رپورٹ :محمد قیصر چوہان
[email protected]۔
جمہوریت ”دجالی“ نظام کو پوری دنیا میں رائج کرنے کے مشن پر گامزن تنظیموں فری میسن ،الومیناتی اور کمیٹی آف 300 کی اصلاح ہے ،جو دوسری جنگ عظیم کے بعد متعارف کرائی گئی۔ جبکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں بیت الخلاءجانے اور آنے سے لے کر دنیا کی امامت و قیادت تک کے اسلوب و آداب تفصیل سے سکھائے گئے ہیں۔ بدقسمتی سے آج اسلام کو بازیچہ اطفال بنا لیا گیا ہے۔ اس نام پر سیاست بھی ہو تی ہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹے جاتے ہیں، تاہم دین اسلام کے ساتھ اخلاص دکھائی نہیں دیتا جو انتہائی افسوس ناک ہے۔پاکستان کے تمام حکمران 74 برسوں کے دوران ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستان میں جمہوریت، آمریت، صدارتی نظام، بار بار مارشل لاء، اسلامی سوشلزم، روشن خیالی، سب سے پہلے پاکستان اور اب ریاست مدینہ کا نام لے کر اس ریاست کے نام کی توہین کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے تمام حکمرانوں نے اسلام کا راستہ روکا ہے۔ ملک میں سارے نظام آزمائے جاچکے اور سب ناکام ہوچکے۔پاکستان کا ایک ایک نظام ایک ایک ادارہ عالمی سازش کے تحت تباہ کردیا گیا ہے۔یہ سارا کام اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہی کرسکتے ہیں جو دنیا میں کہیں بھی اسلام کو نافذ ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔
دنیا میں واحد فلسفہ حیات اسلام ہی ہے جو انفرادی و اجتماعی فلاح و بہبود کا نظام عطا کر تا ہے جس میں حکمران و عوام سب کے سب اپنے خالق و مالک کے بندے ہیں اور سب ہی اللہ تعالی اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمدکے احکامات کے پابند ہیں۔ اسلام میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جو سب کا خالق و مالک ہے۔ ملک اسی کا اور حق حکمرانی بھی اسی کو حاصل ہے۔ اہل ایمان میں سے جو صاحبان اختیار ہوں وہ اللہ کی نیابت کر تے ہیں، عوام اہل ایمان کو کتاب وسنت کے مطابق چلانے کے پابند اور سب سے پہلے خود عملی طور پر اس نظام کے مظہر ہونے چاہئیں۔قرآن مجید کی آیت کریمہ کے مفہوم کی روشنی میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر ارشاد فرما تا ہے کہ ”پوری کائنات کی بادشاہی صرف اللہ تعالی ہی کی ہے وہ جسے چاہے بہ طور اپنے نائب یا خلیفہ کے عطا فرما دے اور جسے چاہے محروم کر دے۔ یعنی یہ سب اسی کے اختیار میں ہے۔ اسی کے اختیار میں تمام تر بھلائی ہے یعنی جو قومیں اس کے قرآن اور پیغمبر اسلام کی اطاعت کر تی ہیں، انہیں دنیا کی سر فرازی اور آخرت کی فلاح و کام رانی عطا فرما دیتا ہے، جبکہ رُوگردانی کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے اس لیے کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔“ آج اگر ہم امن، چین، سکون، عدل، انصاف حقوق انسانی اور تعمیر و ترقی کے خواہش مند ہیں تو پھر ہمیں اسی طرف رجوع کرنا ہوگا ،جس کا حکم اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں دیا۔ قرآن مجید کی آیت کریمہ کے مفہوم کی روشنی میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر ارشاد فرما تا ہے کہ ”جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کر تے رہے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ (وہ) ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا، جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے (بطو ر نظام حیات) پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کر دے گا اور خوف کے بعد امن عطا کرے گا۔ وہ (اہل اقتدار و عوام) میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی شے (یعنی نظام، نظریہ، ہستی وغیرہ) کو شریک نہیں بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد (یعنی قرآن و حدیث کے احکام واضح ہوجانے کے بعد) کفر کرے (یعنی ز بانی یا عملی انکار کرے) تو ایسے لوگ بد کردار ہیں“ ۔اس سے معلوم ہوا حکومت و اقتدار اللہ تعالیٰ کی امانت اور مسلم حکم ران اس کے نائبین ہیں۔ جو خود بھی شریعت کے پابند اور عوام کو بھی کتاب و سنت کے مطابق چلانے کے پابند ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی صورت میں جہاں انسانوں کو اپنی بندگی کا طریقہ سکھایا، وہاں اُنہیں اپنی معاشرتی و اجتماعی زندگی گزارنے کے طور طریقے بھی واضح فرما دیے۔ اجتماعی نظاموں میں اہم ونمایاں ترین نظام سیاسی نظام ہوتا ہے جسے اسلام کے سیاسی نظام’ خلافت وامارت‘ کے طورپر جانا جاتا ہے۔ آج اُمت مسلمہ جمہوریت کے سحر میں کھوئی ہے اور ہرکوئی اسلام کے سیاسی نظام کے طورپر جمہوریت کے گن گاتا نظر آتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام کا شورائی نظام اور طریقہ انتخاب اہل مغرب نے جمہوریت کی شکل میں جذب کرلیا ہے۔ جبکہ اسلام کے شورائی نظام اور جمہوریت کے نظام فیصلہ وقانون سازی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔جمہوریت کے تصور مساوات کا بڑی شدت سے ڈھنڈورا پیٹا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ اسلام نے مساوات کا جو تصور دیا ہے، یہی تصور جمہوریت میں بھی موجودہے۔ اگرجمہوریت اور اسلام کے تصور مساوات کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ جمہوریت جو اہل مغرب کا متعارف کردہ نظام ہے، اس میں مساوات کا تصور ایک خاص سطح پر آکے رک گیا ہے۔ جبکہ اسلام کاتصور مساوات ہی حقیقی اور کامل ہے۔ یوں تو مساوات کا نعرہ بذاتِ خود ایک مغربی نعرہ ہے اور اسلام نے اس کی جگہ ’عدل‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے کہ مختلف النوع ذمہ داریوں اور صنفوں کے لحاظ سے حقوق وفرائض کا وہی تناسب ہونا چاہئے جو عین عدل وانصاف کا تقاضا ہے، نہ کہ تمام لوگوں کو مساوات کے نام پرایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیا جائے، تاہم جہاں ایک جیسے انسانوں کے باہمی حقوق کی بات آئے یا قانون پر عمل درآمد کی بات ہو تو اس میں اسلام مساوات کی عین پاسداری کرتا ہے جو جمہوریت کے تصور مساوات سے بہت بلند اور کامل ہے۔
جمہوریت دراصل انسانوں کی اپنے جیسے انسانوں پر حاکمیت کا نام ہے جس میں ظاہری اور تقابلی اکثریت کی بنا پر بعض انسانوں کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر اپنے قانون چلانے کا حق مل جاتا ہے۔ جبکہ اسلام انسانوں کی بجائے اللہ کی حاکمیت کا نام ہے جس میں تمام انسان اپنے خالق کی عطا کردہ شریعت کے سامنے مطیع وفرماں بردار ہوتے ہیں۔ اگر جمہوریت میں حاکمیت کے اس تصور کو دیکھا جائے تو وہاں انسانوں کا حاکم اعلیٰ اُصولی طورپر باز پرس سے بالا تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں جمہوری سربراہوں اوربعض اوقات صدر جمہوریہ کو قانونی باز پرس سے استنثا کا اُصولی استحقاق حاصل ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے اسلامی جمہوری نظام میں قانون سے بالاتر ہونے کا یہ استحقاق صدر کے ساتھ صوبائی گورنروں کو بھی حاصل ہے جسے دستور پاکستان کی دفعہ 248 ب میں بیان کیاگیا ہے۔ دوسری طرف اسلام کے سیاسی نظام ’خلافت‘ کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں اللہ کے احکام سے بالاہونے کا معمولی سا استحقاق بھی کسی کو حاصل نہیں۔ جمہوریت میں یہ حق کسی بھی ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے کو حاصل ہے اور ریاست کے مختلف صوبوں کے گورنر حضرات کو بھی جبکہ اسلام میں خلیفہ راشد بھی اس استحقاق یعنی شرع سے بالاتری تو کجا، شریعت کی باز پرس سے بھی اپنے آپ کو بالا قرار نہیں دے سکتا۔یاد رہے کہ موجودہ وطنی ریاستوں کے بالمقابل خلا فت اسلامیہ اپنی عظمت وقوت کے لحاظ سے بہت عظیم ترہوتی ہے اور اللہ کی حاکمیت اعلیٰ خلافت وامارت کے نظام میں تمام افراد پر اس طرح غالب ومستحکم ہوتی ہے کہ انسانیت کے عظیم ترین مقام ’نبوت‘ کو بھی حاکمیت الٰہیہ کے سامنے کسی استثنا کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ہوتا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو کسی بھی اسلامی اجتماعیت کی غیرمعمولی قیادت عطا کرتا ہے اور مسلمانوں کے دین وایمان کو نبی مرسل پر ایمانِ کامل لانے سے مشروط کرتا ہے، اس کے باوجود قرآن کریم انبیا سے یوں خطاب کرتا ہے:”کسی بشرکے لیے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب، حکومت اور نبوت عطا کرے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاو ¿، لیکن اے انسانو! تمہارا فرض یہ ہونا چاہئے کہ ربانی بن جاو ¿، کیونکہ تم اسی کی کتاب پڑھتے ہو۔“اس آیتکریمہ سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حاکمیت صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کو زیبا ہے اور اس حاکمیت میں کائنات کی عظیم ترین ہستی بھی معمولی سی شرکت نہیں رکھتی۔ حاکمیت کا یہ وصف قرآن کریم کی بہت سی آیت کی رو سے صرف اللہ تعالیٰ کو ہی لائق ہے۔ جب اسلام میں یہ حاکمیت صرف وحدہ لاشریک کا خاصہ ہے تو اس کے ماسوا سارے ربّ ذوالجلال کے محکوم ومطیع ہیں اور ان محکومین میں بجز اس کے کوئی فرق نہیں کہ اللہ خود کسی کو کسی حکم سے خصوصیت عطا فرما دیں، اگر یہ بات خود حاکم مطلق نے جاری نہیں فرمائی تو اللہ کی محکومیت واطاعت میں تمام انسان بلا استثنا بالکل مساوی ہیں اور ان کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ شریعت اسلامیہ میں حاکم اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے اور باقی سب محکوم ومطیع ہیں۔
اگرہم جمہوری نظام کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ انسانوں کی حاکمیت پر مبنی نظام میں،حکم کے مدار پر فائز شخص اپنی ذات کے لیے اپنے جیسے انسانوں کے بنائے قانون سے استثنا کا متمنی وداعی ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت میں ایک جیسے انسانوں کی مساوات کا تصور ایک خاص نکتے پر آکر رک گیا ہے اور تمام انسانوں کو مساوات کاملہ دینے کے دعوے میں جمہوریت سچی نہیں ہے۔ انسانیت کو جو عظمت اسلام نے عطا کی ہے، وہ عظمت دنیا کا کوئی سیاسی نظام نہیں دیتا کہ اس پراپنے خالق کے سوا کسی عظیم ترین انسان کی اطاعت بھی واجب نہیں ہے۔ اسلام صرف ایک اللہ کی اطاعت کا نام ہے۔ جمہوریت اپنے جیسے انسانوں کی محکومیت کا نام ہے ، جنہیں کسی بنا پر اپنے سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والوں کا تابع فرمان بن کررہنا پڑتا ہے۔جس طرح اسلام میں کوئی عظیم سے عظیم انسان ، خالق کی شریعت کے سامنے بالاتری کا دعویٰ نہیں کرسکتا، اسی طرح اسلام میں نظم اجتماعی کا عظیم ترین منصب دار بھی اللہ کے قانون سے کسی کو استثنا دلوا نہیں سکتا۔ جبکہ جمہوریت کی صورت حال اس سے مختلف ہے۔ جمہوریت میں صدر جمہوریہ، کسی بھی انسان کی سزا معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے بنائے قانون کا مرکز ومحور ہے اور اُسے اس قانون میں خصوصی اختیار ات دئیے گئے ہیں۔ پاکستان اور دیگر جمہوریاو ¿ں کے بہت سے صدور نے اس بنا پر کئی مجرموں کی سزاے موت کو معاف کردیا ہے۔