مدینہ منورہ میں مقیم اعتدال پسند عالم دین جناب ڈاکٹر احمد علی سراج بھی ہمارے لیے قابل صد احترام ہیں کہ برس ہا برس سے گنبد خضرا کی چھائوں میں بیٹھے ہیں۔۔۔۔مدینہ منورہ کا "روحانی نظام”اتنا خاص ہےکہ وہاں”مدینہ مزاج” خالص لوگ ہی” ٹھہر”سکتے ہیں کہ
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدو بایزید ایں جا
ڈاکٹرصاحب بھی انہی چیدہ اور چنیدہ لوگوں میں سے ہیں۔۔۔۔میں انہیں "فقیر مدینہ”کہتا ہوں کہ وہ جہاں جاتے "صدائے مدینہ” لگاتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ صداگری بھی ایک عطا ہے کہ مدینہ کے تو "گداگر” بھی”عام” نہیں ہوتے۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب شیخ الحدیث مولانا سراج الدین کے فرزند ارجمند ہیں جنہیں برسوں پہلے مدینہ منورہ میں ایک "خاص سندیسہ” ملا۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب کو بھی صحابہ کی بستی جنت البقیع میں آسودہ خاک شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی کے نواسے مولانا شاہد صاحب سہارن پوری نے مدینہ منورہ میں ہی ایک "خوش خبری” دی تھی۔۔۔۔۔۔دو ہزار چودہ کہ بات ہے کہ شہر رسول میں مولانا عبدالحفیظ مکی کے بھتیجے کے گھر ایک مجلس کے دوران مکی صاحب نے مولانا شاہد حسین سے ڈاکٹر احمد علی سراج کا تعارف کرایا کہ یہ ہمارے ڈاکٹر صاحب ہیں۔۔۔۔کویت کی "زرق برق”چھوڑ کر مدینہ منورہ کوچ کر آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا شاہد حسین نے مکی صاحب کی بات سنی اور "مدنی لہجے”میں کہا کہ اللہ کریم ڈاکٹر صاحب کا انجام بخیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔!!!
اب مولانا سراج الدین کے نام "خاص سندیسہ” بھی سن لیجیے۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر احمد علی سراج بتاتے ہیں کہ والد گرامی مولانا سراج الدین ساٹھ کی دہائی میں حج پر گئے۔۔۔۔پاکستان سے قافلہ چلا تو انہوں نے "حاجی کوڑو” نامی ہم سفر کو "خزانہ دار "بنادیا اور نصیحت کی کہ پیسے خرچ کرنے ہیں لیکن گتھلی کھول کر نہیں دیکھنی۔۔۔۔حاجی کوڑو نے مکہ مکرمہ تک تو بات یاد رکھی لیکن مدینہ منورہ جا کر نصیحت بھول گئے۔۔۔۔۔ایک دن سرائے میں بیٹھے گتھلی کھول دیکھی تو گھبرا گئے کہ زاد راہ تو ختم ہونے کو ہے۔۔۔۔۔ گھبرائے ہوئے مولانا سراج الدین کے پاس آئے اور حال دل کہا اور پوچھا اب کیا ہوگا؟؟مولانا نے کہا کہ جن کے مہمان ہیں وہی جانیں۔۔۔۔اگلی شب کسی عرب نے سرائے میں دستک دی اور پوچھا مولانا سراج کہاں ہیں؟وہ مولانا صاحب کو ایک طرف لے گئے اور ایک تھیلی پیش کی۔۔۔۔۔مولانا سراج نے ٹال مٹول کی تو عرب نے کہا کہ لے لیجیے کہ مجھے وہاں سے حکم ملا جہاں آپ نے رجوع کیا تھا۔۔۔۔۔وپی بات جو قدرت اللہ شہاب نے کسی دوست کو کہی تھی کہ بھلا مدینہ میں بھی کوئی اجنبی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ضیوف الرسول کا واقعی یہی مقام اور اکرام طے ہے۔۔۔۔۔میری خوش بختی کہ ڈاکٹر احمد علی سراج سمیت علمائے حرمین شریفین سے میرا تعلق بھی مدینہ منورہ کے تعلق سے جڑا ہے۔۔۔۔۔2006میں عمرہ کے دوران روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے وقت اشکبار آنکھوں کے ساتھ کریم آقا کا واسطہ دیکر عرضی پیش کی یا اللہ کریم۔۔۔۔۔بد اعمال سا اخبار نویس ہوں۔۔۔۔۔۔۔بس ایک گذارش ہے کہ مجھے اپنے آخری نبی کی ختم نبوت کے چوکیداروں کی فہرست میں شامل کرلیجیے۔۔۔۔۔