محترم انور سن رائےکی آج سالگرہ ہے،
صحافت کامعتبرنام رفعت کردار، مزاج کاقلندر،آئینہ اخلاق ،ظرف کاسمندر،پاکستان کی صحافت کاانمول ہیرا،قلم کاسچاسپاہی، کراچی سےٹوٹ کرپیار کرنےوالااس شہرکابیٹا، افلاس کاراہی، مشکل تریں چیلنجزکوقبول کرنےکی کرشمہ سازشخصیت، روایتوں کاامین، اپنےموقف پرڈٹ جانےوالا،پاکستانی صحافت کا پارس۔ کیاکیالکھوں مٹبت خطابات کاذخیرہ دم توڑنےلگےگامگرمیرےسکہ بندکردارکےدیوتا،میرے استاد، میرے محسن کی خوبیاں پھر بھی ہمالیہ سےاونچی رہیں گی آج کراچی کی صحافت کے اس مردقلندر کی سالگرہ ہے مبارک ہوسرجی
میراان کاساتھ 1993 سے ہے، نہیں بلکہ یہ درست ہوگا کہ کہوں؟ انہوں نے ایک مہربان استاد کی حیثیت سے 28 برس قبل انگلی پکڑ کر کراچی میں مجھ جیسے نالائق کوچلنا سکھایا ان کے احسانات میرے جسم کےبالوں سے کہیں زیادہ ہیں مجھ پر مگر ظرف ایساکہ اپنی ساری بھلائیاں پس پشت ڈال کےمیرے ایک فرض کو شاگردوں کی بھری محفل میں گنوانے بیٹھ گئے اور میں ندامت سے زمیں میں گڑا جارہاتھا اورمیری یادداشت تیزی سے زیرگردش ماضی کے اوراق پلٹ رہی تھی روزنامہ پبلک میں ان کی ادارت میں گزرے 3 برس کی فلم چل رہی تھی کیسے وہ ہماری نالائکیوں پرپردے ڈالتے ہماری کامیابیوں کی خاطر ہمارے راستے کے کانٹے چنتے قدم بہ قدم ہماری رہنمائی کرتے بھٹکنے سے بچاتے شکایات اور ناکامیاں اپنے سرلے لیتے اور اپنےہنر ہمارے کھاتے میں ڈال دیتے پھر بھی ظرف ایساکہ…. یہ غالباً قبل از 2 برس کاقصہ ہے صبح آنکھ کھلی تو میسج دیکھا خبریں گروپ کے سابق ایڈیٹر میاں طارق جاوید” کی خواہش تھی کہ روزنامہ پبلک کی پرانی یادیں تازہ کی جائیں” اور اس کے لئے مشترکہ استاد محترم انور سن رائے کی سالگرہ کا دن زیادہ مناسب رہے گا جس میں دو روز کا وقفہ تھا ابھی ناشتہ کی میز پر تھا کہ صحافیوں کے لیڈر جاوید چودھری کا فون آگیا استاد کی سالگرہ سب مل کر کراچی پریس کلب میں مناتے ہیں یوں بات پکی ہوگئی انتظامی ذمہ داری مینے سنبھالی تو دوستوں نے انور صاحب کو راضی کرنے کا فرض بھی مجھے سونپ دیا اور یوں 13نومبر کو آج ہی کے دن نجیبی ٹیرس پرشام 6 بجے یہ محفل سج گئی جس کے دولھا استاد محترم تھے وہ ہمیشہ سے بالوں میں بزرگی کے ساتھ شفیق چہرے مدھم لہجہ میں ہم سب بونوں کے قد اونچے کرنے کی کوشش ایک بار پھر دھرارہے تھے یہی ان کا ایسا وصف ہے جو وقت کے ساتھ ان کی شخصیت کو نکھار رہاہے اور ہرگزرتے برس ہم ان کی ان اچھائیوں کو یوں محسوس کرتے ہیں جیسے رگوں میں دوڑتے خون کی گردش وہ آج بھی اپنے مخصوص مدھم لہجہ میں ایک ایک شاگرد کی وہ خوبیاں بیان کرہے تھے جو ہمیں کبھی ایک دوسرے میں نظر نہیں آئیں اور میری آنکھوں کے گرد وہ لمحات زیر گردش تھے جب مرحوم نجیب احمد سہیل افضل اور محترم محمد علی خالد مجھے سکھر سے بلاکر انور صاحب