تحریر:غزالہ فصیح
ایک نئی دُنیا کے خواب آنکھوں میں بسائے ،بھارت سے لاکھوں مسلمان 14 اگست 1947 کو پاکستان آنے کے لئے نکلے۔(1951کی ایک مردم شماری کے مطابق بھارت سے 7,226,000مسلمان پاکستان گئے)۔انہوں نے اپنے گھر بار،عزیز رشتے دار پیچھے چھوڑ دئیے اور آزاد وطن کو گلے لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک نظرئیے کے لئے ہجرت کے اس سفر میں انہیں تکلیفیں بھی اُٹھانا پڑیں اور آزادی کے ثمرات بھی حاصل ہوئے ۔
پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے پچھتر سال ہوگئے ہیں،اسے تشکیل پاتے ہوئے دیکھنے والی نسل اب رخصت ہو رہی ہے ۔ پچھترویں یومِ آزادی پر ہم نے چند ایسی شخصیات سے گفتگو کی جو قیام پاکستان کے تاریخی واقعات کی چشم دید گواہ ہیں:
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا۔
عُزیر عشیر میڈیا بزنس پروفیشنل ہیں ،معروف پاکستانی اور انٹرنیشنل اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔عُزیر عشیر کے والد محمد عشیر،ڈان اخبار کےپہلے نیوز ایڈیٹر تھے ۔عُزیر بتاتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے وقت انکی عمر پانچ سال تھی،تاہم اپنی عمر کے بچوں کی نسبت اُن کا حافظہ خاصا تیز تھا اور انھیں اُس دور کے تمام واقعات آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔
عُزیر عشیر نے بتایا کہ اُن کا خاندان 14اگست سے پہلے 5مئی کو ہی پاکستان پہنچ گیا تھا۔انہوں نے کہا” دراصل میرے والد لکھنوٴ میں "دی پائنئر”اخبار کے نیوز ایڈیٹر تھے ،قیام ِ پاکستان جب یقینی ہوگیا تو ‘پائنیر’ کے ایڈیٹر ڈیسمینڈ ینگ نے والد صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان جانا چاہیں گے،والد صاحب کا جواب اثبات میں تھا ۔تب ڈیسمنڈ ینگ نے انھیں بتایا کہ ڈان کا پاکستان سے اجرا ہورہا ہے،انھیں اسٹاف کی ضرورت ہے _اگر آپ چاہیں تو ڈان میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام شروع کرسکتے ہیں۔والد نے یہ پیشکش قبول کرلی۔اس لئے ہم پاکستان بننے سے پہلے یہاں پہنچ گئے اور والد صاحب نے مئی 1947میں قائد اعظم کی ایما پر شائع ہونے والے پاکستان کے پہلے روزنامے میں ادارتی زمہ داری سنبھال لی۔اس سے پہلے دہلی میں واقع ڈان کے دفاتر کو ہنگامہ آرائی کے دوران آگ لگا دی گئی تھی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا انھیں یاد ہے،پاکستان بننے سے پہلے لکھنوٴ میں کیا ماحول تھا۔عزیر صاحب نے بتایا کہ چوہدری خلیق الزماں انکے دادا کے فرسٹ کزن تھے ۔اس خاندان کا فرد ہونے کی حیثیت میں انھوں نے اپنے اردگرد سیاسی سرگرمیاں دیکھیں،انھیں اگرچہ زیادہ سمجھ نہیں تھی لیکن انکے چچا،تایا جلسے جلوسوں میں جاتے تھے۔
عزیر عشیر کو لکھنوٴ میں اپنے آبائی گھر کے تمام درودیوار اور نقش ونگار یادہیں۔وہ بتاتے ہیں’ہم لکھنوٴ میں نذر باغ کے علاقے میں رہتے تھے ،یہ پرانی طرز کا بالکونیوں پر مشتمل دو منزلہ بڑا گھر تھا۔گھر کے نزدیک ایک وسیع وعریض پارک تھا ۔چوہدری خلیق الزمان کا گھر ٹاہلی باغ کے علاقے میں تھا ،اُن کا گھر بہت بڑا تھا ،جس میں ہمیشہ لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا ۔
