر میں ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔ جب کرنال میں بجلی آئی تو ابا جی دہلی سے بجلی کا پنکھا لے کر آنے والے ابتدائی لوگوں میں شامل تھے۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو کچھ ہی عرصے بعد ہمارے گھر میں ریڈیو بھی آگیا تھا۔ اس کا اینٹینا بنانے کے لیے صحن میں ایک اونچا بانس لگایا گیا تھا جس کے تار دائیں بائیں پھیلائے گئے تھے۔ ریڈیو لانے کی وجہ یہ تھی کہ جرمنی کی خبریں سنی جا سکیں۔ اس زمانے میں جرمنی کی خبریں سننا قابل تعزیر جرم تھا اس وجہ سے محلے کے لوگ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد چوری چھپے خبریں سننے آیا کرتے تھے۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ ابا جی کے دوست پہلے پڑوسیوں کے گھر جاتے اور چھتوں چھتوں ہوتے ہوئے سیڑھی سے ہمارے گھر میں اتر آتے اور خاموشی سے پچھلے کمرے میں چلے جاتے جو دوسرے کمروں سے گھرا ہوا تھا اور وہاں بھی ریڈیو کو چادر سے ڈھانک کر بہت ہلکی آواز میں جرمنی کی خبریں سنی جاتی تھیں تاکہ ریڈیو کی روشنی بھی باہر نہ نکلے۔ خبریں سننے کے بعد تمام حضرات جس طرح آتے تھے اسی طرح ایک ایک کر کے خاموشی سے نکل جاتے تھے۔
ہم جس ٹرک میں سوار ہوئے اس میں کیپٹن حشمت کے گھر والے اور ہم لوگ تھے۔ آگے ڈرائیور کے ساتھ ابا جی اور کیپٹن حشمت بیٹھے تھے اور ہر ٹرک پر فوج کے دو تین سپاہی تھے جن کے پاس ایک ایک رائفل تھی۔ یہ اللہ کی ہی حفاظت تھی یا فوج کا رعب تھا کہ ہم ہر جگہ سے بحفاظت گزرتے چلے گئے۔ جب ہم کسی ایسی جگہ پہنچتے جہاں میدان میں سکھوں کے جتھے جمع ہوتے تو ہم اپنی سفید چادروں کے گھونگھٹ لمبے کر لیتے اور اماں جی آہستگی سے کہتیں ’’مٹی پھینکو … مٹی پھینکو۔‘‘ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ پڑھی ہوئی مٹی ہے … اور اس مٹی پر وہی دعا پڑھ کر پھونکی گئی ہے جو غزوۂ بدر میں حضرت محمد ﷺ نے مٹھی میں مٹی اٹھا کر پڑھ کر پھونکی تھی اور کفار کے لشکر کی جانب پھینک دی تھی اور اللہ کی قدرت سے اس وقت کفار کے لشکر میں شامل ہر فرد کی آنکھوں میں مٹی جا پڑی تھی۔
ہمارا کنوائے کرنال سے نکل کر تھانیسر، انبالہ، لدھیانہ ، جالندھر اور امرتسر سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا تھا۔ جب ہم انبالہ پہنچے تو سڑک کے دونوں طرف تباہی و بربادی کے مناظر تھے۔ سڑک کے دونوں طرف جلی ہوئی عمارتیں تھیں اور کچھ عمارتوں میں سے تو اس وقت بھی ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ ہر طرف ویرانی اور وحشت تھی۔ ہم دعائیں پڑھتے ہوئے ان سڑکوں سے گزر گئے۔ راستے میں ہم لاشیں اور لٹے ہوئے قافلے دیکھتے ہوئے ہی آئے تھے۔ انبالہ سے تھوڑا آگے نکلے تو دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے کچھ عورتیں اور لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہیں ان کے قریب کچھ سکھ ننگی کرپانیں لیے ہوئے ٹہل رہی ہیں۔ صاف لگ رہا تھا کہ یہ لڑکیاں اغوا کر لی گئی ہیں لیکن ہم رک کر انہیں بچا نہیں سکتے تھے کیونکہ ہم نے یہ بھی سنا تھا کہ سکھ عورتوں کو بھی سڑکوں کے کنارے بٹھاتے ہیں اور اگر کوئی انہیں بچانے کے لیے رکتا ہے تو جھاڑیوں میں چھپے ہوئے سکھ ان پر حملہ کرکے قتل و غارت گری اور لوٹ مار کرتے ہیں اور اس قافلے کی عورتوں کو اغوا کر لیتے ہیں۔
