روزنامہ آج کل میں "رفیق کار” رہے برادرم خالد قمر سے بات کرتے ڈیڑھ دہائی پہلے کی کتنی ہی دلکش یادیں نقش خیال پر ابھر آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب خالد چودھری اور جناب تنویر عباس نقوی کی محبتیں اور مہربانیاں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وفائوں اور بے وفائیوں کا ایک باب بھی کھل گیا۔۔۔۔۔۔رانا صاحب اخلاص سے مزین ایک خوب صورت آدمی ہیں۔۔۔۔۔ان سے پیار اور ایثار کی باتیں کرتے مجھے جناب راجہ اورنگزیب کے صاحب زادے محمد عبداللہ کا جناب شفقت تنویر مرزا بارے سنایا ایثار کا ایک واقعہ یاد آگیا۔۔۔۔شفقت صاحب عبداللہ کے پھوپھا بھی تھے۔۔۔ہوا یوں کہ ایک اخبار انتظامیہ نے شفقت صاحب پر شفقت فرمائی اور ان کی تنخواہ بڑھا دی۔۔۔۔انہوں نے جواب میں کمال شفقت سے لکھ بھیجا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے۔۔۔۔۔میرا گزارہ ہو رہا ہے۔۔۔ہمارے فلاں رفیق کار کی تین بیٹیاں ہیں۔۔۔۔۔میری جگہ ان کی تنخواہ بڑھا دیجیے اور پھر یہی ہوا ۔۔۔۔۔تنویر عباس نقوی بھی ایسے ہی تھے۔۔۔۔۔بانٹ کر کھانے والے بلکہ اپنا حصہ بھی چھوڑ دینے والے۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے خالد قمر سے کہا کہ کہاں شفقت صاحب۔۔۔۔نقوی صاحب۔۔۔۔راجہ صاحب ایسے بڑے لوگ اور کہاں ہم لیکن ہماری خوش بختی کہ ہم ان کے حلقہ احباب میں تھے۔۔۔میں نے بھی رانا صاحب سے ایک واقعہ شئیر کیا جو آپ کے بھی پیش خدمت ہے۔۔۔۔۔لاہور پریس کلب کی سیاست میں آج کل محترمہ ناصرہ عتیق کے سیاسی مشیر جناب طارق مغل "روزنامہ آج کل” میں سٹی پیج پر میرے کو انچارج تھے۔۔۔۔۔وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔۔۔۔جناب احسن ظہیر خبریں میں نیوز ایڈیٹر اور ڈیسک انچارج جبکہ میں سنئیر سب ایڈیٹر اور کو انچارج کے منصب پر تھا۔۔۔۔۔ہم اکٹھے روزنامہ آج کل چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نقوی صاحب مجھے کہنے لگے کہ آپ چیف نیوز ایڈیٹر جناب عامر ندیم کے ساتھ مین ڈیسک پر بطور نیوز ایڈیٹر کام کریں۔۔۔۔میں نے دست بستہ گزارش کی کہ "سیدی” احسن صاحب خبریں میں نیوز ایڈیٹر تھے۔۔۔۔۔میرا ضمیر گوارہ نہیں کرتا کہ ان کی موجودگی میں یہ منصب قبول کروں۔۔۔میرے نزدیک یہ کسی سنئیر کی توہین کے مترادف ہے۔۔۔۔۔۔۔کہنے لگے دیکھ لیں "ڈیزیگنیشن” کے ساتھ ساتھ پانچ دس ہزار کا سیلری کٹ بھی لگے گا۔۔۔۔۔۔میں تین بار قبول کہہ کر بڑے منصب اور بڑی تنخواہ سے دستبردار ہو گیا تو وہ طارق صاحب کہنے لگے کہ اپنے یار کو سمجھائیں۔۔۔پھر طارق صاحب مجھے بتاتے کہ نقوی صاحب اکثر یہ بات دہراتے کہ عجب آدمی یے۔۔۔۔۔۔۔ نقصان بھی کر لیا اور ملال بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔یہاں تو لوگ منصب اور پیسے کے لیے دوسروں کو گراتے اپنے آپ کو گھٹیا پن کی حد تک گرالیتے ہیں۔۔۔۔۔میں طارق مغل کو سرگوشی کرتا کہ موصوف خود بھی ایسے ہی ایثار کیش ہیں مگر کھلتے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جب ادارہ چھوڑ جانے کے بعد نقوی صاحب کے ایثار کی کہانی کھلی تو جناب طاہر پرویز بٹ سمیت سب رو دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بٹ صاحب تو آج تک ان کے ذکر پر غمگین اور آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔جناب شفقت تنویر مرزا۔۔۔۔جناب تنویر عباس نقوی اور جناب راجہ اورنگزیب صحافت کے نگینے تھے۔۔۔۔۔کہاں چلے ایسے نگینے لوگ۔۔۔!!!