پاکستان پہنچنے کے واقعات یاد کرتے ہوئے عزیر صاحب نے بتایا کہ ہم چونکہ فسادات شروع ہونے سے پہلے نکل آئے تھے تو بڑے سکون سے ٹرین میں لاہور پہنچ گئے۔ہم اتوار کو لکھنوٴ سے نکلے تھے ،پیر کی صبح لاہور پہنچے ۔یہاں نواب آف بھوپال کا بنگلہ 19کچہری روڈ پر تھا ،وہاں ہمارے قیام کا بندوبست تھا،اس زمانے میں وکٹوریہ(گھوڑا گاڑی) چلتی تھی تو ہم اس میں بیٹھ کر آئے ۔والد صاحب نے اپنی موٹر سائیکل ٹرین میں بک کروالی تھی،اسے گھوڑا گاڑی کے ساتھ باندھ لیا۔یہ ایریل برانڈ کی ہلکی پھلکی سی ملٹری اسٹائل موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی۔اپنے اسباب کے ساتھ ہم نے (والدین ،میری بہن اور بھائی) چند دن نواب صاحب کے بنگلے میں قیام کیا پھر کراچی چلے آئے۔
کیماڑی پر اردشیرکاوس جی کی بہت بڑی بلڈنگ تھی،میولز مینشن ،یہ عمارت1917میں بنی تھی۔ڈان اخبار نے اسے اپنے اسٹاف کو ٹہرانے کے لئے ریکوزیشن پر حاصل کر لیاتھا۔بلڈنگ کے مختلف کمروں میں پارٹیشن کرکے فلیٹ بنا دئیے گئے۔ہمارا خاندان بھی ایک فلیٹ میں بس گیا۔ایک فلیٹ کا کرایہ 56 روپے تھا ۔اس عمارت میں جرنلسٹس کی زیادہ تعداد کے رہنے کی وجہ سے لوگ اسے نیوز مینشن کہنے لگے۔
اگست 1947کے کراچی کا ذکر کرتے ہوئے عزیر صاحب بتاتے ہیں کہ ہم مینشن میں اپنے گھر کی چھت سے ہجرت کے مناظر دیکھتے تھے ۔سامنے کیماڑی برج تھا جس پر اونٹ گاڑیوں کی لائن لگی ہوتی تھی ،ہندو،سکھ یہاں سے کوچ کررہے تھے ۔کراچی کے اس علاقے سے نہایت پُرامن ہجرت ہوئی ۔یہاں کسی فساد یا کسی ایک گاڑی پر حملے کا نہیں سُنا گیا۔ان دنوں کراچی میں شام کو دوگھنٹے کا کرفیو بھی لگایا جاتا تھا یہ کراچی کے کچھ علاقوں میں ہنگامے کی وجہ سے احتیاطاً لگایا جاتا تھا۔
عزیر صاحب بتا رہے تھے کہ نئے ملک،نئے شہر میں آکر زندگی بہت جلد معمول پر آگئی۔اُس زمانے کا کراچی نہایت دل موہ لینے والا تھا۔یہ شہر صاف ستھرا اور بہت منظم تھا۔محمد علی ٹرام وے کمپنی کی ٹرامز ہر دو گھنٹے بعد کیماڑی آتی تھیں جبکہ انکی بسیں ہر گھنٹے بعد آتی تھیں۔کشادہ بسیں ،خاکی رنگ کی وردی میں ڈرائیور اور کنڈکٹر جو تہذیب سے بات کرتے تھے ۔بسوں میں ٹکٹ لازمی دئیے جاتے تھے ،یہ ٹائم پر پہنچتی تھیں اور حد سے زیادہ تیز رفتار نہیں تھیں۔بچے بوڑھے سب آرام سے سفر کرتے تھے ۔ہم اسکول ہمیشہ بس میں جاتے رہے۔ہماری والدہ گھر میں گاڑی آنے کے بعد بھی شاپنگ وغیرہ کے لئے ایمپریس مارکیٹ بس میں ہی جاتی تھیں۔شہر میں گھوڑا گاڑیاں چلتی تھیں،جانوروں کا فضلہ بھی گرتا تھا مگر روزانہ صبح چار بجے سے سات بجے تک اور شام کو تین سے چھ بجے صفائی ہوتی تھی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہوں نے مہاجر کیمپس دیکھے،عزیر عشیر نے بتایا کہ ہمارے کئی رشتہ دار پاکستان بننے کے بعد آئے،زیادہ تر بحری یا ہوائی جہاز سے آئے،میرا ننھیال اور دودھیال دونوں خوشحال تھے۔والدہ حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتی تھیں وہ معروف شاعر امیر مینائی کی نواسی کی بیٹی تھیں ،کراچی میں آنے کے بعد کئی رشتے داروں نے کچھ دن کیمپ میں بھی قیام کیا۔اُن دنوں کلفٹن کی پچھلی سائڈ پر اے۔کے اسکول میں کیمپ لگے ہوئے تھے ۔چوہدری خلیق الزمان کے بڑے بیٹے بھی کچھ دن یہاں رہے پھر لاڑکانہ شفٹ ہوگئے تھے ۔