ایسے ہی دلخراش مناظر دیکھتے ہوئے جب جالندھر پہنچے تو شام ہو چکی تھی۔ جالندھر میں بھی تباہی کے وہی مناظر تھے جو ہم انبالہ اور لدھیانہ میں دیکھ آئے تھے۔ جالندھر سے باہر نکل کر دریائے بیاس عبور کرنا تھا جس کے پار ایک مہاجر کیمپ بنایا گیا تھا۔ اس مہاجر کیمپ میں ہمیں رات بسر کرنی تھی اور پھر پاکستان کی جانب آگے بڑھنا تھا۔ جب ہم دریائے بیاس پر پہنچے تو سورج غروب ہو رہا تھا اور آسمان پر سرخی چھائی ہوئی تھی اور دریا پر پڑنے والی روشنی ایسے لگ رہی تھی کہ پل کے نیچے آگ کا دریا بہہ رہا ہے۔ اسی دریا میں ہمیں کچھ لاشیں بھی بہتی ہوئی نظر آئیں جنہیں کسی نے قتل کرکے پھینک دیا تھا۔ دریا کے اِس طرف سکھوں کے جتھے کھڑے تھے اور اسی جگہ پر قافلے لوٹے جاتے تھے۔ ہمارے کنوائے کے پانچ ٹرک خیریت سے گزر گئے اور ہمارے پیچھے آنے والے کنوائے کے آخری ٹرک کو سکھوں نے پل پر چڑھنے سے پہلے روک لیا۔ ہم نے ابا جی کو بتایا کہ ہمارے پیچھے آنے والا ٹرک روک لیا گیا ہے۔ انہوں نے وہیں ٹرک روک دیا۔ ابا جی اور کیپٹن حشمت ٹرک سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے پیچھے رکے ہوئے ٹرک کی طرف چلے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ یہ دو غیر مسلح مسلمان مرد سیکڑوں مسلح سکھوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے تھے اور ان کے کچھ آدمیوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر تک بحث چلتی رہی اور پھر یہ دونوں آخری ٹرک پر سوار ہوئے ہمارے ٹرک تک آئے اور پھر سے ہمارے ساتھ ٹرک میں سوار ہو گئے۔ ابا جی نے ہمیں بتایا کہ ان لوگوں کو شک تھا کہ ہم پاکستان اسلحہ لے کر جا رہے ہیں اور وہ یہی اسلحہ چھین لینا چاہتے تھے لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے بلکہ یہ مسلمان ہیں جنہیں یہاں سے بچا کر نکال لے جانا چاہتے ہیں۔
دریائے ستلج بیاس کے پار مہاجر کیمپ تھا جس کے چاروں طرف فوج کا پہرا تھا۔ ہم لوگ وہاں جاکر ٹرکوں سے اترے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ رات کا کھانا کھایا اور کچھ آرام کیا۔ یہ 26 ستمبر کی رات تھی اور ان دنوں پنجاب میں ستمبر کے مہینے میں اچھی خاصی سردی ہو جایا کرتی تھی۔ رات کو خوب پالا (ٹھنڈ) پڑا۔
اگلے دن ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے کیمپ سے نکل کر امرتسر کی طرف جا رہے تھے کہ ایک ٹرک خراب ہو گیا اس لیے ہمارا کنوائے ایک ایسی جگہ رک گیا۔ جہاں موجود سارے مکان جلا دیے گئے تھے۔ یہ یقیناً مسلمانوں کی بستی رہی ہوگی جو اس حال کو پہنچی تھی۔ یہ ہماری بیوقوفی تھی یا کچھ اور کہ ہم لوگ اپنے ٹرکوں سے اتر آئے اور اتر کر ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ وہیں ہم نے دیکھا کہ ایک چولھے میں جلے ہوئے قرآن پڑے ہوئے جن کے ادھ جلے ورقے ادھر ادھر اڑ رہے ہیں۔ ہم وہاں قرآن کے جلے ہوئے صفحے چننے لگے۔ اس مقام سے کچھ فاصلے پر ریلوے لائن بھی تھی جہاں دہلی سے لاہور جانے والی مسلمانوں کی ٹرین اور لاہور سے دہلی جانے والی ہندوئوں اور سکھوں کی ٹرینیں بھی کھڑی تھیں۔ شاید اس وقت بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان دونوں ٹرینوں کے ایک دوسرے سے ایسے کراس کروایا جائے کہ کوئی فساد نہ ہو۔ دونوں ٹرینوں پر مسافر شہد کی مکھیوں کی طرح چڑھے ہوئے تھے۔ کسی کو پائوں رکھنے کی جگہ بھی مل گئی تھی تو وہ ٹرین پر سوار ہو گیا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ دونوں ٹرینیں آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوئیں اور ایک دوسرے کو کراس کرنے لگیں۔ اسی دوران لاہور سے دہلی جانے والے کچھ سکھوں کی کرپانیں چمکیں اور دوسری لاہور کی طرف جانے والی ٹرین کے کچھ مسافر زخمی ہو کر نیچے گر پڑے۔
اسی اثنا میں ابا جی اور کیپٹن حشمت بھی آگئے اور ہمیں ٹرکوں سے اتر میدان میں ٹہلتا ہوا دیکھ کر سخت خفا ہوئے۔ ابا جی نے اماں جی سے کہا ’’حالات تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ابھی یہاں کوئی بڑا فساد ہو سکتا تھا اور تم لوگ آرام سے گھوم رہے ہو۔‘‘ ہم نے خاموشی سے ابا جی کی ڈانٹ سنی اور ٹرک میں بیٹھ کر آگے چل پڑے۔ ابھی کچھ آگے ہی چلے تھے تو دیکھ ایک سڑک کے دونوں جانے ایک بڑا میدان ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلح سکھ جمع ہیں۔ اماں جی نے پھر آہستہ سے کہا ’’مٹی پھینکو، مٹی پھینکو‘‘ ہم نے اپنی چادریں نیچی کر لیں اور دعائیں پڑھتے رہے کنوائے آگے بڑھتا رہا۔ مجھے یاد ہے حد نگاہ تک سکھوں کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلواریں تھیں … اور ہاتھ ہوا میں بلند تھے، لیکن جیسے کسی غیبی قوت نے ان کے ہاتھ روک لیے تھے۔ ورنہ چند سپاہی ان ہزاروں لوگوں کا کیا مقابلہ کرتے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے پیچھے آنے والا ایک قافلہ اسی مقام کر کاٹ دیا گیا۔
ہمارا کنوائے جب امرتسر میں داخل ہوا تو شام ہو چکی تھی۔ انبالہ اور لدھیانہ اور جالندھر کی طرح یہاں بھی ویسی ہی تباہی اور ویرانی تھی۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک جوان سکھ عورت گود میں چھوٹا سا بچہ اٹھائے سڑک پر دوڑتی ہوئی آتی ہے اور ٹرک کو رکنے کا اشارہ کرتی ہے۔ مجھے ابا جی کی آواز آئی ’’کوئی مسلمان عورت معلوم ہوتی ہے۔‘‘ تھوڑا آگے جاکر ہمارا ٹرک رکا اور آگے سے ابا جی اور کیپٹن حشمت اترے اور تیزی سے دوڑتے ہوئے اس عورت کے پاس گئے اور اسے دونوں اسے بازوئوں سے پکڑ کر اٹھایا اور بھاگتے ہوئے ٹرک تک آئے اور اس عورت کو ٹرک میں پھینکا اور جلدی سے ٹرک میں سوار ہوکر آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں پیچھے سے کوئی آدمی زور دار آواز چیخا ’’ہالٹ …‘‘۔ پھر ایک فائر کی آواز آئی لیکن ہمارا ٹرک اس وقت تک آگے بڑھ گیا تھا۔