گویا جمہوریت میں انسانی قوانین کا مرکز، کسی شخص پر اس قانون کو معطل کرنے کا اختیار رکھتا ہے جبکہ اسلام میں اس کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام یعنی خلافتِ اسلامیہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام ہے اور اس نظام کو معطل کرنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔ کسی خلیفہ گورنر تو کجا، عظیم الشان سیاسی و دینی شخصیت، جن کے سیاسی منصب کی خلافت بعد میں تمام مسلم خلفا کو حاصل ہوتی ہے، نے بھی اس استحقاق کو استعمال کرنے سے انکار کیا ہے۔آئین کے
نام پر قرآن وسنت کے مقابل ایک دستاویز کو وہی تقدس دیا جاتا ہے جو دراصل شریعت الٰہیہ کا حق ہے۔پھردستور کے نام پرغالب انسانوں کی دوسروں پر حاکمیت بروے کار لائی جاتی ہے، پھر یہ حاکمیت قانون سازی کے ذریعے پورے عدالتی نظام کی صورت میں مسلمانوں پر قائم ونافذ کردی جاتی ہے۔ مغرب کا تعلیمی نظام ، مادہ پرست معاشرے کے قیام پر استوار ہے۔اس تعلیمی نظام کی حامل یونیورسٹیوں میں یا تو علوم اسلامیہ کے شعبے ہوتے ہی نہیں ، اگر ہوں تو برائے نام اور دنیا سے تمتع کے لیے متعارف ہونے والی علوم وسائنسز سے یہ یونیورسٹیاں بھری پڑی ہوتی ہیں۔ سائنس وانجینئرنگ اور میڈیکل کی آئے روز نت نئی شاخوں میں ریسرچ کی اور تعلیم دی جاتی ہے اور اسلامیات کا ایک کمزور سا شعبہ بھی ملحدانہ نگاہوں میں کھٹکتا ہے۔جمہوریت کا ابلاغی نظام فلم وڈرامہ، موسیقی اور فحاشی کی صورت میں خواہشات نفس کی حکمرانی کا دوسرا نام ہے جس میں کبھی طنز وتمسخراورکبھی جستجووتجسس کو ہی پورا آرٹ بنا دیا گیا ہے۔
پاکستان کواسلامی فلاحی مملکت بنانے کے عزم کا زبانی اظہار ”تقریباہر دورحکومت“ نے کیا ہے مگر اس عزم پر عملدرآمد کے لیے کسی بھی حکومت نے کبھی مخلصانہ کوشش نہیں کی۔ ماضی میں خوبصورت الفاظ میں بلندبانگ دعوے محض عوام کو بےوقوف بنانے کے لیے کئے جاتے رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں خود عوام نے بھی سنجیدگی سے کبھی کوشش نہیں کی۔ جب تک ہم سب اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق نہیں ڈھالیں گے اس وقت تک تمام دعوے، تمام نعرے بے کار رہیں گے۔ ہم میں سے ہر فرد کا فرض ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے اہل خانہ کوصحیح مسلمان بنائے اوراپنے گھر میں دین قائم کرے اس کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی فرض اولین ہے کہ تمام قوانین و ضوابط کو اسلامی آئین کے مطابق بنائے۔حق حکومت ایک انتہائی حساس ترین امانت ہے جسے انتہائی سوچ و بچار اور ہر طرح کی نسلی، لسانی، علاقائی عصبیت اور تعصبات سے آزاد ہو کر اہل افراد کے حوالے کیا جانا چاہیے، تاکہ دین و دنیا کی بھلائیوں کا سبب بنے۔ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تب ہی ممکن ہے، جب اللہ تعالی اور اس کے آخری پیغمبر رسول کریم کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ ہمارے حکمران خوف خدا اور اطاعت رسول سے سرشار ہوں، خود بھی دین پر عمل کرنے والے اور عوام الناس کو بھی دین پر چلانے والے ہوں۔پاکستان میں ان دنوں ریاست مدینہ کی کافی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔اگر وزیر اعظم عمران خان ،پاکستان کو واقعی ریاست مدینہ کی طرز پر ایک ماڈل ریاست بنانا چاہتے ہیں تو پھرسب سے پہلے سود کی لعنت سے نجات حاصل کی جائے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میںسود پر مبنی نظام ایک لمحہ فکریہ ہے کہ حکومت کے لیے، سیاسی جماعتوں کے لیے، دینی اداروں کے لیے اور ہم سب کے لیے جو دین کی سربلندی چاہتے ہیں اورجوپاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے خواب دیکھتے ہیں