بھارت سے آنے والے کئی مہاجرین کے لئےنیوز مینشن بھی ابتدائی طور پر رہنے کا ٹھکانہ تھا ۔مجھے یاد ہے مینشن کے کمرے بہت بڑے تھے، تقریبا تیس بائی بیس فٹ طویل و عریض تھے۔ لوگ ان میں لکڑی کی پارٹیشن رکھ کر دو سے تین کمرے بنا لیتے تھے اور اپنے عزیز رشتہ داروں یا دیگر مہاجروں کو ٹہرالیتےتھے۔نیوز مینشن کی طرح لوگوں کے دل بھی کشادہ تھے۔مجھے یاد ہے کہ مینشن کے برآمدے میں اس وقت پندرہ سولہ بستر لگے ہوتے تھے۔کمروں کی چھتیں 24 فٹ اونچی تھیں،سامنے کیماڑی کا ساحل،اتنی ہوائیں آتی تھیں کہ پنکھوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔صفائی ستھرائی کی وجہ سے مچھر بھی نظر نہیں آتے تھے۔
تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں سے کبھی ملاقات ہوئی۔اس سوال کے جواب میں عزیر صاحب نے کہا کہ بچپن میں اس کا موقع نہیں ملا،البتہ والدصاحب کئی میٹنگز یا اسمبلی اجلاس کے دوران قائد اعظم ، لیاقت علی خان اور دیگر رہنمائوں سے ملتے تھے ۔ہم نے اپنے بڑوں کو ان شخصیات کی عظمت کے گُن گاتے سُنا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے بزرگوں کی ہجرت کی کوئی تلخ یادیں ہیں،عزیر صاحب نے کہا کہ ہمیں پاکستان آکر سُکھ ملا،ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ آزادی سب سے بڑی نعمت ہے،مسلمانوں کا اپناایک علیہدہ وطن،یہ ایک ایسا سہانا خواب تھا جس کے لئے ہمارے بزرگوں نے بھارت میں اپنی جائدادیں ،مال ومتاع سب تج دئیے۔آج بھارت میں ہم اقلیتوں کا جو حال دیکھتے ہیں تو آزادی کابنیادی نظریہ بہت اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ۔میرا اکثر بیرون ملک جانا ہوتا ہے ،وہاں موجود بھارتی خود اپنے ملک کے متعلق افسوس کرتے ہیں کہ وہاں اقلییتوں سے کتنا برا سلوک ہورہا ہے ،آپ کو ایک ناقابل یقین واقعہ سناتاہوں، پاکستان نے جب بھارتی طیارہ گرایا اور ابھی نندن کو گرفتار کیا تو اسکے کچھ عرصے بعد میں چین گیا۔وہاں مال میں ایک انڈین کپل سے ملاقات ہوئی،باتوں باتوں میں ابھی نندن کاذکر نکلا تو یقین کریں انڈین آدمی نے مجھے گرمجوشی سے گلے لگاتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے بہت کمال کام کیا۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی،سماجی و اقتصادی صورتحال پر رائے دیتے ہوئے عزیر عشیر نے کہا یہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔بدقسمتی یہ ہوئی کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خاں جیسے رہنما ہمارے درمیان زیادہ عرصہ نہ رہے۔لوگوں میں لالچ آگیا،اخلاقی اقدار گِریں،چوری چکاری سے مال بنانے لگے تو ملک کا حال خراب ہوگیا ۔پہلے لوگوں میں وضعداری تھی ،میرے والد سمیت بہت سے لوگوں نے انڈیا میں اپنی جائداد کے کلیم تک نہیں لئے تھے ۔
عزیر عشیر پاکستان کی موجودہ صورتحال سے پریشان ہوتے ہیں مگر مایوس نہیں۔وہ کہتے ہیں پاکستان کے نوجوانوں میں شعور آگیا ہے ،وہ بے ایمانی ،چوری چکاری کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں،یہ جذبہ حالات بدل دے گا۔عزیر کہتے ہیں انہوں نے مواقع ملنے کے باوجود کبھی پاکستان چھوڑنے کا نہیں سوچا۔67میں وہ اسکالرشپ پر لندن کے اخبار کارڈف میں کام کرتے رہے ،بعد میں اسی ادارے نے ایک نئے اخبار کے لئے انہیں آفر کی کہ ابو ظہبی ،دوہا یا سنگاپور کا آفس سنبھال لیں لیکن انہوں نے یہ پیشکش اس لئے قبول نہیں کی کہ وہ پاکستان سے باہر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔#
