سبز قمیض سرخ شلوار میں ملبوس وہ کتنی خوبصورت لگ رہی تھی۔اسکے گلے میں مضبوط سے دھاگے کے ساتھ بندھی ہوٸی ایک چابی تھی جو اسے ماں دی تھی یہ چابی گھر کے تمام خزانوں کی تھی لاڈ کی وجہ سے ماں نے اسے گھر میں رکھی اس صندوق کا مالک بنایا ہوا تھا جو کچے گھر کے ایک کونے میں رکھی ہوٸی تھی صبح کے وقت وہ قریبی مسجد سے قاعدہ پڑھ کر واپس آٸی تو ماں نے کہا کہ بیٹی گھر سے باہر دیکھو لوگوں کا شور ہے وہ باہر گٸی تو دیکھا کہ بستی کے لوگ بستی سے نکلنے کیلٸے بھاگ رہے ہیں اور پانی کا ایک ریلا اسکے گھر کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اس نے دوڑ کر ماں کو آکر بتایا تو اسکی ماں نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ بیٹی تم چھوٹے بھاٸی کا ہاتھ پکڑ کر سامنے والی سڑک کی طرف بھاگ جاٶ میں کچھ گھر کا ضروری سامان سمیٹ لوں چھوٹی سی گڑیا اور اپنی ماں کی شہزادی گھر سے باہر محفوظ مقام کی طرف نکلی تو پانی کیا تیز رفتار لہروں نے اسے دبوچ لیا وہ ماں کے نام پکارتی رہی مگر پانی اسے بے رحمی کے ساتھ بہالے گیا۔ادھر دیکھتے دیکھتے لمحوں میں وہ کچا گھر دھڑام سے گرا اور ملبہ پانی میں غاٸب ہوگیا