کہا گیا کہ جیسے ہی افغانوں پر کریک ڈاون کیا گیا ، پاکستان میں روپے کی قدر مستحکم ہوگئی ۔ اس پر میں پہلے بھی بہت تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ یہ صرف کتابی باتیں ہیں کہ طلب اور رسد کرنسی کی قدر کا تعین کرتی ہیں ۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ مرکزی بینک ہوتا ہے جو اپنے آقاوں کی ہدایت پر کرنسی کی قدر کا تعین کرتا ہے۔ اس پر بھی میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ دنیا کے سارے ہی مرکزی بینک جس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی شامل ہیں ، سب نجی ہیں اور چند خاندانوں کی ملکیت ہیں ۔ یہ بات بھی ہم گزشتہ آرٹیکل میں دیکھ چکے ہیں کہ اسمگلنگ کی روک تھام میں سرحدی محافظین ہی واحد کردار ہیں ۔ آج سے دو ماہ قبل بھی یہی سارے لوگ سرحد پر موجود تھے ، تب کیوں اور کیسے اسمگلنگ ہورہی تھی اور اب کیسے رک گئی ہے ۔ یہ سب محض دکھاوا ہے ۔ یہاں تک تو واضح ہے کہ افغانیوں کے پاکستان سے انخلا کے لیے جو کچھ بھی وجوہات بتائی گئی ہیں ، ان میں جان نہیں ہے ۔ وجوہات کچھ اور ہیں ۔ ان پر گفتگو آخر میں ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ افغانوں کے اس طرح انخلا کے پاکستان پر کیا نتائج مرتب ہوں گے ۔
افغانستان دنیا کے ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے جس کی آبادی میں نوجوانوں کی شرح بلند ترین ہے ۔ اس کے 24 برس سے کم عمر کی آبادی مجموعی آبادی کے ساٹھ فیصد کے قریب ہے ۔ یہ بہت اہم بات ہے ۔ یعنی افغانستان کے 30 برس یا اس سے کم عمر کے لوگ وہ ہیں جو یا تو افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد پیدا ہوئے یا انہوں نے ہوش سنبھالا ۔ انہیں وہ تاریخ یاد ہے جو امریکا نے انہیں پڑھائی ۔ افغانستان کے دفاع میں پاکستان کے کردار اور افغانوں کی مہمان نوازی سے یہ یکسر ناواقف ہیں ۔ انہیں تو امریکی اور بھارتی اسباق یاد ہیں جو اس عرصے میں افغا ن میڈیا اور تعلیمی اداروں میں انہیں رٹائے گئے ۔ امریکی قبضے کے بعد سے ہی افغانستان پر بھارتی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ۔ انہوں نے وہاں کا نصاب بھی تبدیل کیا اور اساتذہ پر بھی خاصی محنت کی ۔ انہیں خصوصی طور پر مختلف پروگراموں کے تحت بھارت میں تربیت کے لیے لایا گیا ۔ خود افغانستان کے اندر بھارت نے بہت محنت کی ۔ بھارت کی ساری محنت ، سارے پروجیکٹ جنوبی افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پشتون بیلٹ میں تھے ۔ اس کا اسے یہ فائدہ ہوا کہ اسے پاکستان کو دوسری جانب سے گھیرنے کا موقع ملا اور اسے اپنے ایجنٹ بنانے کا موقع ملا ۔
اس وقت افغانستان میں نئی نسل میں عمومی طورپر پاکستان کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے ۔ طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آتے ہی جب میں افغانستان رپورٹنگ کے لیے گیا تھا توکابل میں آئے ہوئے مختلف افغان مہاجرین سے بات کرتے وقت ہمیں کئی مرتبہ اپنے آپ کو بھارتی ظاہر کرنا پڑا ، ورنہ وہ بات کرنے پر راضی نہیں ہوتے تھے ۔ اشرف غنی کے دور حکومت میں تو پاکستانی سفارتخانے کے لوگ کابل کے چند علاقوں تک ہی محدود تھے ۔ ان پر نفرت انگیز حملے ہوتے تھے ۔
دوسری جانب امریکا اور بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنے ایجنٹوں کو بھر پور طریقے سے منظم کیا بلکہ انہیں اسلحہ اور بھاری رقوم بھی مہیا کیں ۔ امریکا افغانستان میں داعش کی پھانس گاڑ کر گیا ہے ۔ یہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ پہلے افغان ضلع ننگر ہار میں جس کا صدر مقام جلال آباد ہے ، میں ہی سب سے زیادہ منظم ہیں ۔ بھارت آج بھی افغان کرکٹ ٹیم کا مالی بوجھ اٹھاتا ہے ۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کی توجہ اس کی مشرقی سرحدوں پر ہی مرکوز نہ رہے بلکہ اسے مغربی سرحدوں پر بھی الجھا کر رکھا جائے ۔ نہ صرف سرحدوں کے اندر الجھا کر رکھا جائے بلکہ اسے اندرونی محاذوں پر بھی مصروف رکھا جائے ۔
نیٹو کے جو آٹھ ہزار کنٹینر افغانستان جاتے ہوئے پاکستان میں مشکوک طریقے سے غائب ہوئے تھے ، اب وہ بال و پر لانے لگے ہیں ۔ خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں پاکستانی فوجی چوکیوں پر حملے میں یہی جدید امریکی اسلحہ استعمال ہورہا ہے ۔ اس وقت جب یہ کنٹینر مسلسل غائب ہورہے تھے ، تو بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس پر ذمہ داروں نے آنکھ ، ناک ، کان سب بوجوہ بند کیے ہوئے تھے اور انہوں نے عملی طور پر سہولت کاروں کا کردار ادا کیا ۔آپ کسی سے سوال کریں کہ اب ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے ۔ وہ یہی کہے گا کہ پاکستان دوست افغانوں کو سامنے لایا جائے تاکہ وہ پاکستان دشمن افغانوں کے اثر کو ذائل کرسکیں۔مگر ہم کیا کررہے ہیں ؟ گزشتہ کئی برسوں سے ہم نے اپنے دشمنوں کی فہرست تبدیل کردی ہے ۔ 1947 سے لے کر کئی برس پہلے تک پاکستان کا دشمن بھارت تھا ۔ چند برسوں سے سرکاری بیانات میں پاکستان کے دشمن افغانستان اور ایران ہیں ۔ بلوچستان حکومت کا کل کا ہی بیان دیکھ لیں ۔ پاکستان کے یہی دو دشمن ہیں سرکار کی نظر میں ۔ اب تک ہمیں صرف اور صرف بھارت کے ساتھ ملی ہوئی سرحد کی فکر تھی ۔افغانستان سے ہونے والی کسی بھی در اندازی سے یہیں کے قبائلی نمٹ لیا کرتے تھے ۔ پھر ہم نے کیا کیا ۔ پہلے ہم نے ان علاقوں میں کرائے کے جنگجووں کی نرسری قائم کی ۔ جب وہ بے قابو ہونے لگے تو ان کی سرکوبی کے لیے ریگولر آرمی کو تعینات کیا ۔ جب اس ریگولر آرمی پر حملے ہونےلگے تو ہم نے صفائی کے نام پر کئی آپریشن کر ڈالے اور جو عمائدین پاکستان کے حامی تھے ، ان کے ساتھ بھی وہ سلوک کیا کہ ان کے دل بھی کھٹے ہوگئے ۔
اب عملی صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا ہماری اپنی کوششوں کی وجہ سے ہمارے اپنے لیے نو گو ایریا بنتے جارہے ہیں ۔ یہ صورتحال توہے امن و امان کی ۔ اس کے معاشی پہلو پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