نعیمہ سلطان، سینٹ جوزف کالج کراچی میں پچیس سال تک اکنامکس کی پروفیسر اور گیارہ سال اپوا کالج کی پرنسپل رہی ہیں۔قیامِ پاکستان کے وقت آپ کی عمر چوبیس سال تھی ۔نعیمہ صاحبہ کم گو ہیں مگر پچھتر سال پہلے کی یادیں اُن کے ذہن میں خوب تازہ ہیں،وہ دھیمے لہجے میں ٹہر ٹہر کر ہمیں بتاتی رہیں کہ پاکستان بننے کے وقت وہ دہلی چاندنی چوک کے علاقے دریا گنج میں میں رہتی تھیں۔نعیمہ صاحبہ نے بتایا "ہمارے والد مکرم الٰہی قریشی جج تھے اورمیانوالی پنجاب میں پوسٹنگ تھی،والد کاشمار اُن ججوں میں ہوتا تھا جنہیں سزائے موت سنانے کا اختیار تھا۔مجھے یاد ہے والد کو جب کبھی ایسا فیصلہ سنانا ہوتا تو وہ رات بھر عبادت کرتے اور دعا مانگتے تھے کہ فیصلہ درست ہو۔ہم تین بہنیں اور دو بھائی تھے ۔ہم بہنوں کو پڑھائی کا جنون تھا۔ہم دو بہنوں نےمیٹرک کے بعد دہلی کالج میں داخلہ لینے کا سوچا،پھوپھی دہلی میں رہتی تھیں ،انہوں نے کہا میرے پاس رہنا۔والد صاحب ہمیں خود سے دور نہیں بھیجنا چاہتے تھے مگر ہم نے بھوک ہڑتال کردی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ہم نے دہلی کالج میں داخلہ لے لیا۔بڑی بہن کے ساتھ میں گھوڑا گاڑی پر کالج جاتی تھی۔کچھ عرصے بعد میرے والدین کا انتقال ہوگیا تھا۔قیام پاکستان کے وقت ہم اپنے ماموں کے ہاں تھے۔میرے ماموں عبدالرحمن بجنوری کابل کے قونصل جنرل تھے ،وہ شاعر اور ادیب بھی تھے۔میری بڑی بہن کی شادی ماموں کے بیٹے سے ہوئی تھی،مجھے یاد ہے ماموں اپنے بیٹے کی بارات ہاتھی پر لے کر آئے تھے ۔ننھیال کی طرح میرا دودھیال بھی خوشحال تھا۔ہمارے تایا کے بچے کلبز میں جاتے تھے لیکن ہمارے والد نے تربیت کے معاملے میں سختی رکھی تھی۔
پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو ہمارے علاقے میں حالات خراب ہوگئے،فسادات شروع ہوگئے تھے ۔ انھی دنوں میں ہماری پھوپی کی شادی طے تھی،وہ اس حال میں کی گئی کہ مہمانوں کی تواضع کے لئیے کچھ دستیاب نہیں تھا ،ایک ٹھیلے والے سے صرف کیلے مل سکے تو وہی کھلائے گئے۔انہی دنوں ہمارے ماموں ایک روز گھر آتے ہی کہنے لگے کہ ہمیں پاکستان جانا ہے،سامان سمیٹ لیں۔ہم نے جلدی جلدی میں بس ضروری چیزیں رکھ لیں باقی سب یہ سوچ کر چھوڑ دیا کہ حالات صحیح ہوتے ہی واپس آجائیں گے۔دہلی سے ہم بائی ائر کراچی آئے۔یہاں جیکب لائنز میں کیمپ لگے تھے،ایک میں ہمیں جگہ مل گئی۔کیمپوں میں کسمپرسی کا عالم تھا ،بیگم رعنا لیاقت اور دوسری خواتین یہاں آتی تھیں مگر مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ تھی،سنبھالنے میں مشکلات پیش آرہی تھیں ۔ایک واقعہ سنیں،ہمارے کیمپ میں ایک پریشان حال خاتون آکر کہنے لگیں کہ بچوں کے کھانے کے لئے کچھ دے دیں، ہماری چھوٹی بہن بڑی دریا دل تھیں،انہوں نے آٹے کا ڈبہ اٹھا کر انھیں دے دیا،بعد میں جب بڑی بہن کو یہ معلوم ہوا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور بتایا کہ دہلی میں گھر سے نکلتے ہوئے انہوں نے زیورات کا تھیلا آٹے کے ڈبے میں رکھ دیا تھا۔اب ڈھونڈا گیا تو وہ خاتون ہی نہ ملیں، اس کے بعد تو ہمارا وہی زیور کام میں آیا جو ہم تعلیم کی صورت میں اپنے ساتھ لائے تھے”۔
نعیمہ سلطان بتا رہی تھیں کہ وہ ہمیشہ وسیع وعریض گھروں میں رہی تھیں، کیمپ میں رہتے ہوئے بہت سی مشکلات تھیں مگر ہمارے والدین نے ہمیں ہر حال میں صبر شکر کی تربیت دی تھی،اُسی نے مدد کی۔نعیمہ سلطان دہلی کالج کی گریجوئیٹ تھیں،انھیں جلد ہی قریبی اسکول میں جاب مل گئی اور کچھ عرصہ بعد رہنے کے لئے کوارٹر بھی مل گیا ۔