کے گھر لے گئے میں قومی اخبار سے فراغت کے بعد گھر بیٹھاتھا اور مجھے مصروف رکھنے کے لئے ڈان کے سکھرسے نمائندے شمیم شمسی مرحوم ان کے چھوٹے بھائی دی نیوز کے وسیم شمشی اور جنگ کے علی اختر جعفری نے کچھ صحافتی ذمہ داریاں سونپی ہوئی تھیں جس کا وہ معقول معاوضہ بھی مجھے دیتے تھے یوں میرا وقت اچھا کٹ رہاتھا 1990 کی دہائی میں محترمہ بے نظیر کی حکومت گراکر وزارت عظمی کی مسند پر نواز شریف کو متمکن کردیا گیا تھا اور پھر نوازشریف جب اپنے آپ کو سچ مچ کاوزیر اعظم سمجھ بیٹھے تو ان کی مشکیں کس نے کو محترمہ کو سگنل دیدیاگیا اور یہیں سے اس کھیل کی ابتدا ہوئی جس نے آج ہماری معیشت کو دیوالیہ کی دہلیز پر لاکھڑا کیاہے بہرصورت محترمہ نے بھی نواز حکومت سے وہی سلوک کرنے جو انہوں نے بے نظیر حکومت سے کیاتھا ٹرین مارچ کااعلان کردیا میرے باس شمیم شمسی اور استاد علی اخترجعفری اعلی پایہ کے صحافی ہونے کے ساتھ کاروباری بھی تھے وہ معاشی طورپر صرف صحافتی تنخواہ پرگزارہ کرنے والوں میں سے نہیں تھے شمیم شمسی اسلحہ کے کاروبار سے وابستہ تھے اور ان کی سکھر میں فریئرروڈ پر اسلحہ کی 3 دوکانیں تھیں جبکہ اختر جعفری کی ان کے برابر چشموں کی سکھر کی سب سے مشہور دوکان تھی اس لئے یہ لوگ جزوقتی صحافت کرتے تھے جبکہ کل وقتی صحافت کے لئے مجھے رکھا ہواتھا محترمہ کے ٹرین مارچ کی رپورٹنگ کے لئے ان کی ہدایت پر میں ہی لاہور اور پھر پنڈی تک گیاتھا اور اس ٹرین مارچ میں خبریں کی نمائندگی کے لئے آئے نجیب احمد سے راستہ میں ہوئی ملاقات طویل سفر میں دوستی میں بدل گئی وہاں سے واپس آئے چند دنوں بعد ہی نجیب بھائی کی میرے گھر کے نمبر پر کال موصول ہوئی کہ کراچی پہنچوں جہاں سے ایک نئے اخبار کا اجرا ہوا چاہتاہے اور یوں ہم نجیب بھائی، سہیل افضل اور محمد علی خالد کے ہمراہ سندھ اسمبلی سے متصل انور سن رائے صاحب کے گھر پہنچے انہوں نے کسی قسم کاتردد کیے بغیر فورن ہی مجھے نہ صرف سکھر سے بیوروچیف نامزد کردیا بلکہ 2000 ہزار ماہانہ تنخواہ کی بھی خوش خبری سنائی جبکہ ان دنوں ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے جنگ اور ڈان بھی اپنے بیورو چیفس کو تنخواہ نہیں دیتے تھے وہ خبروں کی ماہانہ ناپ تول کے ساتھ ادائیگی کرتے تھے اس طرح سرکاری ادارے اے پی پی کے علاوہ نجی شعبہ کا میں سکھر کا وہ پہلا صحافی تھا جو نہ صرف ماہانہ تنخواہ حاصل کرنے لگاتھا بلکہ 3 مختلف جگہوں سے 6000 ہزار ماہانہ تنخواہ حاصل کرکے ایک نیاریکارڈ بھی بنارہاتھا ایک سال بعد ہی میرے محترم ایڈیٹر انور سن رائے نے پبلک کے مالک انقلاب ماتری کی موجودگی میں کہاکہ ہمارے صوبے میں 3 بیورو ہیں حیدراباد سکھر اور میرپورخاص اب تک کی کارکردگی میں سکھرسب سے آگے ہے اور ہمیں کراچی کے لیے ایک پولیٹیکل رپورٹر کی ضرورت ہے