تحریر: اخلاق احمد
عمر میں ، پاکستان مجھ سے صرف دس سال بڑا ہے !
آپ کہیں گے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ ملک کی عمر کا موازنہ انسان کی عمر سے کون کرتا ہے؟
خیر ، یہ جو 75 سال کا پاکستان ہے ، اس کے ساتھ اپنے تعلق کو میں نوعمری میں ایک مدت تک اسی طرح کا تعلق سمجھتا رہا، جیسے ایک ہی گھر کی دو منزلوں پر رہنے والے کرایہ دار اور مالک مکان کا تعلق ہوتا ہے ۔ اوپر نیچے رہنے کے باوجود صرف کرایہ دینے اور کبھی کبھار سامنا ہو جانے پر سلام دعا کر لینے کا بہت رسمی ریلیشن شپ ۔ الگ کچن ، الگ طرز رہائش ، الگ زندگی۔
پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ درمیان میں کچھ ایسا ضرور ہے جو ابھی مجھے نظر نہیں آ رہا ۔ اس روز میں نے امی رحمت آرا خانم کو بے حد اداس دیکھا ۔ اور زندگی میں پہلی بار اپنے بابا شمیم نعمانی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ۔ وہ رو نہیں رہے تھے ۔ اپنے سرکاری کوارٹر میں بستر پر بیٹھے سامنے دیوار کو دیکھ رہے تھے ، دیکھے جا رہے تھے ۔ آنسو ان کی آنکھوں کی دہلیز پر تھے ، بہہ نکلنے کے لئے تیار ، مگر شاید بابا نے اپنی قوت ارادی کے ذریعے انہیں روک رکھا تھا ۔ وہ ایک ہار جانے والے آدمی کی طرح تھے ۔ مایوس، شکستہ، اور دل گرفتہ۔
اس دن پاکستان، جو مجھ سے صرف دس سال بڑا تھا، یعنی محض چوبیس سال کا تھا ، اپنی زندگی کے سب سے بڑے سانحے سے گزرا تھا ۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہو گئے تھے !!
اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے ، عمر کی ان گزر جانے والی دہائیوں میں پاکستان کے ساتھ میرا تعلق کچھ عجیب و غریب سا رہا ہے۔ اس بات کو سمجھانا بھی مجھے ذرا مشکل لگتا ہے۔ ایک ایسے دور میں ، جب حب الوطنی اور وطن دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا اختیار حکومتوں اور اداروں اور سیاسی بازیگروں سمیت ہر ایک کے پاس آ گیا ہو ، یہ سمجھنا اور سمجھانا دشوار ہوتا ہے کہ محبت اور تعلق ، دو علیٰحدہ علیٰحدہ اصطلاحات ہیں۔ ان کے معانی بھی مختلف ہیں۔ جب کوئی کہتا ہے (اور ہر دو چار مہینے بعد کوئی نہ کوئی احمق ضرور کہتا ہے) کہ فلاں شخص محب وطن نہیں ہے، تو مجھے یہ محبت نامی لفظ کی توہین لگتی ہے۔ایک دن کسی دفتری کام سے مختلف اخبارات کے صحافیوں کو کٹھمنڈو، نیپال جانا پڑا ۔ یہ 30 برس پرانی بات ہے ۔ اکتوبر 1992 کی بات ۔ ان دنوں پی آئی اے کی جو فلائٹ کراچی سے نیپال جاتی تھی ، وہ واپسی میں بنگلہ دیش سے ہوتی ہوئی واپس کراچی آتی تھی ۔ تو جب ہم ہفتہ بھر بعد واپس روانہ ہوئے، ہماری فلائٹ پہلے ڈھاکہ ائیرپورٹ پر جا اتری جہاں دو گھنٹے تک ٹرانزٹ مسافروں کی طرح ہمیں ائیرپورٹ کے اندر ہی رہنا تھا اور پھر کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا۔
جہاز کا دروازہ کھلا اور لوگ سیڑھی کے ذریعے نیچے اترنے لگے تو کسی بے چینی نے میرے دل کو اپنے حصار میں لے لیا۔ وہ دن قیصر محمود ، شہزاد چغتائی اور مجھ سمیت بہت سے صحافیوں کے لئے ایک مشکل ، تکلیف دہ دن تھا ۔ اس سرزمین پر قدم رکھنے کا خیال ، جو بیس اکیس سال پہلے پاکستان کہلاتی تھی مگر اب پاکستان نہ تھی، بدن میں اضطراب پیدا کرتا تھا ۔
ہم ایک گیلے رن وے پر اترے جہاں شاید کچھ دیر پہلے ہی بارش ہو چکی تھی ۔ دور، رن وے کے چاروں طرف سبز پیڑوں کے جھنڈ نظر آ رہے تھے اور خوش گوار ہوا چل رہی تھی ۔ اس دن مجھے اپنے پرانے کوارٹر کی وہ دیوار یاد آئی جسے بابا دیکھے جا رہے تھے ۔ وہ آنسو یاد آئے جنہیں بابا نے بہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور پہلی بار سمجھ میں آیا کہ وطن سے تعلق دراصل کیا ہوتا ہے۔
میں تو مغربی پاکستان میں ہی پیدا ہوا تھا اور صرف چودہ برس کا تھا جب پاکستان دو لخت ہوا ۔ امی بابا تو مکمل پاکستان کا خواب لے کر ، ٹرین کا صعوبتوں بھرا سفر کرنے کے بعد اپنے وطن تک بمشکل زندہ پہنچے تھے ۔ ان کا تعلق تو مجھ سے کہیں بڑا ، کہیں گہرا ، کہیں طاقت ور تھا۔
(