یہودیوں کی جدید تاریخ میں اشکنازیوں کا کردار اہم ترین ہے ۔ اشکنازیوں نے ہی سازش کرکے سب سے پہلے بینک آف انگلینڈ قائم کیا اور پھر اس کے ذریعے انقلابات اور جنگوں کا جال بچھا کر پوری دنیا پر قبضہ کیا ۔ فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا ، بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ ، اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کا قیام ، انقلاب فرانس ، انقلاب روس اور امریکا میں سول وار سمیت تمام کارنامے ان ہی اشکنازیوں کے ہیں ۔ اشکنازیوں کی تشکیل میں اہم ترین کردار خازارز (Khazars) کا ہے ۔ خازارز وسط ایشیا کے رہنے والے تاتار تھے دیگر منگولوں کی طرح ان کا مذہب بھی تنگری (Tengrism ) تھا ۔ یہ نیم خانہ بدوش قبائل تھے ۔ حالات سے تنگ آ کر آٹھویں صدی عیسوی میں انہوں نے مشرقی یورپ کی طرف سفر شروع کیا ۔ یہ نقل مکانی دنیا کی طویل ترین مسافت پر مبنی ہے جو شمالی چین سے شروع ہوکر وسطی یورپ تک پہنچی ۔ خانہ بدوشوں منگولوں نے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر کیا اور اپنی بادشاہتیں قائم کیں ۔ تاہم اپنی کوئی تہذیب نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ہر سامنے والے کا مذہب اختیار کیا اور ہر مذہب کا ہر مسلک بھی اختیار کیا ۔ انہوں نے اسلام ، یہودیت ، عیسائیت ، کنفیو شیس ازم اور کمیونزم بھی اختیار کیا ۔ مسلمان ہونے کے بعد یہ کٹر سنی بھی ہوئے اور شیعہ بھی ۔ چین کے ہن (Hun ) یہی منگول ہیں ۔ ترکی کے سلجوق ، تیمور لنگ ، برصغیر کی مغل سلطنت یہی منگول تھے تو افغانستان کےشیعہ ہزارہ بھی یہی منگول ہیں ۔
وسط ایشیا سے سفر کرتے ہوئے جب یہ خازار یوکرین کی سرحد پر پہنچے اور یہاں قیام کے دوران انہیں سب سے بڑا مسئلہ سلامتی کا پیش آیا۔ ایک طرف بازنطینی عیسائی حکومت تھی تو دوسری طرف مسلم عباسی حکومت تھی ۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر مسلسل حملہ آور تھے ۔ انہوں نے دیکھا کہ یہودی سب سے زیادہ مزے میں ہیں کہ ان کے دونوں سے دوستانہ تعلقات ہیں اور یہ ان سے کاروباری معاملات کے ذریعے دونوں طرف سے مال سمیٹ رہے ہیں ۔ اسے دیکھ کر یہ خازار بھی یہودی ہوگئے اور پھر انہوں نے یہاں پر کاروبار میں اتنا عروج حاصل کیا کہ خازاریہ سلطنت وجود میں آگئی جو تیرہویں صدی تک قائم رہی ۔ خازاریہ سلطنت روس کے یورپی حصے ، جنوبی یوکرین ، کریمیا اور قازقستان پر مشتمل تھی ۔ خازاریہ سلطنت ایک کاروباری مملکت تھی جو مشرق و مغرب سے تجارت کے ذریعے خوب دولت کما رہی تھی ۔ چونکہ نہ یہ عیسائی تھے اور نہ مسلمان ،ا س لیے غیر جانبداری کا لیبل لگا کر خوب مزے کررہے تھے ۔ یہیں سے یہ خازار پہلے پولینڈ اور پھر جرمن میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد یہ فرانس اور برطانیہ پہنچے اور پھر بینک آف انگلینڈ کے قیام کے بعد امریکا سمیت پوری دنیا پر چھا گئے ۔
اس وقت دنیا پر حکمراں خاندان روتھس شیلڈ ہے ۔ اسی خاندان نے 1948 سے قبل ہی فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیاں بسانی شروع کردی تھیں ۔ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قیام کے پیچھے بھی یہی خاندان تھا ۔ یہ سب خازار ہیں ۔ آپ کسی بھی قابل ذکر اشکنازی خاندان کی تاریخ کھنگالیں ، اس کا ماضی کا تعلق جرمنی سے ضرور نکلے گا ۔ ان سب کا یہودیت سے تو ضرور تعلق ہے مگر بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے
چونکہ ان خازارز کا قلبی تعلق یروشلم سے وہ نہیں ہے جو عربی یہودیوں یا مزراہیوں کا ہے تو ان کے معاملات بھی مختلف ہیں ۔ خازاریہ کے خاتمے کے بعد یہ منگول یہودی یورپ اور رو س میں رہ رہے تھے ۔ ان کی فطرت میں اپنی میزبان حکومت کے خلاف سازشیں کرنا تھا جس کی وجہ سے ہر جگہ انہیں ایک مخصوص باڑے تک محدود کردیا گیا ۔ ان لوگوں نے اور ان کے آباء و اجداد نے نہ تو کبھی فلسطین کی شکل دیکھی تھی اور نہ ہی انہیں وہاں کا کچھ اندازہ تھا ۔ ان کے ربی انہیں جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر ان کا مورال بلند رکھتے کہ تم اللہ کی پسندیدہ اور چنیدہ قوم ہو ۔ جلد ہی اللہ کی مدد آن پہنچے گی اور تم پھر سے دنیا کے حکمراں ہوگے ۔ یہ یروشلم کے بارے میں گیت گاتے جس میں آبشاروں ، باغات اور کھیتوں کھلیانوں کا رومان آمیز تذکرہ ہوتا ۔ یہ گیت ان کے دلوں کو مقناطیسی قوت سے جکڑتے اور انہیں اڑ کر فلسطین پہنچنے کی مہمیز دیتے ۔ اور جب یہ کسی طرح یروشلم کی یاترا کو نکلتے اور راستے کی مشکلات و صعوبتیں اٹھاتے ہوئے فلسطین پہنچتے تو جھلستی ہوئی زمین ان کے خواب ریزہ ریزہ کردیتی ۔ ربیوں کے سنائے ہوئے گیت سن کر وہ سمجھتے کہ فلسطین کے پہاڑوں میں جنت پوشیدہ ہے ۔ لیکن جب وہ ان خشک چٹیل پہاڑوں پر مارے مارے پھرتے ، مقدس اردن ، کوہ موریا، یروشلم میں ہیکل کا مقام نبیوں کے مزارات ، صہیون کا دروازہ اور حضرت سلیمان کی نہر وغیرہ وغیرہ دیکھتے تو ان کے خواب دھجیاں بن کر بکھر جاتے ۔ ان کے خوابوں کے برعکس یروشلم عملی طور پر بھکاریوں ، کوڑھیوں ، معذوروں اور میلے کچیلے بچوں کی سرزمین تھا۔ اس سے تو یورپ و روس کے باڑوں کی تنگ و تاریک گلیاں اور چھوٹے چھوٹے دڑبے ہی بہتر تھے ۔
جب یہ ربیوں کو آکر بے نقط سناتے تو ربی انہیں دلاسے دیتے کہ ہم داود و سلیمان کی اولاد ہیں ۔ یہ ویرانی ہمیں دھوکا نہیں دے سکتی ، ہم اسے یہود کا وطن بنائیں گے اور صحراوں کو گلزار کردیں گے ۔
یہاں پر ایک سوال اور ابھرتا ہے کہ جب خازار بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں تو پھر انہیں گم گشتہ ارض فلسطین کی کیا فکر ہے ۔ یہ تو ان کا خواب ہے جو یہاں سے بے دخل کیے گئے ۔ اس کے جواب میں خازار یہ کہتے ہیں کہ یہودیت اختیار کرنے کے بعد ا ب وہ بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں ۔ یہ سوال بار بار اٹھنے کے بعد اب اشکنازیوں نے تاریخ کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم لوگ منگول نہیں ہیں بلکہ عرب اور شمالی افریقا سے مشرقی یورپ گئے تھے ۔ پھر وہاں سے جرمنی اور فرانس و برطانیہ پہنچے ۔
یہودیوں کی کہانی جاری ہے ۔ بقیہ گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