اس سوال کے جواب میں کہ تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں سے کبھی ملاقات ہوئی،نعیمہ صاحبہ نے بتسیا کہ سینٹ جوزف کالج کی تقریب تقسم انعامات میں محترمہ فاطمہ جناح آئی تھیں اور انھیں شیلڈ دی تھی ۔یہ انکی زندگی کا یادگار واقعہ ہے ۔
53 ء میں انکی اپنے دہلی کالج کے کلاس فیلو مظہر یوسف سے شادی ہوگئی۔یہ بھی ایک دلچسپ روداد ہے۔ان دونوں کی کالج کے دور سےایک دوسرے میں دلچسپی تھی۔مظہر صاحب ،انھیں اپنے گھر والوں سے بھی ملوا چکے تھے ، مظہر یوسف کا خاندان میرٹھ میں تھا۔جب پاکستان بن گیا تو نعیمہ سلطان اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آگئیں اور مظہر صاحب سے رابطہ نہ رہا ۔مظہر یوسف کا خاندان بعد میں ٹرین کے زریعے لاہور پہنچا ۔مظہر انھیں تلاش کرتے ہوئے کراچی پہنچے اور ڈھونڈھ نکالا۔بعد ازاں دونوں کی شادی ہوگئی۔مظہر یوسف بھی اکنامکس گریجویٹ تھے ۔کچھ عرصہ انہوں نے اخبار ‘سندھ آبزرور ‘میں جاب کی اسکے بعد ٹیکسٹائل کابزنس شروع کیا اور ‘پاکستان ٹیکسٹائل جرنل’ بھی نکالتے رہے ۔انھیں تحریر سے شغف تھا،اسٹار ، ایوننگ اسپیشل اور ڈان میں لکھتے رہے۔سندھ کی تاریخ پر انہوں نے legacy of British کتاب لکھی۔ہجرت کے موضوع پر انگریزی میں کئی نظمیں بھی لکھی ہیں۔
نعیمہ سلطان بتاتی ہیں کہ شروع کی زندگی بہت مشکل تھی ،وہ مارٹن کوارٹرز میں خاندان کے ساتھ رہتے تھے،دونوں میاں بیوی نے اپنی تعلیم اور سخت جدوجہد کے ذریعے ایک نئے معاشرے میں باعزت مقام حاصل کیا ۔
نعیمہ صاحبہ نے بتایا کہ ہجرت کے دوران انکے شوہر (مرحوم)کے خاندان کو بہت مشکلات سے گزرنا پڑا۔انہوں نے کہا’مظہر جب بھی وہ دن یاد کرتےآبدیدہ ہوجاتے تھے ۔میرے شوہر کا خاندان پردے کا سخت پابند تھا ،جب یہ بھارت سے ٹرین میں سوار ہوئے تو اس وقت فسادات شروع ہوچکے تھے ،ٹرینوں میں بھی قتل و غارت مچی تھی۔مظہر صاحب کے ماموں پورے خاندان کی سر پرستی کر رہے تھے ،کسی اسٹیشن پر معلوم ہوتا کہ یہاں مسلمانوں کو مارا جارہا ہے تودل پر پتھر رکھ کر ماموں خاندان کی خواتین سے کہتے کہ برقعے اُتار دیں۔ایسے ہی ایک موقعے پر خواتین کو اخبار بھی پڑھنے کے لئے دے دئیے گئے تو مظہر کی ممانی اخبار الٹا پکڑ کر پڑھنے میں ‘مصروف ‘ہوگئیں۔ٹرین میں ایک جگہ یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ اسٹیشن پر پانی میں زہر ملا دیا گیا ہے ۔اب سب کو پیاس لگ رہی تھی مگر ڈر کے مارے پانی نہیں پی رہے تھے ۔مظہر صاحب نے پھر یہ کیا کہ پہلے انہوں نے خود پانی پیا اور کچھ دیر اس کے اثرات دیکھنے کے بعد گھر والوں کو دیا۔مظہر صاحب کو جب کبھی وہ وقت یاد آتا تھا ،اپنی ڈائری لے کر بیٹھ جاتے اور لکھتے رہتے تھے ۔
ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کو انڈیا میں اپنا گھر یاد آتاہے ، وہاں دوبارہ جانا ہوا،نعیمہ صاحبہ نے کہا کہ اپنے بچپن کی سب باتیں یاد ہیں ،بڑے سے صحن میں جھولے جھولتے تھے لیکن پاکستان آنے کے بعد دوبارہ انڈیا جانے کا نہیں سوچا نہ ہی یہ اتنا آسان ہے۔2022 کے پاکستان کے متعلق رائے دیتے ہوئے نعیمہ سلطان نے کہاکہ جیسا بھی ہے اپنا ملک تو ہے،البتہ اُس وقت ہمیں دکھ کا احساس ہوتا ہے جب ہر طرح سے یہاں رچنے بسنے کے باوجود کبھی ہمیں بلکل الگ کھڑا کردیا جاتا ہے۔
