اصل یہودی تو لبنان ، مصر و شام وغیرہ کے رہنے والے تھے ۔ اشکنازی ( قدیم عبرانی میں جرمن ) اور سفاردی (قدیم عبرانی میں ہسپانیہ ) تو وہ یہودی ہیں جنہوں نے بعد میں یہودی مذہب اختیار کیا تھا ۔ لبنان و مصر کے رہنے والے اصل یہودیوں کو پہلے عرب یہودی یا Hebrew کہا جاتا تھا تاہم اب ان کا نام تبدیل کرکے مزراہی Mizrahi کردیا گیا ہے ۔ مزراہی یا عربی یہودی مزاجی اور ثقافتی طور پر اشکنازی اور سفاردی یہودیوں سے یکسر مختلف ہیں ۔ یہ عمومی طور پر نرم خو ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تک اپنے آبائی پیشے یعنی زراعت اور چرواہے سے منسلک تھے ۔ موجودہ یہودی تشکیل میں ان کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں اور عملی طور پر یہ اقلیت میں ڈھل چکے ہیں ۔
عمومی طور پر یہودیوں کے یہ تینوں نسلی طبقے ایک دوسرے میں شادی بیاہ اور دیگر تعلقات سے گریز کرتے رہے ہیں ۔ ان کی ترجیح آپس میں ہی شادی بیاہ رہی ہے ۔ تاہم اب اس میں شعوری طور پر تبدیلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اشکنازی ، سفاردی اور مزراہیوں میں آپس میں شادی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ۔ جس کی وجہ سے ان تینوں گروپوں میں اختلافات مرنے مارنے کی سطح سے گر کر قبولیت کے درجے پر آتے جارہے ہیں ۔ ان گروپوں میں آپس میں شادیاں کروانے کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں میں کچھ ایسی بیماریاں پھیل گئی ہیں جو دیگر مذاہب کے لوگوں میں نہیں ہیں ۔
ان میں سرفہرست گوشے (Gaucher) کی بیماری ہے ۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے ۔ اس کی تین اقسام ہیں جن میں جگر درست طریقے سے کام نہیں کرتا ، ناک اور دیگر جگہوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے ۔ اس میں اعصاب بھی درست طریقے سے کام نہیں کرتے ۔ دنیا بھر میں اس کا تناسب نوزائیدہ بچوں میں 41 ہزار بچوں میں سے ایک ہے مگر اشکنازی یہودیوں میں یہ تناسب دس میں سے ایک ہے ۔ یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر دسواں بچہ اس بیماری میں مبتلا ہے ۔
اشکنازی یہودیوں میں دوسری عام جینیاتی بیماری Cystic Fibrosis یعنی رسولیوں کا بننا ہے ۔ اس میں ان کے نظام ہاضمہ اور پھیپھڑوں میں بننے والا بلغم گاڑھا ہونا شروع ہوجاتا ہے جو دیگر اندرونی اعضا کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے ۔ اس کے دیگر اثرات میں مردانہ بانجھ پن بھی شامل ہے ۔ یہ بیماری یہودیوں کی وجہ سے امریکا میں سفید فام جوڑوں میں عام بیماری تصور کی جاتی ہے جبکہ ایشیائی اور افریقی تارکین وطن میں یہ بیماری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس کے باوجود امریکی سفید فام آبادی میں اس کا تناسب ساڑھے تین ہزار نوزائیدہ بچوں میں ایک ہے ۔ جبکہ اشکنازی یہودیوں میں اس کا تناسب 24 میں ایک ہے ۔یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر 24 واں بچہ اس بیماری کا شکار ہے
اشکنازی یہودیوں میں تیسری جینیاتی بیماری Tay-Sachs ہے ۔ اس بیماری میں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے سیل خرابی کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے ۔ عمومی طور پر یہ بیماری عام نہیں ہے اور اس کے شکار بچے کا دنیا بھر میں تناسب دو لاکھ بچوں میں سے ایک ہے ۔ یعنی زندہ نوزائیدہ بچوں میں سے ہر دو لاکھ بچوںمیں سے ایک بچہ اس کا شکار ہوتا ہے ۔ اشکنازی یہودیوں میں اس کا تناسب 27 میں سے ایک ہے ۔ یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر زندہ 27 واں بچہ اس بیماری کا شکار ہے ۔
اشکنازی یہودیوں میں چوتھی جینیاتی بیماری Familial Dysautonomia ہے ۔ اس بیماری میں اعصابی نظام میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں اور یہ autonomic nervous system میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس سے ان کے اعصابی نظام کے اس حصے میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے جو بلڈ پریشر ، دل کے دھڑکنے کی شرح اور نظام ہاضمہ کو کنٹرول کرتا ہے ۔ یہ بیماری اتنی کم ہے کہ اس کے اعداد و شمار مجھے نہیں مل سکے کہ دنیا بھر میں نوزائیدہ بچوںمیں اس کی شرح کیا ہے مگر اشکنازی یہودیوں میں اس کی شرح 31 میں ایک ہے ۔ یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر 31 واں زندہ بچہ اس بیماری کا شکار ہے ۔
اشکنازی یہودیوں میں پانچویں عام جینیاتی بیماری Spinal Muscular Atrophy ہے ۔ اس بیماری کی کئی اقسام ہیں جن میں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود اعصابی سیل جنہیں موٹر نیورون کہا جاتا ہے ، کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ یہی موٹر نیورون سیل ہی عضلات کی حرکت کو کنٹرول کرتےہیں ۔ اس کا تناسب دنیا بھر میں دس ہزار نوزائیدہ زندہ بچوں میں ایک ہے ۔ اشکنازی یہودیوں میں یہ تناسب 41 میں ایک ہے ۔ یعنی اشکنازی یہودیوں میں پیدا ہونے والا ہر 41 واں زندہ بچہ اس جینیاتی بیماری کا شکار ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ سفاردی یہودی یا مزراہی یہودی مکمل صحت مند ہیں اور انہیں کوئی جینیاتی بیماری ہے ہی نہیں تاہم ان میں یہ تناسب اتنا نہیں ہے ، جتنا اشکنازیوں میں ہے ۔ مثال کے طور پر Familial Mediterranean Fever ہر دو سو میں سے ایک سفاردی یہودی کا اپنا شکار بنا لیتا ہے جبکہ ہر تین میں سے ایک سفاردی یہودی اس کا کیریئر ہے ۔ G6PD Deficiency کا شکار دنیا بھر میں چالیس کروڑ افراد ہیں مگر کرد سفاردی یہودیوں میں اس کا تناسب انتہائی زیادہ ہے اور 65 فیصد مرد کرد سفاردی یہودی اس کا شکار ہیں ۔ اسی طرح شمالی افریقا سے تعلق رکھنے والے مزراہی یہودیوں کی بڑی تعداد Glycogen Storage Disease type III کا شکار ہے ۔ یہودیوں کے بڑے پیمانے پر جینیاتی بیماریوں کا شکار ہونے کی وجہ سے یہ بیماریاں عرف عام میں Jewish Genetic Disorder کے نام سے ہی معروف ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ اشکنازی یہودی صرف ان ہی پانچ جینیاتی بیماریوں کا شکار ہیں یا سفاردی اور مزراہی مذکورہ بالا ان خاص بیماریوں کا کیریئر ہیں ۔ یہ فہرست خاصی طویل ہے ۔ چونکہ اس آرٹیکل کا یہ موضوع نہیں ہے ، اس لیے اس کا تذکرہ مختصر رکھا ہے ۔
جدید دنیا کے یہودیوں کی کہانی جاری ہے ۔ اس پر مزید گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