مفادات پر مبنی سیاست نے پاکستان کے معاشرے کو اخلاقی اقدار کا قبرستان بنا دیا ہے۔پاکستان کی سیاست میں بدتمیزی ، زبان درازی ،گالم گلوچ کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے اور المیہ یہ کہ سیاسی قیادت اس پر ندامت بھی محسوس نہیں کررہی۔سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی قیادت کے طرز کلام کو آئیڈیلائز کررہی ہے اور مخالفیں کو نیچا دکھانے کے ماردھاڑ سے لے کر بدکلامی تک ہر حربہ استعمال کررہی ہے۔حتی کہ متبرک اور مقدس ترین مقامات کی حرمت کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا، مدینہ پاک میں مسجد نبوی میں جو کچھ ہوا، اس نے مسلم دنیا میں پاکستانیوں کے سرشرم سے جھکا دیاہے،پاکستان کا پاسپورٹ رکھنے والے نام نہاد پاکستانیوں اور خود کو مسلمان کہنے والوں جو زبان استعمال کی اور جو حرکت کی، اس کا دفاع ممکن نہیں ہے۔پاکستان کو یہ دن بھی دیکھنے تھے ، جن لوگوں نے یہ قبیح حرکت کی ، انہوں نے اپنی عاقبت خراب کرلی۔
سیاسی بحث مباحثے میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور ہر گفتگوکا اختتام لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ پر ہوتا ہے، اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔بظاہر پڑھے لکھے،مہذب نظر آنے والے حضرات جب سیاست ، معاشرت یا فقہی معاملات پر بات کرتے ہیں تو ان کی ذہنی و علمیت سطحی نظر آتی ہے اور وہ اختلافات برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور فوری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہرحد سے گزر جاتے ہیں۔ یہ صورتحال ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ اس خطرناک روش کی وجہ سے سادہ لوح عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ہمارا معاشرہ ایسے موڑ کی طرف رواں دواں ہے جہاں اپنی بات کو سچ اور دوسرے کی بات کو جھوٹ سمجھا جاتا ہے جس کی روشن دلیل موجودہ سیاسی بحران ہے جس کی بنا پر کس کس طرح کے الزامات اور زبان استعمال کی جاتی ہے جس کا اثر برائے راست طور پر ہماری نوجوان نسل پر پڑتا ہے۔ہمارے ہاں لوگ ہر طرح کی معاشرتی و اخلاقی اقدارکو پامال کرتے ہوئے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کو نیچا دکھانے کے لیے گھٹیا پن کی آخری حدوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔حکمرانوں کے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ہم ایک انتہا پسند معاشرے کے طور پر جانے جا رہے ہیں۔پاکستان کی سیاست اور معاشرت نے ایسے زہریلے اور بدترین رویئے ماضی میں کبھی نہیں دیکھتے۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں سیاسی اختلافات آئین ، قانون اور معاشرتی اقدار کے اندر رہ کر ہوتے ہیں،سیاسی قیادت ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں اور اس میں کوئی بری بات نہیں ہے لیکن سیاسی قیادت ذاتی یا گروہی مفادات کے لیے اختلاف نہیں کرتی بلکہ ایک دوسرے کی غلط پالیسی کی نشاندہی کے لیے کیے جاتے ہیں تاکہ جہاں غلطی ہے ، اسے درست کرلیا جائے۔لیکن جب سیاسی اختلافات منتخب جمہوری اداروں کی حدود سے نکل کر سڑکوں اور بازاروں میں آجائیں، سیاسی حریف کو دشمن، ملک دشمن اور غدار کہہ کر مخاطب کیا جائے، زہریلے، نفرت اور اشتعال انگیز نعروں اور بیانئے کی حوصلہ افزائی کرکے کارکنوں کے جذبات سے کھیلا جائے اور انھیں اشتعال دلا کر اداروں اور مخالفین کے خلاف پراپیگنڈے اور جلاﺅگھیراوﺅکے لیے اکسایا جائے تاکہ ملک میں انارکی اور عدم استحکام پیدا ہوجائے تو یہ صورتحال جمہوری نظام کی بقا و استحکام کے لیے ہی نہیں بلکہ ریاست کی سالمیت کے لیے بھی خطرناک ہوجاتی اور اسے کسی طور بھی حب الوطنی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
جمہوریت میں اختلاف ہر جماعت کا بنیادی حق ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹا، غلیظ اور شرانگیز پراپیگنڈا کیا جائے، معاشرتی اقدار سے عار ہوکر گند اچھالا جائے۔ سیاسی رہنماو ¿ں سے ان کے کارکنان اور عوام بہت کچھ سیکھتے ہیں ، اس لیے سیاسی رہنماو ¿ں کو جلسے جلوسوں کے دوران تقریرکرتے ہوئے یا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی مخالفت میں ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، جس سے اشتعال اور عدم برداشت کی سوچ جنم لے۔اپنی گفتگو میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کے بجائے بہتر الفاظ کا چناو ¿ کر کے بھی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی فرد سے سیاسی اختلافات یا کسی بھی جماعت کی پالیسی کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے بہت سارے مہذب طریقے ہیں۔ کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنے رہنماو ¿ں اورکارکنوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو اور غیر شائستہ عمل کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور نہ ہی انہیں غیرقانونی کاموں پر اکسانا اور ہلہ شیری دینی چاہیے۔ ماضی میں ایسی صورت حال سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی گزر چکی ہیں ،یہ جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں ناقابل برداشت رویوں کے باعث دو دو مرتبہ اقتدار میں آنے کے باوجود ایک بار بھی آئینی مدت پوری نہیں کر پائی تھیں۔ البتہ میثاق جمہوریت پر آمادہ ہو کر اگلی دو ٹرمز میں پوری کرنے کے لیے ایک دوسرے کی ممد و معاون ثابت ہوئیں ، اگرچہ دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کے اقتدار میں فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سننے پڑے، مگر جمہوریت کے تسلسل کا پہیہ رواں دواں رہا۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف اور آج کی حکمران جماعتوں کے درمیان چپقلش بڑھ رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے غلطیاں دہرانے کی روش اپنا رکھی ہے جس کا ناقابل تلافی نقصان سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام کو اُٹھانا پڑے گا۔جمہوری معاشروں میں سیاسی رہنماو ¿ں کی جانب سے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالیں جس سے ان کی پیروی کرنے والے سیاسی کارکنوں میں اشتعال پھیلے ، اگر اس منفی رویے کا فوری سدباب نہ کیا گیا اور سیاسی مخالفت میں اشتعال انگیزی اور گالم گلوچ کی حوصلہ افزائی کی گئی تو معاملہ بڑھتے بڑھتے اس نہج پر پہنچ جائے گا جہاں اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ہمیں ان سیاسی رویوں کی فکرکرنی چاہیے جن سے ہماری نسل میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور ان میں سے اہم رویہ عدم برداشت ہے ، سیاسی بحث مباحثے میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور ہر گفتگوکا اختتام لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ پر ہوتا ہے، اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔
جو پارلیمان ریاست اور عوام کے مفادات ، ملکی سلامتی اور ترقی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں، وہاں ہمارے پارلیمنٹیرنز کیا گل کھلا رہے ہیں، وہ سب کچھ ٹی وی اسکرین پر دکھایا جارہا ہے اور اخبارات میں شایع ہورہا ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کے کرپشن اسکینڈلز اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور ٹی وی چینلز پر نشر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ شرمندہ ہونے کے بجائے مسکراتے چہروں کے ساتھ معاشرے میں اپنا سیاسی چورن بیچتے نظر آتے ہیں۔سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنا رکھے ہیں، یہ ونگز سوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کے رہنماو ¿ں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، حتی کے ملک کے اہم اداروں اور شخصیات کے حوالے سے شرانگیز پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اور سیاسی قیادت اس کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آرہی ہے۔ ملک کے باشعور لوگ ان غلط پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں توان کو بھی گالیوں اور بے عزتی کے ساتھ ساتھ دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف ہر جماعت کا بنیادی حق ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹا، غلیظ اور شرانگیز پراپیگنڈا کیا جائے،معاشرتی اقدار سے عار ہوکر گند اچھالا جائے۔سیاسیات کے اساتذہ ہوں، طالب علم ہوں، شاعر و ادیب ہوں یا سیاستدان ہوں ، سب یہ کہتے ہیں کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے ، اس سے ہی مسائل کا حل نکلتا ہے۔آمریت اسی لیے ناکام ہوتی ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی جب کہ جمہوری نظام اسی لیے قائم و دائم ہے کہ یہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں اختلاف رائے کے معنی مخالفت اور دشمنی لیے جارہے ہیں۔
اخلاقی زوال اور عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے جب تک ہم اپنی اخلاقیات کو درست نہیں کر لیتے اور اپنے رویوں مثبت تبدیلی نہیں لاتے ، تب تک ہم کبھی بھی دنیا کے مہذب معاشروں کی صف میں جگہ بنانے کے اہل نہیں ہو سکتے۔ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثال بنتے ہوئے اس کی شروعات کرنے کی سعی کرنی چاہیے جس میں میڈیا اور ملکی سیاستدان اپنے عمل سے معاشرے میں اس خطرناک رجحان کے خاتمہ کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے عدم برداشت کے رویوں کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کو بھی فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان کے پالیسی سازوں، اہل علم ، اساتذہ، ادباءو شعرا کو ان خطرناک ، نفرت انگیز اورمائنڈلیس سیاسی رویوں کی فکرکرنی چاہیے، ان رویوں کی وجہ سے پاکستان کی نوجوان نسل برباد ہورہی ہے ، اب اہل علم کو خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اصلاح کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اگر اس وقت تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو ریاست کے اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی قیادت کو ہے۔پاکستانی معاشرے کو تعلیم یافتہ انتہاپسندوں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے روشن خیال افراد کی ضرورت ہے، انہیں ایسا نصاب پڑھانے کی ضرورت ہے ، جسے پڑھ کر ان میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثال بنتے ہوئے اس کی شروعات کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔
[email protected]