اسرائیل کی غزہ میں تازہ جارحیت کے بعد اسرائیل اور یہودیوں میں ایک عام آدمی کی دلچسپی بڑھ گئی ہے ۔ اب لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔ ایک عام آدمی اسرائیل کے بارے میں بس اتنا ہی جانتا ہے کہ یہ یہودیوں کی ایک مملکت ہے ۔ ان کے نزدیک اسرائیل میں یہودی رہتے ہیں جو ایک متحد قوم ہیں اور یہ سارے لوگ انتہائی مذہبی اور جنونی ہیں ۔ مگر ایسا ہے نہیں ۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ یہودی نہ تو ایک جان ہیں اور نہ ہی متحد ۔ ان کے درمیان تفریق و تقسیم ہے ۔ یہ تقسیم طبقاتی و مسلکی بنیادوں پر بھی ہے اور نسلی بنیادوں پر بھی ۔
پہلے یہودیوں کی تقسیم دیکھتے ہیں ۔ اس کے بعد اسرائیلی مملکت کے تار و پور پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور پھر اس کے بعد اس امر پر غور کرتے ہیں کہ پوری امت مسلمہ کی شدید ترین خواہش کے باوجود اب تک مسئلہ فلسطین حل ہو کر کیوں نہیں دے رہا ۔
سب سے پہلے یہودیوں کی نسلی تقسیم دیکھتے ہیں ۔ یہودی فطری طور پر ایک سازشی قوم ہے ۔ یہ وہ سانپ ہیں جو انہیں دودھ پلاتا ہے ، یہ اسے ہی ڈستے ہیں ۔ اس کی بہترین مثال سلطنت عثمانیہ ہے ۔ پورے یورپ میں عیسائیوں نے ان کا ناطقہ بند کرکے رکھا ۔ انہیں عثمانی سلسطنت کے علاوہ کہیں جائے پناہ نہیں ملی مگر جیسے ہی انہیں موقع ملا تو انہوں نے سب سے پہلے سلطنت عثمانیہ ہی کا خاتمہ کیا ۔ اقوام کو قابو کرنے کے لیے منشیات ، الکحل ، فحاشی ، کرپشن اور پراپیگنڈہ ان کے آلات کار ہیں تو ممالک اور حکومتوں کو کنٹرول کرنےکے لیے یہ قرض اور سود کا سہارا لیتے ہیں ۔ جو ان کے قابو میں نہ آئے ، اسے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھا دیتے ہیں یا پھر ان ملکوں میں خانہ جنگی پھوٹ پڑتی ہے
اسپین میں جب مسلمانوں کا عروج تھا تو یہاں کے یہودی اپنی انفرادی خوشحالی کے باعث پولینڈ، جرمنی ، فرانس ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں بسے یہودیوں کے مقابلے میں بہت آگے نکل گئے ۔ اسپین کے یہودیوں نے دیگر یہودیوں کو حقیر سمجھنا شروع کردیا اور اپنے آپ کو سفاردیم اور دیگر کو اشکنازی کہنا شروع کردیا ۔ بظاہر یہ تقسیم تہذیبی نظر آتی ہے مگر اس پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ایسا ہے نہیں جیسا کہ یہودی بتاتے ہیں
یہودی چونکہ فطری طور پر سازشی ہیں ، اس لیے ان کے ہاں راز کی انتہائی اہمیت ہے ۔ ان کے ہاں کی مشہور کہاوت ہے کہ "راز کی بات کسی دوست سے بھی نہ کہو کہ اس کا کوئی اور دوست ہوگا اور اس دوست کا کوئی اور دوست "۔ یہودیوں نے گزشتہ آٹھ سو برسوں میں یورپ میں شدید ترین ابتلا کا دور دیکھا ہے ۔ چونکہ یہ قانون فطرت ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اس لیے اس ممکنہ ردعمل کے نتیجے میں کسی بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ تقسیم اختیار کی ۔اسپین کے یہودی چونکہ اس وقت یہودی قوم کی رہنمائی کررہے تھے اور انہوں نے پورے یورپ کو مطیع و فرمانبردار کرنے کے لیے سازشوں کا جال بچھایا ہوا تھا اس لیے انہوں نے یہودیوں کے اس گروہ سے علیحدگی اختیار کی جس کی وفاداری مشتبہ ہوسکتی تھی اور وہ دباو میں آسکتے تھے ۔ دیکھنے میں اشکنازی اور سفاردی دونوں گروہوں میں ہر لحاظ سے بہت بڑا فرق ہے اور یہ دونوں شاخیں علیحدہ علیحدہ پروان چڑھیں مگر یہ دونوں گروہ پس منظر میں ایک دوسرے کے سیاسی و مادی پشتیبان اس طرح سے رہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی
سفاردیوں کی زبان ہسپانوی اور لاطینی زبان کی آمیزش شدہ زبان ہے جو لادی (Ladino ) کہلاتی ہے ۔ اشکنازیوں کی زبان جرمن اور لاطینی زبانوں کا مرکب ہے جو ہدش (Yidish) کہلاتی ہے ۔اشکنازیوں اور سفاردیوں کی صرف زبان ہی مختلف نہیں ہے بلکہ بتدریج مسلک بھی مختلف ہوتے چلے گئے ، ان کا رہن سہن ، رسوم و رواج ، تہوار اور دیگر چیزیں بھی ایک دوسرے سے خاصی حد تک مختلف ہیں ۔
ابتدا میں سفاردی عروج پر تھے تو نامور مفکرین ، فلسفیوں ، اطباء ، تجار ، سیاست دانوں اور بااثر افراد کا تعلق ان سے ہی تھا ۔ بعد میں اشکنازیوں نے بھی ترقی شروع کی ۔ خاص طور سے روتھس شیلڈ خاندان کے عروج پر آنے کے بعد سے ۔ اس وقت یہودیوں پر غالب گروہ اشکنازی ہی ہے اور اب وہ سفاردیوں کو ہیچ سمجھتے ہیں ۔
دیکھنے میں سفاردی اور اشکنازی ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں ۔ تاہم اگر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ این جی اوز کی طرح انہوں نے کام کی تقسیم مقرر کررکھی اور دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں نہ صرف سرگرم عمل ہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون بھی ۔ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت نہ کرنے کے اصول پر عمل پیرا ہیں
کام کی نئی تقسیم کے بعد سے سفاردی یہودی عالمی تحریکات اور سازشوں میں ملوث نہیں ہوتے ۔ یہ اشکنازیوں کا دائرہ کار ہے ۔ سفاردی یہودی چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک تلمود و تورات کا ہر حرف ایمان کا حصہ ہے جسے آسمانی قدروں کے ساتھ مکمل کرنا ان پر فرض ہے ۔ ان کے مقابلے میں اشکنازی یہودی یورپ کے علم و افکار ، نمود و نمائش اور جدیدیت سے متاثر ہیں ۔ گویا یہ ایک تقسیم کار ہے جس کے تحت اشکنازیوں کو حکومت ، درس گاہوں ، کام کی جگہوں پر کام کرنا تھا اور قابو میں لانا تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے عشرت کدوں اور فحاشی و عریانی کا سہارا لیا جبکہ سفاردیوں کو یہواہ کی بادشاہت کے قیام کے لیے دنیا بھر کے غیر یہودیوں پر کام کرکے انہیں قدموں تلے جھکانا تھا ۔
یہودیوں کی کہانی جاری ہے ۔ بقیہ گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے