(تحریر:انجنئیر ظفر وٹو)
گوادر چائنہ کے “ون روڈ ۔ ون بیلٹ” جیسے جدید عالمی تجارتی راستے کا وہ صدر دروازہ ہے جس کے تالے کی کنجی گوادر سے چارسو کلومیٹر مشرق میں ہنگول نیشنل پارک کے قریب ہنگلاچ ماتا کے مندر میں پڑی ہوئی ہے۔ اس چابی سے وہ انقلابی واٹر وے کھلے گا جو ساحل مکران کی تمام بندرگاہوں اورماڑہ، پسنی ، گوادر اور جیونی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پینے کے صاف پانی کی قلت سے آزاد کرسکتا ہے۔
سی پیک کے منصوبہ سازوں کو پنجاب اور سندھ میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ بنانا تو یاد رہے لیکن سی پیک کی روح گوادر شہر کے باسیوں کے لئے پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی انسانی ضرورت کی فراہمی بھول گئی کہ جس کے بغیر کوئی شہر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ سی پیک منصوبہ ساز اتنی اہم جگہ کو نظرانداز کر گئے جس کا کھوج واپڈا کے انجنئیرز نے پچاس سال قبل لگا لیا تھا۔
گوادر میں اب مولانا ہدایت الرحمن کی “حقوق دو” تحریک اقتدار میں آچکی ہے جس کا ایک بنیادی مطالبہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی تھا لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔گوادر کی صاف پانی کی ضرورت کا تخمینہ 7MGD لگایا گیا ہے جو کہ اگلے چند برسوں میں دوگنا ہونے جا رہا ہے ۔مغرب کی مدد سے لگایا جانے والا سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا بنانے والا ڈی سیلی نیشن پلانٹ بھی ناکارہ پڑا ہے۔
گوادر شہر کو مستقل بنیادوں پر لمبے عرصے کے لئے اگر کہیں سے پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاسکتا ہے تو وہ صرف مجوزہ ہنگول ڈیم ہی ہے جو کہ گوادر کے مشرق میں تقریباً 400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ جگہ کراچی سے 250 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے اور کوسٹل ہائی وے پر اگھور نامی جگہ سے دریا کے پل سے تقریباً 16 کلومیٹر شمال میں ہنگول نیشنل پارک سے بھی آگے واقع ہے۔
ہنگول ڈیم پہلے پہل ضلع آواران کی تحصیل جھل جاؤ میں چند ہزار ایکڑ رقبے کو سیراب کرنے کے لئے سوچا گیا منصوبہ جس میں بعد ازاں بجلی بنانے کی صلاحیت بھی نظر آئی۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہاں سے سب سے بڑے شہر کراچی اور حتی کہ خلیجی ریاستوں کو پانی کی فراہمی کا بھی سوچا گیا لیکن یہ منصوبہ بوجوہ آگے نہ بڑھ سکا۔
ہنگول ڈیم کے موجودہ مجوزہ ڈیزائن میں اس سے 65 ہزار ایکڑ سیراب کرنے کا پلان ہے۔ تاہم دس لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ڈیم کے پانی کا سب سے قیمتی استعمال زراعت کی بجائے مکران کے تمام ساحلی علاقے میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہونا چاہئے۔
مجوزہ ہنگول ڈیم سے ساحل مکران کے اورماڑہ، پسنی، گوادر اور جیونی بندرگاہ کو ایک عام چھوٹی سی نہر سے قدرتی طور پر بنا بغیر کسی پمپنگ سے پانی پہنچانا ممکن ہے۔ یہ کام زمین کے اوپر یا زیر سمندر پائپ لائن بچھا کر بھی کیا جاسکتا ہے جس کی فزیبیلٹی چیک کرنا ہوگی۔
یہ ایک ایسا منصوبہ ہے کہ جس کو اگر مناسب طریقے سے پیش کیا جائے تو بیرون ملک پاکستانیوں کا کنسورشئئم یا کوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی PPP موڈ پر ایک دوسرے سے آگے بڑھ چڑھ کر کرنے کے لئے تیار ہوگی۔ حکومت وقت کا خرچہ بہت کم ہوگا اور فوائد سدا بہار ہوںگے۔
ذیل کے نقشے میں ہنگول ڈیم سے ساحل مکران خصوصا گوادر تک صاف پانی پہنچانے کے آسان ترین روٹ لگا دئے گئے ہیں۔
روٹ- 1 : عام سی چھوٹی نہر
یہ روٹ پیلی لائن سے ظاہر کیا گیا ہے مجوزہ گریویٹی نہر کو دکھا رہا ہے۔ یہ نہرسادہ ترین طریقے سے ملکی وسائل، مقامی میٹیرئیل اور لیبر سے بنائی جا سکتی ہے۔ یہ زیادہ تر راستے میں کوسٹل ہائی وے کے ساتھ ساتھ چلے گی سوائے کنڈ ملیر سے آگے تھوڑے پہاڑی علاقے میں ایک چھوٹی ٹنل بنانی پڑے گی یا پھر اس پہاڑی کا بائی پاس کرنے کے لئے سمندرکے نیچے پائپ لائن کا سٹنٹ ڈالنا پڑے گا جو کہ سبز رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے۔اس روٹ پر نہر کی بجائے زیر زمین پائپ بھی بچھایا جا سکتا ہے۔
روٹ۔ 2: سمندر کی تہہ میں پائپ لائن
یہ پائپ لائن کنڈ ملیر تک 20 کلومیٹر نہر والے روٹ پر چلے گی اور اس سے آگے سمندر کی تہہ میں پائپ لائن بچھائی جائے (جسے سبز اور سرخ کلر کی لائن سے دکھایا گیا ہے)۔ کراچی کو پانی کی فراہمی کے لئے ایک کمزور سی نیلی لائن بھی لگا دی ہے۔
ان راستوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے روٹ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کو پانی دیتے آگے بڑھیں گے۔ اورماڑہ کے پاس حال ہی میں مکمل ہونے والے بسول ڈیم کی جھیل کو بھی اس خوابی واٹر وے سے منسلک کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ساحلی پہاڑیوں سے سمندر میں بہنے والے پہاڑی نالوں کے پانی کو بھی رام کرکے اس واٹر وے سے منسلک کرنے کی کوئی ترتیب بنائی جاسکتی ہے۔
اس واٹر وے کی صلاحیت صرف 45 کیوسک (30MGD) تک ہوگئی جسے فیز 2 میں بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہنگول ڈیم اس سے دس گنا زیادہ پانی بلا روک ٹوک فراہم کرسکے گا جب کہ گوادر کی موجودہ پانی کی ڈیمانڈ 10MGD بھی نہیں۔
بعض لوگ اس واٹر وے کی 400 کلومیٹر لمبائی پر اعتراض کریں گے تو عرض ہے کہ کچھی کینال تونسہ بیراج سے 500 کلومیٹر دور ڈیرہ بگٹی اور کچھی کے میدانوں تک 6000 کیوسک پانی لانے کے لئے تعمیر ہوچکی ہے اور یہ سارا کام ہمارے مقامی انجنئیرز نے کیا ہے۔ اور اس کا روٹ کوسٹل واٹر وے سے کہیں زیادہ مشکل تھا جس میں تمام راستے میں دائیں طرف کوہ سلیمان سے آنے والے سیلابی نالوں کو کراس کرنا تھا۔
تربت میں تعمیر شدہ میرانی ڈیم گوادر سے صرف 150 کلومیٹر شمال مشرق میں ہے۔ تاہم اس ڈیم سے گوادر کو پانی کی فراہمی کا روٹ بہت مشکل ہے جس میں بہت زیادہ لمبی ٹنل یا سرنگیں تعمیر کرنا پڑتی ہیں۔ دوسرے میرانی ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہنگول ڈیم سے کہیں کم ہے جس کہ وجہ سے یہ ہنگول ڈیم سے زیادہ توجہ حاصل نہیں کر پاتا اور مہنگا منصوبہ لگتا ہے۔
ہنگول ڈیم کی تعمیر پر ہنگول نیشنل پارک اور ہنگلاچ ماتا کے مندر کے حوالے سے تحفظ ماحول تنظمیوں اور مقامی آبادی کو کچھ اعتراض تھے جنہیں دور کرنے کے لئے ہنگول ڈیم کو اپنی اصل جگہ سے 16 کلومیٹر شمال میں لے جایا گیا ہے تاکہ تمام لوگ مطمئن ہوں۔ تاہم اس عمل میں ہنگول ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت آدھی (دس لاکھ ایکڑ فٹ) رہ گئی ہے جو کہ پھر بھی ایک بہترین کیپیسٹی ہے۔
امید ہے فیصلہ ساز بلوچستان کے ساحل مکران کی پینے کے صاف پانی کی ترجیحات کو سمجھتے ہوئے ان خطوط پر ضرور سوچیں گے اورگوادر کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی ضرور ملے گا۔