حٙسین احمد کا شمار پاکستان کے اولین جرنلسٹس میں ہوتا یے ۔انہوں نے ‘ٹائمز آف کراچی’ سے کیرئیر کا آغاز کیا تھا،نیوز ایجنسی UPP، ڈان،ایشین نیوز اورایک فارن نیوز سروس میں کام کرچکے ہیں ۔
حٙسین احمد بارہ سال کے تھے جب پاکستان بن گیا۔ 1952میں وہ تنہا ،اپنے خاندان کے بغیر ایک دوست کے ساتھ پاکستان چلے آئے ۔اُن کا خاندان الہ آبادمیں رہتا تھا۔والد زمیندار تھے،الہ آباد سے چھ سات میل کے فاصلے پرواقع گائوں ‘افراوے خورد’ میں انکی زمینیں تھیں۔
حسین صاحب کی یادوں کے مطابق 47 ء میں الہ آباد میں تحریکِ پاکستان کے حوالے سے بہت جوش وخروش تھا ۔وہ بتاتے ہیں”مجھے تحریک آزادی کے متعلق آگاہی اپنے اسکول کے زریعے ملی ، الِہ آباد میں مسلم اسٹوڈنٹس نے تحریک کو فروغ دیا۔میری عُمراگرچہ زیادہ نہیں تھی لیکن اپنے سینئر اسٹوڈنٹس کو ان سرگرمیوں میں مصروف دیکھ کر میں بھی اپنے دیگر ہم عمروں کی طرح ان میں دلچسپی رکھتا تھا۔مسلمان نوجوان روزانہ شام کو جلوس نکالتے تھے جن میں نعرے لگائے جاتے تھے’ سینے پہ گولی کھائیں گے،پاکستان بنائیں گے’۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اُس وقت تحریک پاکستان کا منبع تھی۔وہاں سے جو طلباء تحریک شروع ہوئی اس کے تحت مسلم طلبہ الہ آباد،لکھنئو،فتح پور،شکار پور اور دیگر قریبی علاقوں میں جاکر تحریک کے متعلق شعور پھیلاتے تھے ۔مسلم نوجوان ٹولیوں کی صورت میں گائوں،دیہات جاتے جہاں ریلیوں،جلسوں میں بتایا جاتا کہ پاکستان بنانا کیوں ضروری ہے۔ہمارے الہ آباد میں بھی جلسے جلوس نکالے جاتے تھے ۔مشاعرے ہوتے تھے ،جن میں نامور شعراءجوش ملیح آبادی،جگر مراد آبادی ،دل لکھنوئی،شعلہ اسیونی اوردیگر شرکت کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے اس زمانے میں شعلہ اسیونی کا طوطی بولتا تھا ،ان کا تعلق لکھنئو کے قریبی قصبے’آسیو’ سے تھا، انکی ساری شاعری پاکستان کے لئے تھی۔ مجھے اُنکے اشعار یاد ہیں:
اُٹھو سبز پرچم گاڑ دو ‘ویول ‘کے سینے پہ
اسی نظم کا ایک اور شعر:
تم ہی نے دی تھیں اذانیں روم کے میدان میں
چلی دُنیا نوسوسال تمھارے قرینے پہ
حسین احمد بتا رہے تھے”قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ہمیں اپنے بڑوں سے معلوم ہوا کہ پاکستان بن گیا۔اِلہ آبادمیں حالات ٹھیک تھے۔میرے والد اور انکے ابا ء واجدادزمیندار تھے،اور علاقے میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔والد صاحب کے دیگر ہندو زمینداروں سے بھی بہت اچھے تعلقات تھے۔انہوں نے انڈیا میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ 52 ء میں میں نے شبلی نیشنل اسکول سے میٹرک کرلیا ۔اسی اسکول سے پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ بھی فارغ التحصیل ہوئے ،انکے بھائی مرزا ظفر بیگ میرے کلاس فیلو تھے ۔میٹرک کر کے فارغ ہوئے تو انھی دنوں میرے ایک گہرے دوست ممتاز حسین(مرحوم)اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کررہے تھے _انہوں نے مجھےکہا کہ آپ بھی پاکستان چلیں، وہ مسلمانوں کا ملک ہے،ہم وہاں محفوظ اور آزادی سے رہیں گے۔ممتاز کا خاندان تعلیم یافتہ تھا۔اُن کا کہنا تھاکہ پاکستان ہمارے لئے مواقع کی سرزمین ہوگی۔ممتاز کی والدہ نے مجھے کہا کہ آپ اپنے والدین سے پوچھ لیں اگر وہ اجازت دیں تو آپ ہمارے ساتھ ہی رہنا۔