جشن آزادی کا مہینہ شروع ہوتے ہی عجیب سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے، ہر طرف سبزہلالی پرچموں کی بہارسے تازگی کا احساس ہوتا ہے، احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک آزاد معاشرے میں پرورش پا رہے ہیں۔ اور 14اگست والے دن تو ہر طرف نغموں کا جس طرح سماں بندھ جاتا ہے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس ملک میں کسی قسم کی پریشانی بھی ہے یا نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر چیز بہترین چل رہی ہے، لیکن جیسے ہی 14اگست یعنی جشن آزادی کا دن اپنے اختتام کو پہنچتا ہے پریشانیاں گھیر لیتی ہیں۔ غریب آدمی کو روزگار کی پریشانی، تنخواہ دار کو بجٹ میں رہ کر گزارہ کرنے کی پریشانی۔ جبکہ حکومتوں کو معیشت کی پریشانی۔ یہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہم ڈیفالٹ کرتے کرتے بال بال بچے ہیں، ورنہ اس وقت حالات مختلف ہوتے ۔لیکن ابھی بھی مصائب کے بادل چھٹے نہیں بلکہ ارد گرد ہی منڈلا رہے ہیں۔ ہم اس وقت آئی ایم ایف کی مرہون منت ہیں، امریکا کی مرہون منت ہیں، ورلڈ بنک نے ہمارے بنکوں پر قبضہ کیا ہوا ہے، ایشین بنک و دیگر اداروں نے ہماری موٹرویز اور عمارات کو گروی رکھا ہوا ہے۔ جبکہ حالات یہ ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کے حالات ٹھیک کرنے ہیں، وہ ایک دوسرے کو ”غدار“ کہہ رہے ہیں۔
یہاں حالات یہ بھی ہیں کہ یہاں میثاق معیشت کیا آنا؟ یہاں تو جب ایک پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو دوسری پارٹی کے لوگوں کو چن چن کر جیلوں میں ڈالتی ہے، جبکہ دوسری پارٹی جب اقتدار میں آتی ہے تو پہلی والی پارٹی کے رہنماﺅں سے گن گن کے بدلے لیے جاتے ہیں۔ اور پورے ملک میں غدار غدار کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم پاکستان میں نہیں بلکہ غداروں کی سرزمین پر رہ رہے ہیں! اس لیے یہاں یہ کہنا بجا ہے کہ 14اگست ہم تم سے شرمندہ ہیں کہ یہاں ہم اصل مسائل سے بے خبر ہر اختلاف کرنے والے کو غدار بنا دیتے ہیں۔ جیسے گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو گرفتار کیا گیا، اُن پر الزام ہے کہ اُنہوں نے پاک فوج کے خلاف اور حکومت وقت کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔ میرے خیال میں اپنی فوج کے خلاف بیانات کو تو کبھی بھی ڈیفنڈ نہیں کیا جاسکتا مگر ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یا عام آدمی کسی ”شخصیت “کے خلاف بات کرتا ہے تو وہ غدار کیسے ہو سکتا ہے؟
حالانکہ ہم فوج کے کسی آفیسر کے خلاف ہو سکتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پاک فوج کے خلاف ہیں، پاکستان کے وزیر اعظم کے خلاف ہو سکتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف تو نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم زرداری کی پالیسیوں کے خلاف ہیں تواس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ ہم پیپلزپارٹی کے خلاف ہیں، اسی طرح اگر ہم نواز شریف کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ ہم پوری ن لیگ کے خلاف ہیں، اگر آج ن لیگ جمہوری پارٹی بن جائے، اپنے اندر سے موروثیت ختم کر دے، ذاتی مفادات کے بجائے پاکستان اور اس کے عوام کا سوچے تو آج ہم ن لیگ کے ساتھ ہو جائیں گے، اگر پیپلزپارٹی میں سے زرداری صاحب نکل جائیں اور پرانے خالص سیاستدان رہ جائیں تو پاکستانیوں کو کیا تکلیف ہو گی کہ وہ پیپلزپارٹی کا ساتھ دینے میں ہچکچائیں ۔
اس لیے میرے خیال میں ہر سیاسی جماعت پاکستان کا حُسن ہے، لہٰذاپارٹی کبھی بری نہیں ہوتی، اور رہی بات شہباز گل کی تو میرے خیال میں ہر جماعت میں شہباز گل، فواد چوہدری یا علی محمد خان جیسے لیڈر چاہیے ہوتے ہیں جو بولڈ ٹاک کریں ، جو مخالف سیاسی جماعتوں کے کرپٹ عناصر کا مقابلہ کرسکیں۔ اور اُن کے پاک فوج کے افسران کے خلاف بیانات کی اگر بات کی جائے تو پھر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ سب سے پہلے فوج کے خلاف بولا کون تھا؟ ن لیگ؟ یعنی خواجہ آصف، پھر ”ووٹ کو عزت دو“ کی مہم کس نے شروع کی ، نوازشریف نے؟ پھر زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کس کو بھول سکتی ہیں؟ پھر مولانا فضل الرحمن کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ اور پھر جب یہ لوگ ریاستی اداروں کے خلاف باتیں کر رہے تھے تو مجھے بتایا جائے تب ریاستی ادارے کہاں تھی؟ لہٰذااس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے؟ کہ طاقتور سیاستدان بچ گئے اور کمزور سیاستدان پکڑے گئے۔
اور اب ان ”کمزور“ سیاستدانوں کو ”غدار“ کہا جا رہا ہے، حالانکہ غدار کوئی بھی نہیں ہوتا، میرے خیال میں غدار تو وہ ہوتا ہے جوریاست کے خلاف ہو۔ جو پاکستان کے خلاف ہو۔اور سیاستدانوں میں تو ایسا شاید ہی کوئی ہو جو پاکستان کے خلاف ہو۔ اور جو بندہ کسی شخصیت کے خلاف ہے وہ غدار کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر میں چند ایک ججز کے خلاف ہوں تو میں غدار نہیں ہوں، اگر میں چند سیاستدانوں کے خلاف ہوں تو غدار نہیں ہوں، اگر میں چند ایک جرنیلوں کے خلاف ہوں تو میں غدار نہیں ہوں۔ اس لیے غدار کا لفظ ہماری لغت میں سے نکل جانا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ نوازشریف پاکستان کے خلاف ہے، آپ اُن پر کرپشن کے الزامات لگا سکتے ہیں، اُن پر دیگر الزامات لگا سکتے ہیں مگر وہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ خدانخواستہ پاکستان ٹوٹ جائے۔ بلکہ وہ یہ چاہیں گے کہ اُن کی اجارہ داری قائم رہے۔ زرداری صاحب یا مولانا فضل الرحمن کے بھی یہ حالات ہیں۔اور پھر ہمارا ماضی بھی ہم سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ عبدالولی خان کو غدار کہا گیا، حالانکہ وہ ایک بڑے محب الوطن تھے، پھر جی ایم سید کو غدار کہا گیا، اکبر بگٹی کو غدار کہا گیا ، عطاءاللہ مینگل کو غدار کہاگیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کو غدار کہا گیا، مجیب الرحمن شیخ کو غدار کہا گیاپھر فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا، اس لیے غدار کے لفظ پر ہی پابندی لگائی جانی چاہیے ۔ کیوں کہ غدار تو وہ ہوتے ہیں جو دشمن کو قوم کے خلاف فائدہ پہنچاتے ہیں، جیسے فوج میں بے شمار کو سزائیں ہو چکی ہیں،بریگیڈئیر اور جنرل لیول کے لوگوں کے کورٹ مارشل ہوئے ہیں، لیکن وہ شخصیات ہیں، اس میں پوری فوج کا قصور نہیں ہوتا۔ مارشل لاءتو ایوب خان نے لگایا تھا، باقی 6لاکھ لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے؟ اور پھر جو کچھ جنرل ضیاءالحق نے کیا تھا، فوج کب اُس کے ساتھ تھی؟ یا جو مشرف نے کیا فوج کب ساتھ تھی اُس کے۔ بلکہ مشرف پر تو فوج کی طرف سے کافی دباﺅ تھا، اس لیے ہماری لغت میں غدار کا لفظ ختم ہونا چاہیے !
بہرکیف یہ تو غدار کہنے کی باتیں تھیں، لیکن اس سے بڑھ کر ہم اس بات پر بھی شرمندہ ہیں کہ ہم آج تک کسی حوالے سے ترقی نہیں کر سکے، ہم معیشت میں انڈیا، بنگلہ دیش سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں، ہم عوام کو تعلیم، صحت، انصاف دینے سے قاصر رہے ہیں، پھر ہم شرمندہ ہیں کہ ہم مشرقی پاکستان کو کھو دیا، ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے سیاچن کو کھو دیا، ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے بڑے بڑے کیسز میں منہ چھپا لیا، ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے اصغر کیس کا کئی سال تک فیصلہ نہیں ہونے دیا، ہم شرمندہ ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅں کے شہدا کو آج تک سزا نہ ہوسکی، ہم شرمندہ ہیں کہ سانحہ ساہیوال کیس میں کسی کو سزا نہ ہو سکی ،ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے بھٹو جیسے لیڈر کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ، ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے قائداعظم کو صحیح علاج معالجہ نہ دے سکے ، ہم شرمندہ ہیں کہ بعض مقدمات میں تو عدالتیں رات 12بجے بھی کھل جاتی ہیں، مگر لاکھوں مقدمات کے فیصلے کئی کئی سال تک نہیں ہوتے، ہم شرمندہ ہیں کہ یہاں عدالتیں بھی چوروں، لٹیروں اور ڈاکوﺅں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ورنہ کسی کی کیا جرات کہ وہ ایک روپے کی بھی کرپشن کر سکے۔ ہم شرمندہ ہیں کہ کئی بے گناہ جیل میں ہی مر گئے، اور مرنے کے بعد اُن کی رہائی کے احکامات جاری ہوئے، ہم شرمندہ ہیں کہ یہاں 10روپے کی کرپشن کرنے والے آفیسر کی پروموشن نہیں ہو سکتی مگر کیا انصاف ہے کہ درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے والے کو بڑے سے بڑا وزیر بنا دیا جاتا ہے، مطلب جس پر جتنے زیادہ کیسز اُسے اُتنا بڑا عہدہ مل جاتا ہے۔ ہم شرمندہ ہیں کہ مسلم لیگ بھی وہ مسلم لیگ نہیں رہی، اب اس میں لٹیرے زیادہ ہو چکے ہیں، مطلب قائداعظم کی مسلم لیگ اب لٹیروں، چوروں اور سرمایہ داروں نے سنبھال لی ہے، جو جتنا پیسہ لگائے گا، اتنا ہی کمائے گا۔ پیپلزپارٹی بھی بھٹو کی پیپلزپارٹی نہیں رہی بلکہ وہاں ڈیلنگ کرنے والے بہترین دماغ بیٹھے ہیں، جنہیں نہ تو عوام سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی اُن کا عوامی مسائل سے کوئی لینا دینا۔