یوں مجھے کراچی منتقل ہونے اوربحیثیت پولیٹیکل بیٹ کے اسٹاف رپورٹرکام کرنے کی پیشکش کی گئی جس کے ساتھ ہی مجھے اپنی جیب سے 5000 ہزار دے کر کہا کہ کراچی میں موٹر سائکل کے بغیر رپورٹنگ بہت مشکل ہے ادارہ کے کارکن اور مکینک اشرف مسیح کو بلاکر اس کی ذمہ داری لگائی کہ مجھے کوئی سستی موٹر سائکل دلائے اور یوں ہم 3 روز کی خواری کے بعد بالآخر ایک یاماہا ٹریل خریدنے میں کامیاب ہوگئے جس پر اگلے کئی برس کامیاب رپوٹنگ کرکے عزت و شہرت حاصل کی اب آپ ہی سوچیں اگرمجھے وہ 5000 ہزار دے کر موٹر سائکل نہ دلاتے تو کیا آج اس مقام پر ہوتا مگر مجال ہے کبھی وہ اپنے ہونٹوں پر اس کاذکر لائے ہوں الٹا ہماری وہ خوبیاں جو ہم میں ہیں ہی نہیں بیان کرکے ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں ان کی اعلی ظرفی جو 42 سالہ صحافت میں کسی اور میں نہیں پائی بھی جان لیں، میرمرتضی بھٹو کے قتل اور ان کی یکے بعد دیگرے 2 ایف آئی آر کے اندراج کی رپورٹنگ میں ہم چھکے پر چھکہ ماررہے تھے کہ ایک بڑی غلطی سرزد ہوگئی نامزد قاتل پولیس افسران کی فہرست میں ایک ملزم کے متعلق سورس نے رپورٹ دی کہ وہ فرار ہوکرترکی پہنچ گیاہے سازش ایسی تیار کی گئی تھی کہ ترکی کانمبر اور ملزم سے ہیلو ہائے کی حدتک بات بھی کروادی ملزم اس نمائندے کانام سن کر فون بند کرگیا اور خبر فائل ہوگئی صبح سنگل کالم صفہ اول پرخبر چھپی تو ملزم کراچی کی خصوصی عدالت میں پیش ہوگیا بڑی سبکی ہوئی دن بھر شرمندہ اور نوکری جانے کے خوف میں گزرا شام کو ڈرتے ڈرتے شرمندہ سا دفتر پہنچا کہ اپنی معطلی کاپروانہ تو لے لوں مگر وہاں صورت حال کو بالکل نارمل پاکر ایڈیٹر کے کمرے کی طرف کن اکھیوں سے دیکھا تو شیشے کے کمرے سے انہوں نے بھی اپنے مخصوص انداز میں چشمہ اتارتے ہوے مجھ پر اچٹتی نظرڈالی اور پھر چشمہ لگاکر اپنے کام میں مشغول ہوگئے میرا حوصلہ ندامت پرحاوی ہونے لگا اور میں اپنی کرسی کھینچ کرخبریں بنانے لگ گیا خبریں فائل کرکے تذبذب میں تھا کہ ایڈیٹر کے کمرے میں جائوں یانہیں کہ انور صاحب نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور آواز دےکر مجھے بلالیا لیکن حیرت انگیز طورپر ان کے لہجہ کی روائتی مٹھاس اور ہونٹوں پر ہروقت کھیلتی مسکراہٹ جوں کی توں برقرار تھی مجھے روبرو بٹھاکر کہا میر شکیل الرحمان کہتے تھے غلطی اس سے ہوتی ہے جو کام کرتاہے آپ نے پورے واقعہ کی بہت اچھی رپورٹنگ کی غلطی کا ایسے واقعات میں امکان رہتاہے مگر کمال یہ ہوگا کہ تم رفتار اور بڑھادو جن لوگوں نے یہ سازش کی وہ تمھارے ہی نہیں ادارے کے بھی دشمن ہیں انہیں نیچا دکھائو اور آخری کامیابی حاصل کرکے انہیں ناکام بنادو،”” ہے کوئی اور ایسا ایڈیٹر "”میں ان کے کمرے سے نکل رہا تھاتو نیا عزم اور ولولہ میرا بہترین ہتھیار بن چکےتھے-