واپسی پر ہر درخواست قبول ہوگئی لیکن اس دعا کی قبولیت کے کیا کہنے۔۔۔۔۔کہہ لیں کمال ہی ہو گیا۔۔۔۔۔اگلے سالوں میں انٹر نیشنل ختم نبوت کے بانی امیر جناب مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب۔۔۔۔۔۔نائب امیر (اب امیر) ڈاکٹر سعید عنایت اللہ۔۔۔۔۔۔سیکرٹری جنرل ڈاکٹر احمد علی سراج۔۔۔۔ شیخ حرم کعبہ مولانا مکی حجازی اور مدرس مسجد نبوی قاری بشیر احمد صدیق حیران کن طور پر لائن اپ ہو گئے۔۔۔۔۔ایک سے بڑھ کر ایک مہربان۔۔۔۔۔۔حسن اتفاق دیکھیے کہ ڈاکٹر احمد علی سراج سے پہلی ملاقات دو ہزار سات آٹھ میں شیرانوالہ لاہور میں شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کے مرکز پر ہوئی۔۔۔۔اسی دن مولانا سمیع الحق سے بھی پہلی مرتبہ ملا ۔۔۔۔۔۔پھر یہ پہلی ملاقات محبت میں بدل گئی۔۔۔۔اتنی محبت کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب کی "خاتون دوم "کو شک پڑگیا کہ ",یہ کون” آپ کے پیچھے پڑگیا ہے۔۔۔۔۔تب ڈاکٹر صاحب کویت میں ہواکرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں کی وزارت اوقاف کے مقبول ترین خطیب اور کویت بینک کے اعلی عہدیدار۔۔۔۔۔وہ کویت اسلامی بینک کے بانی ممبر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ریڈیو کویت اور کویت ٹائمز میں دینی محاذ پر بھی ان کا طوطی بولتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کویت میں مقیم ہمارے مہربان حاجی مقصود بتاتے ہیں کہ آج بھی ریڈیو کویت کی صبح کا آغاز ڈاکٹر صاحب کی دلنشین آواز سے ہوتا یے۔۔۔۔۔دو ہزار گیارہ کی بات ہے کہ ایک دن دفتر بیٹھے ایک "رفیق کار’نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے کہیں کہ لاہور کی صحافی کالونی میں مسجد ہی بنوادیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔بات کو دل کو لگی اور میں نے اسی وقت کویت وقت کے مطابق رات بجے انہیں دل کی بات کہہ دی۔۔۔۔کہنے لگے نو پرابلم۔۔۔۔۔۔۔یہاں کی ایک بڑی کمپنی کے مینجر حاجی رمضان میرے دوست ہیں۔۔۔۔وہ آپ کے پاس آئینگے۔۔۔۔ان کو بریف کردیجیے گا۔۔۔۔۔۔۔۔سمجھیے مسجد بن گئی۔۔۔میں "اسی پراجیکث” کے فالواپ میں انہیں ہفتے میں دو تین مرتبہ رات کے بارہ بجے کال کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عین اسی وقت فون نے معاملہ مشکوک بنادیا کہ” یہ کون” ہے جو ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ہوتا۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ جب معاملہ کھلا تو معاملہ اور دلچسپ ہو گیا۔۔۔۔پھر رات بارہ بجے چاہے کسی کا بھی فون ہوتا تو بیگم صاحبہ اسے” انڈر سٹوڈ "سمجھتیں اور گھنٹی بجتے ہی کہہ دیتیں کہ امجد عثمانی کی کال آرہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح ایک مرتبہ نوشین نقوی نے بار بار فون اٹینڈ نہ ہونے پر تنگ آمد بجنگ آمد”جملہ” پھینکا کہ اپنے موبائل میں میرا نام بھی ڈاکٹر کے نام سے لکھ لیں تاکہ بات ہو سکے۔۔۔۔۔۔ایسا "ادبی وار "تنویر عباس کی بہن ہی کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔خیر پھر صحافی کالونی کی عالی شان مسجد حمیدہ کو تعبیر مل گئی۔۔۔۔مسجد کا سنگ بنیاد جناب سرمد بشیر اور جناب اعظم چودھری جبکہ افتتاح جناب ارشد انصاری اور جناب افضال طالب کے ساتھ کیا۔۔۔۔۔ڈاکٹر احمد علی سراج کی زیر نگرانی یہ لاہور کی وہ مسجد ہے جس کا اساسی دستور رول ماڈل ہے۔۔۔۔