اس عورت نے ٹرک میں بیٹھ کر سب سے پہلے اپنے سکھوں کے کڑے اور دوسرے زیور اتار کر پھینکے۔ اس نے بتایا کہ ’’میں ایک بہت بڑے مسلمان گھرانے سے ہوں۔ میری آٹھ دیورانیاں، جٹھانیاں تھیں اور ساس نندیں وغیرہ تھیں۔ ہمارا گھر چونکہ بڑا تھا اس لیے دوسرے قریبی رشتہ دار بھی ہمارے گھر میں ہی آگئے تھے۔ پھر ایک دن سکھوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اور ہمارے سامنے گھر کے سارے مرد اور لڑکے مار دیے گئے۔ بس جن عورتوں کی گود میں بچے تھے وہی باقی بچے تھے بعض نے وہ بھی مار دیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ گھر کی باقی لڑکیوں کا کیا بنا، وہ کہاں گئیں۔ مجھے بھی ایک سکھ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ آج میں یہ سوچ کر گھر سے نکلی تھی کہ اگر آج مجھے کسی نے اپنے ساتھ نہ لیا تو کسی ٹرک کے نیچے آکر اپنی جان دے دوں گی۔ مجھ سے یہ ذلت کی زندگی برداشت نہیں ہوتی۔‘‘ وہ کافی دیر تک اپنی داستانِ الم سناتی رہی اور روتی رہی۔ امرتسر سے نکل کر ہم جلد ہی پاکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے اور ہمارا کنوائے والٹن کیمپ میں جا ٹھہرا۔
ابا جی ہمیں ٹرک میں بیٹھا رہنے کا کہہ کر کہیں چلے گئے اور راستے سے اٹھائی جانے والی عورت کو کیمپ میں ایسی عورتوں کے ساتھ بھیج دیا گیا جن کے عزیز رشتہ دار مارے گئے تھے اور اب ان کا کوئی باقی نہیں بچا تھا۔ ابھی ہمیں ٹرک میں بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کچھ لوگ آئے اور ہمیں روٹیاں اور کھانا دے گئے۔ چھوٹے بہن بھائی بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے۔ اس لیے ہم نے وہ کھانا لے کر کھانا شروع کر دیا۔ اتنے میں ابا جی آگئے جن کے ہاتھ میں بہت سا کھانا اور پھل تھے۔ وہ ہمیں کھاتا ہوا دیکھ کر پھر اماں جی پر خفا ہوئے ’’ابھی میں مرا نہیں ہوں جو تم لوگ یہ خیرات کا کھانا کھانے لگے ہو … واپس کرو یہ کھانا۔‘‘ وہ کھانا واپس کیا گیا اور پھر ہم لوگوں نے ابا جی کا لایا ہوا کھانا پیٹ بھر کر کھایا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ ہم گنگا رام ہسپتال میں ڈاکٹروں کے لیے بنائے گئے گھر میں قیام کریں گے لہٰذا ہم وہاں جا اترے۔
وہاں جا کر رہتے ہوئے ابھی ہمیں دو تین دن ہی ہوئے تھے کہ کیپٹن حشمت کی ماں کے تیور ہم سے بدلنے لگے۔ انہیں یہ لگ رہا تھا کہ جیسے ہم ان کے سر پر پڑے ہیں حالانکہ ان پر ہمارا کوئی خرچہ نہیں تھا بلکہ ابا جی اپنی عادت کے مطابق کھانے پینے کی ہر چیز وافر مقدار میں لے آئے تھے۔ البتہ ہم عارضی طور پر ایک کمرے میں رہ رہے تھے۔ وہیں پہنچ کر ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کیپٹن حشمت کی ماں اپنے گھر کی جھاڑوئیں تک بھی کرنال سے ساتھ لے کر آئی تھیں۔
پھر ایک دن میں نے دیکھا کہ کیپٹن حشمت اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے ہیں ’’اماں … یہ لوگ یہاں سے چلے جائیں گے، اس وقت پریشانی میں ہیں جو یہ ہمارے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں…، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ ہمارے مہمان بنے ہیں … ورنہ ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ کبھی ہمارے ہاں آکر ٹھہریں گے۔‘‘