مجھے انکی پیشکش بہت پرُکشش لگی،میں نے والدین سے پوچھا تو انہوں نے پہلے منع کردیا پھر میرے اصرار پر شاید یہ سوچ کر اجازت دے دی کہ جوان لڑکا ہے خود ہی نہ چلا جائے۔بہرحال مجھے کہا گیا کہ میں اپنا شوق پورا کرلوں اور کسی بھی وقت واپس آسکتا ہوں۔میں اپنے دوست کے خاندان کے ہمراہ ٹرین سے دہلی آیا اور وہاں سے ہم مونا بائو(سندھ) آگئے۔یہاں ایک کلو میٹر کا علاقہ ‘نو مین لینڈ’ ہے، جسے پیدل کراس کیا،مونا بائو سے ٹرین میں میر پور خاص اور پھر کراچی آگئے۔دوست کے بہنوئی یہاں گورنمنٹ سروس میں تھے اور لارنس روڈ پر کوارٹرز میں رہتے تھے۔چند دن میں ان سب کے ساتھ وہیں رہا ۔میں میٹرک پاس تھا ،مجھے فوراً ایک موٹر کمپنی میں کلرک کی ملازمت مل گئ تو میں دوست کے ہاں سے شفٹ ہوگیا اور چار پانچ لڑکوں کے ساتھ مل کر کرائے کے گھر میں رہنے لگا۔کچھ عرصے بعد میں نے ملازمت چھوڑ دی اور جناح کالج میں داخلہ لے لیا، اسکے بعد کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی سول اسپتال کے پیچھے تھی”۔
ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ ملازمت چھوڑنے کے بعد آپ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے تھے ،حسین احمد نے بتایا "میں ٹیوشن پڑھاتا تھا اور یونیورسٹی جانے سے پہلے اخبار میں ملازمت بھی شروع کردی ۔مجھے اس زمانے میں سو روپے تنخواہ ملتی تھی۔ہم نے ناظم آباد ایک نمبر پر کرائے کا گھر لیا ہوا تھا _کھانا پکانے کے لئے کُک بھی رکھا تھا ،یقین جانئے سب ملا کر ماہانہ خرچ 40 روپے تھا۔اس زمانے میں دودھ ایک روپے لٹر،گائے کا گوشت بارہ آنے اور بکرے کا ڈیڑھ روپے کلو ملتا تھا ۔ہمارے کک کی تنخواہ بیس روپے تھی۔کچھ عرصے بعد میں یونیورسٹی کے ہاسٹل شفٹ ہوگیا تو پیسوں کی مذید بچت ہونے لگی۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس عرصے میں بھارت میں اپنے والدین سے رابطہ ہوا یا آپ وہاں گئےحسین صاحب نے بتایا کہ آنے جانے والوں کے ذریعے مجھے والدین کی اور انہیں میری خیر خبر مل جاتی تھی۔میرے جرنلزم کےکیرئر کی ابتدا ہوچکی تھی میں یہاں خوش تھا اور والدین مجھے خوشحال دیکھ کر مطمئن تھے ۔88 میں ءایک مرتبہ میری والدہ یہاں آئی تھیں،ایک ماہ بھی نہیں رُکیں اور کہنے لگیں کہ’ میری واپسی کا ٹکٹ کروادو’اُن کا یہاں دل نہیں لگا اور میرا بھی یہ ہی حال تھا۔میں 80ءمیں انڈیا گیا تھاPANAM کی فلائٹ دہلی جاتی تھی ،وہاں سےالہ آباد کے ائر پورٹ پر پہنچا تو جنگل بیابان نظر آیا دراصل یہ انگریزوں کا ملٹری ایر پورٹ تھا ،بمرولی کے نام سے ،اب یہ تباہ حال تھا،کافی دیر انتظار کے بعد ایک پرائیویٹ گاڑی والا آیا اور مجھے پوچھا شہر جائیں گے ،میں نے جلدی سے ہاں کہا،اس نے بیس روپے مانگے،میں نے کہا ٹھیک ہے،وہیں سے اُس نے ایک اور مسافر بھی لیا اور ہم الہ آباد شہر پہنچ گئے ۔الہ آباد میں داخل ہوتے ہی میں حیران رہ گیا،شہر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا ،مجھے تو یہاں کا چپہ چپہ ازبر تھا۔الہ آبادنہایت صاف ستھراشہرہوتا تھا،اب دیکھا تو جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر ،جدھر دیکھیں دوچار گائیں بندھی ہوئیں،کہیں پانی کہیں کیچڑ جمع تھا۔جی۔ٹی روڈ جو شہر کی بہترین اور کشادہ سڑک ہوتی تھی،اسکے اطراف میں جھونپڑیاں اور کچے مکانات کی کثرت تھی اور سڑک سمٹ کر پتلی سی گلی نظر آرہی تھی۔