جس کے پہلے دو نکات میں ہے کہ اس مسجد میں نماز اور اذان کا وہ نظام رائج ہوگا جو مسجد الحرام بیت اللہ اور مسجد نبوی میں ہے۔۔۔۔جہاں ایک متعین امام کے پیچھے ہر کوئی اپنے طریقے سے نماز ادا کرسکتا ہے۔۔۔۔۔یہ وہی دستور ہے جس کے ایک ایک نکتے نے کئی دن راتیں اپنے نام کیں۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ کب احساس کرتے ہیں کہ ہر روشن پیش منظر کا ایک طویل پس منظر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔بہر حال لاہور پریس کلب نے بھی ڈاکٹر صاحب کا پورا اکرام کیا اور ان کی دینی خدمات کے صلے میں ان کو اعزازی لائف ممبر شپ دی جو پاکستان میں شاید ہی کسی عالم دین کے حصے میں آئی ہو۔۔۔۔۔۔لاہور پریس کلب میں ہی بیٹھے ایک دن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ پنجابی کے سربراہ پروفیسر کلیان سنگھ کلیان نے اسی مسجد حمیدہ کے بارے وہ گواہی دی کہ دل شاد اور روح سرشار ہو گئی۔۔۔۔۔۔سنئیر صحافی جناب خالد منہاس کے ساتھ بیٹھے میں نے پروفیسر صاحب کو کرتار پور کے اپنے دہائی پہلے کے دلچسپ وزٹ کے بارے بتایا کہ تب کرتار پور ایک جنگل بیابان کا منظر پیش کر رہا تھا اور "امن راہداری” کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ میں مدینہ منورہ میں مقیم نامور اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کے ساتھ ایک "سیرت کانفرنس”میں شرکت کے لیے شکرگرھ جا رہا تھا۔۔۔۔۔دوپہر کے کھانے کے لیے نارووال رکے تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ بین المذاہب ہم آہنگی کے بھی داعی ہیں۔۔۔۔کیوں نہ آپ کو گوردوارہ ڈیرہ صاحب کرتارپور دکھائیں جہاں بابا گورونانک ابدی نیند سو رہے ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کیوں نہیں ضرور چلتے ہیں۔۔۔۔میں نے نارووال شہر کے اکلوتے دانشور اخبار نویس بزرگوارم ملک سعید الحق کو فون کیا۔۔۔۔۔یہ وہ ملک سعید الحق ہیں جنہیں اپنے عہد کے بڑے کالم نگار جناب رفیق ڈوگر نے”چن پیر کا وہابی مرید”قرار دیا تھا۔۔۔۔خیر ملک صاحب نے کرتار پور کے نگران سکھ دوست کو فون کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر پہنچے تو سکھ منتظمین ہمیں دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔۔۔۔۔۔ ہمارا پرتپاک استقبال اورخوب آئو بھگت کی ۔۔۔۔۔گپ شپ کے دوران چائے آگئی۔۔۔۔۔۔ہمارے ساتھ دو "ملاں”بھی تھے۔۔۔۔چاہت بھری چائے دیکھ کر ناجانے دونوں حضرات کو کیا ہوا کہ وہاں سے
” کھسک” گئے؟ڈاکٹر صاحب نے سیرت کے بہتیرے حوالے دیے کہ بھائی چائے لے لیں کچھ نہیں ہوتا مگر وہ چٹان کی طرح "ڈٹ” گئے۔۔۔۔۔۔۔میں نے استفسار کیا شیخ خلوص بھری دعوت کو ٹھکرانا اسلام کی کون سی خدمت ہے؟ڈاکٹر احمد علی سراج نے سرد آہ بھری اور کہا کہ ایسے لوگ اسلام کے مہکتے گلستان میں پھولوں کے ساتھ” کانٹے” ہیں۔۔۔۔۔میں نے پروفیسر کلیان سنگھ کلیان کو بتایا کہ یہ وہی ڈاکٹر احمد علی سراج ہیں جنہوں نے لاہور کی صحافی کالونی کے لیے آئیڈیل جامع مسجد اور قرآن سنٹر کا تحفہ دیا اور وہ اس "دینی پراجیکٹ”کے منتظم اعلی ہیں۔۔۔۔۔۔صحافی کالونی کی مسجد کا ذکر سنتے ہی پروفیسر صاحب بولے کہ ہم بھی ادھر ہی رہائش پذیر ہیں۔۔۔۔کہنے لگے میں تو اس مسجد کی اپنی یونیورسٹی میں بھی اکثر مثال دیتا ہوں کہ یہ ایک رول ماڈل مسجد ہے۔۔۔۔۔۔۔ شاید ہی لاہور میں ایسی کوئی مسجد ہو کہ جہاں تمام مکاتب فکر ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب کی اعتدال پسندی کا ایک اور واقعہ سنیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔قہقہے بکھیرنے والے منفرد ایڈیٹر جناب تنویر عباس نقوی ڈاکٹر احمد علی سراج کے بڑے قدردان تھے۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب بھی آج تک نقوی صاحب کی وہ عقیدت نہیں بھولتے کہ جب وہ میری غیر موجودگی میں انہیں لینے خود دفتر سے باہر تک آئے اور ان کا پرتپاک استقبال کیا۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر احمد علی سراج ان دنوں ریڈیو کویت پر مقبول عام پروگرام اور کویت ٹائمز کے ساتھ سے ہمارے اخبار کے جمعہ ایڈیشن کیلئے بھی خوب صورت دینی مضامین لکھا کرتے تھے۔۔۔۔۔نقوی صاحب ان کے ہر مضمون کی ایک ایک سطر پڑھتے اور داد دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج کل لندن میں مقیم روزنامہ آج کل کی ہماری ایک دبنگ خاتون رپورٹر گونیلا حسنین روزانہ کسی نہ کسی دن کی مناسبت سے سپیشل رپورٹ فائل کیا کرتی تھیں۔۔۔۔ایک دن پتہ نہیں وہ کہاں سے” kiss day” بھی نکال لائیں۔۔۔۔۔۔۔نقوی صاحب کہنے لگے سٹی پیج پر” اینکر” چھاپیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اینکر سٹوری ہم لوئر ہاف میں بیس پر بڑی خبر کو کہتے تھے۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی بولے اس پر کسی عالم دین کا ردعمل بھی لے لیں کہ کہیں صبح ہنگامہ نہ کھڑا ہو جائے ۔۔۔۔۔میں نے ڈاکٹر احمد علی سراج کو فون ملایا کہ قبلہ کیا کہتے ہیں آپ بیچ اس "مسئلے” کے۔۔۔۔۔۔پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی بینکاری میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر احمد علی سراج نے سوال سنا، مسکرائے اور کہا میرے پیارے بھائی کوئی مسئلہ نہیں ہم اس مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں۔۔۔۔ہم "kiss day”کو "یوم بوسہ "کہہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔تو جہاں تک بوسے کا تعلق ہے تو پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ماتھا چومتے….اپنے نواسوں حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے بوسے لیتے….صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنے بچوں سے اسی انداز میں پیار کرتے….میت کے ماتھے کا بوسہ بھی مسنون ہے….رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی پیشانی کو ایسے غمناک طریقے سے چوما کہ آپ کے آنسو مبارک موتیوں کی طرح ان کے رخسار پر گر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔شوہر بیوی اور بیوی شوہر کا بوسہ لے سکتی ہے….والدین بچوں اور بہن بھائی ایک دوسرے کا منہ ماتھا چوم سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عرب کلچر میں اب بھی معانقہ کرتے گردن کا بوسہ لیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔خلاصہ کلام یہ کہ شرعی حدود کا خیال کرتے ہوئے جائز بوسہ تو بہت ہی مستحسن عمل ہے۔۔۔۔۔میں نے ڈاکٹر احمد علی سراج کا” مدلل نقطہ نظر” نقوی صاحب کے سامنے رکھا تو وہ جھوم اٹھے اور کہا یہ ہوتا ہے اسلامی سکالر۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب میرے پاس ہوتے تو ان کے ہاتھ چومتا۔۔۔گھٹنے چھوتا۔۔۔۔!!ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ کی طرح "غیر درباری” اور ڈاکٹر احمد علی سراج ایسے "بردبار”علمائے کرام واقعی اس قابل ہیں کہ ان کے ہاتھ چومیں اور گھٹنے چھوئے جائیں۔۔۔!!!!