گنگا رام ہسپتال میں قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک کمرے میں پلاسٹر آف پیرس کے بنے ہوئے انسانی اعضا رکھے ہوئے ہیں اور پورا انسانی جسم اس طرح بنایا گیا ہے کہ آپ اسے الگ الگ کرکے ہر عضو کے بارے میں پڑھا سکتے ہیں۔ پھر ایک دن کچھ بلوائی ہسپتال کے اس کمرے میں گھس گئے اور وہاں رکھے ہوئے تمام پلاسٹر آف پیرس کے میڈیکل مجسمے ’’بت، بت‘‘ کہہ کر باہر پھینک دیے۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر افسوس کرتی رہ گئی کہ کتنے جاہل لوگ ہیں جو اتنی قیمتی اور کارآمد چیزوں کو اس طرح برباد کر دیا۔
ابا جی کچھ دن تک مختلف سرکاری دفاتر کے چکر لگاتے رہے۔ پھر ایک دن انہوں نے اماں جی کو بتایا کہ ’’لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ لائل پور چلے جائیں، وہاں بہت بڑے بڑے بنگلے خالی پڑے ہیں، جو چاہیں پسند کر لیں … آپ تو حقدار ہیں، یہاں تو ایسے لوگ بھی ایسی ایسی چیزیں لے رہے ہیں جیسی ان کے آباء و اجداد کے پاس کبھی تھیں بھی نہیں…‘‘ ابا جی نے کہا کہ ’’میں نے انکار کر دیا ہے … میں کسی ہندو کی چھوڑی ہوئی جائداد پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا … میں اپنی محنت سے دوبارہ وہ چیزیں حاصل کر لوں گا۔‘‘ کچھ دن لاہور میں رہنے کے بعد انہیں کراچی زیادہ بہتر جگہ لگی اور پھر ہم سب لوگ کراچی چلے آئے اور ابا جی بہت کم عرصے میں اپنی محنت سے کافی کچھ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ جائداد کے کلیم میں کچھ زرعی زمینیں بھی مل گئیں۔ ابا جی کی زندگی نے زیادہ وفا نہ کی ورنہ وہ اپنے حسن تدبیر سے جائداد کو مزید وسعت دیتے۔
پاکستان آنے سے پہلے میرے لاہور کے کالج میں داخلے کے فارم منگوا لیے گئے تھے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد حالات ہی بدل گئے تھے۔ کراچی آکر گورنمنٹ پرائمری اسکول میں ٹیچر کی ملازمت تو فوراّ مل گئی تھی. پہلی پوسٹنگ مارواڑی لائنز کے گرلز اسکول میں ملی تھی۔ مارواڑی ٹیچرز ایسے تیار ہو کر آتی تھیں جیسے کسی کی شادی میں آئی ہوں۔ انہیں بچیوں کو پڑھانے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ٹیچرز اسکول کا زیادہ تر وقت اپنے چائے، ناشتے اور باتوں میں گزر جاتا تھا۔ مشرقی پنجاب اور یوپی کے ٹیچرز چونکہ بہت ڈسپلن کے ماحول سے آئے تھے، اس لیے وہ خود کو اس ماحول میں اجنبی محسوس کر رہے تھے۔ ہم نے تو پرنسپل کی چائے پر گپ شپ والی روزانہ کی میٹنگز میں بھی جانا چھوڑ دیا تھا۔ جس پر یہ کہا گیا تھا کہ پنجابی ٹیچرز نے اپنا الگ گروپ بنا لیا ہے۔‘‘
ان حالات سے گزر کر آنے والوں کے سامنے جب کوئی ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہتا کہ پاکستان کے غلط بنا تھا یا اگر ہماری بات نہ مانی گئی تو پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ یا پھر کہا جاتا ہے کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے بھوکے ننگے لوگوں کو ہم نے پناہ دی تھی۔ تو ان لوگوں کی ڈھٹائی پر حیرت ہوتی ہے کہ یہ باتیں بھی ایسے لوگ کرتے ہیں جو پاکستان کو مفت کا مال سمجھ کر لوٹتے رہے ہیں۔ آزادی کی قدر وہی لوگ بہتر جان سکتے ہیں جو آگ اور خون کے دریا عبور کرکے پاکستان آئے تھے۔