سول لائنز جو کبھی شہر کا پوش ترین علاقہ تھا،وہاں سلیکٹڈ انگریز ،ہندو اورمسلمان آبادی رہتی تھی،میرا ایک دوست دیو جس کے والد پروفیسر تھے یہاں رہتا تھا میں اسکے پاس اکثر آتا تھا ،اب اس علاقے کا حُلیہ بھی بگڑ چکا تھا اور یہ دیکھ کر تو میں حیرت زدہ رہ گیاکہ یہاں کا آنند بھون جسے جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نے بنوایا تھا اور الہ آباد کا سب سے شاندار محل تھا اسکی دیواروں پر اُپلے تھوپے ہوئے تھے ۔بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مسلم اکثریتی آبادی کے علاقوں پرحکومتی توجہ نہیں تھی۔ہمارے والد کی زمینیں بھی اصلاحات کے ذریعے ختم ہو کر برائے نام رہ گئی تھیں ۔البتہ میرے بھائی کو محکمہ صحت میں ملازمت حاصل تھی اور وہ الہ آباد کی نئی ہائوسنگ سوسائٹی میں اپنا گھر بنا رہے تھے ۔وہاں کے لوگوں سے جب بات ہوتی تو مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ پاکستان کو آئیڈیالائز کرتا تھا انکے خیال میں پاکستان بننا اچھا ہوالیکن کئی مسلمان اس سے اختلاف بھی رکھتے ہیں اور خود کو بااثر سمجھتے ہیں،میرے چھوٹے بھائی کا بیٹا ہمارے آبائی گاؤں میں رہتا ہے اور اسکی بیوی گاؤں کی ‘پردھان’ہے وہ انڈیا چھوڑنے کا سوچتے بھی نہیں”۔
حسین احمد نے کہا کہ مجھے انڈیا میں اپنے گھروالوں ،دوست احباب سے مل کر تو خوشی ہوئی لیکن شہر کو تباہ حال دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔
حٙسین صاحب اس موقعے پر ماضی کا کراچی یاد کرتے ہوئے کہنے لگے کہ 60 ءسے لیکر 80 کی ابتدا تک کراچی تہذیب و تمدن،لٹریچر اور آرٹ کا مرکز رہا۔ یہاں لاجواب کیفے کلچر رائج تھا،صدر کا کیفے جارج جو ایک کرسچن کاتھاشہر کی جان تھا،جہاں دور دور سے لوگ،ادیب ،دانشور چائے کافی پینے کھنچے آتے تھے۔صدر میں’کیفے ٹیریا’ ریسٹورنٹ آدھا لان پر مشتمل تھا یہ ایلیٹ کلاس کا مرکز تھا ،اسی طرح کیفے فردوس ،زیلن کافی،بومن ابدان،پرشین ریسٹورنٹ شہر کے معروف ترین مقامات تھے جہاں انگریز اور یورپین بھی شوق سے آتے تھے ۔اس زمانے میں کراچی میں کئی نائیٹ کلبز تھے،کے۔ایم۔سی بلڈنگ کے نیچے ‘روما شبانہ’تھا جہاں کیبرے شوز ہوتے تھے۔پینوراما سنٹر پر ‘پام گروو’سرور شہید روڈ پر ‘ایکسلشئر’وغیرہ ان نائٹ کلبز میں فلپائنی،مصری ،ترک اور یورپین رقاصائیں پرفارم کرتی تھیں۔کراچی کی نائیٹ لائف کسی یورپین کیپیٹل جیسی تھی۔
اس شہر کے باسی علم وادب کے شائق تھے۔صدر کے علاقے میں آٹھ دس بہت بڑے، معروف کتاب خانے تھے جن میں پاک امریکن بک کارپوریشن،ٹامس اینڈ ٹامس اور دیگر شامل تھے ۔
حسین احمد کراچی کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس کے موجودہ حالات پر فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں ،اُن کے خیال میں ساحلی شہر اور صنعتی و ثقافتی مرکز ہونے کی وجہ سے پاکستان بھر سے آبادی کا دبائو شہر پر بڑھا ہے ،انہوں نے کہا یہ غیر معمولی نہیں ،دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے لیکن ترقی یافتہ دنیا نے شہری حکومت کے ذریعے اپنا نظام بہترین بنایا ہے ،لندن کے چھوٹے سے چھوٹے ہملٹ( گاوں) کی بھی ٹائون کمیٹی ہے۔مجھے امریکہ کے بڑے شہروں میں رہنے کا موقعہ ملا سب جگہ شہری حکومتوں کو کامیاب پایا ہے ۔ ہمیں بھی یہ ہی انتظام کرنا چاہئے ۔