گو کہ حکومت پاکستان نے 31 اکتوبر پاکستان سے ان افغانیوں کے ملک سے رضاکارانہ طور پر جانے کے لیے آخری تاریخ رکھی تھی ، جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے لیے قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں تاہم اکتوبر کے مہینوں میں ہی پولیس نے شکار شروع کردیا تھا اور بلا تخصیص قانونی و غیرقانونی ، افغانیوں کو پکڑ کر ان سے بھاری رشوت کی وصولی کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ نومبر شروع ہوتے ہی اب اس سلسلے میں تیزی آگئی ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زاید افغانی واپس اپنے ملک میں جاچکے ہیں ۔ اچانک افغانیوں کے انخلا کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ملک میں اسٹریٹ کرائم اور دہشت گردی کی شرح بہت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ افغانی ہیں ۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ افغانی پاکستان سے بھاری تعداد میں ڈالر خرید کر افغانستان اسمگلنگ کررہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر و روپے کی شرح تبادلہ بھی بے قابو ہو گئی تھی ۔ جب سے افغانیوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا گیا ہے ، امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی مضبوط ہوئی ہے ۔ یہ سب کچھ سرکار اور مین اسٹریم میڈیا کا بیانیہ ہے جو میں نے عرض کیا ہے ۔ پہلا منطقی سوال تو یہی ہے کہ کیا سب کچھ ایسا ہی ہے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس پالیسی کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ افغانیوں کے انخلا کی پالیسی اچانک نہیں بنا لی گئی بلکہ اس کے لیے مہینوں پہلے گراونڈ تیا ر کرنا شروع کردیا گیا تھا ۔ باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز اور پوسٹیں اپ لوڈ کرنی شروع کردی گئی تھیں جس میں بتایا جاتا تھا کہ غیر مقامی افراد چوریاں کررہے ہیں ، ڈکیتی کررہے ہیں ۔ سرکار کی طرف سے روز بیان آتے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افراد افغانستان سے کارروائیاں کررہے ہیں ۔ اس کے بعد اچانک نگراں حکومت نے 31 اکتوبر تک افغانیوں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا ۔ نگراں حکومت کو صرف اور صرف روز مرہ کے کاموں کو چلانے کااختیار حاصل ہے ۔ اس طرح کے اقدامات جس سے ملک پر دور رس اثرات مرتب ہوں ۔ وہ نگراں حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں کیا گیا بلکہ اس کی پیش بندی پہلے سے کی جارہی تھی اور اس کے لیے باقاعدہ ماحول سازی کی گئی ۔ جس کے بعد نگراں حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے یہ کام شروع کیا ۔
سب سے پہلے تو اس الزام کو دیکھتے ہیں کہ افغانی اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانی جرائم کررہے تھے ، یہ organized crime اور non organized crime دونوں میں ہی ملوث ہیں ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف افغانی ہی ان جرائم میں ملوث ہیں یا جتنے بھی افغانی ہیں ، وہ سب کے سب ہی جرائم پیشہ ہیں ۔ اس میں ہر رنگ و نسل اور ہر علاقے کے لوگ شامل ہیں ۔ ایک بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جرم جو بھی کررہا ہو ، وہ اس وقت تک survive نہیں کرسکتا جب تک ملک کی کوئی ایجنسی یا پولیس اس کی مددگار و پشتیبان نہ ہو ۔
علاقہ پولیس کو سب علم ہوتا ہے کہ کس گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کیا ہے، وہ کس قماش کے لوگ ہیں ۔ جب پولیس جرم کے قلع قمع کرنے پر اتر آئے تو دنیا کی کوئی طاقت ان مجرموں کو نہیں بچا سکتی ۔ اس کی مثال اس سے لیں کہ جب شہر کی پولیس کو کسی کو ڈھونڈنا ہوتا ہے تو اسے علاقہ غیر سے بھی ڈھونڈ نکالتی ہے ۔ نادرا کے ریکارڈ سے اس کا اگلا پچھلا سب سامنے آجاتا ہے ۔ لیکن جب نہ پکڑنا ہو تو کسی بھی وڈیو میں چہرہ چاہے جتنا بھی واضح ہو ، مجرم مزے سے گھومتا رہتا ہے ۔ کچھ یہی حال دہشت گردی میں ملوث افراد کا ہے ۔ ان کی تنظیموں کو کئی کئی ایجنسیوں کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے ۔
تو اس کا مطلب آسان ترین ہے اور ہر شخص اس سے بخوبی واقف ہے کہ مجرموں کی نرسری تھانے میں موجود ہے ۔ تو سب سے پہلے یہاں کی صفائی کیجیے ۔ یہ بات کراچی میں افغان قونصل جنرل بھی کہہ چکے ہیں کہ مجرموں کے لیے ہمارے پاس بھی معافی نہیں ہے تو ہم آپ سے ان کی سفارش کیوں کریں گے ۔ جو بھی مجرم ہیں انہیں بلاتخصیص مثالی سزائیں دیں ۔ اگر آپ سزا نہیں دے سکتے تو انہیں ہمارے حوالے کیجیے ، ہم انہیں وہی سزائیں دیں گے جو افغانستان میں دیتے ہیں ۔ مگر یوں گھوڑے گدھے کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیے ۔
دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ افغانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت عدم استحکام کا شکار ہے ۔ پاک افغان اسمگلنگ دو طرح کی ہے ، پہلی طرح کی اسمگلنگ غذائی اشیاء کی ہے ۔ دوسری طرح کی اسمگلنگ افغانستان سے پاکستان میں منشیات کی ہے اور پاکستان سے چوری شدہ اور چھینی ہوئی گاڑیوں اور موبائل فون وغیرہ کی افغانستان کو ہے ۔ اسمگلنگ کا ایک اور طریقہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہے ۔ پہلے ان تینوں کو دیکھتے ہیں ۔ جنوبی افغانستان اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر پاکستان پر انحصار کرتا ہے ۔ جبکہ شمالی افغانستان اس کے لیے ایران ، ازبکستان اور تاجکستان پر انحصار کرتا ہے ۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ افغانستان کو کتنی کس چیز کی ضرورت کے تو بہتر ہے کہ انہیں اس کے لیے باقاعدہ برآمدات کی اجازت دی جائے اور ان سے یہ رقم ڈالروں میں وصول کی جائے ۔ یہ عین پاکستان کے مفاد میں ۔ اب تو وڈیوز موجود ہیں کہ غذائی اشیاء کی اسمگلنگ میں این ایل سی جیسا ادارہ بھی شامل ہے ۔ اب دوسری طرح کی اسمگلنگ کو دیکھتے ہیں ۔ افغانستان میں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہے مگر پورے افغانستان میں آپ کو 660 سی سی رائٹ ہینڈ جاپانی گاڑی دوڑتی نظر آئے گی ۔ یہ وہاں پر پاکستانی دو سے تین لاکھ روپے میں مل جاتی ہے ۔ جو گاڑی بغیر کسٹم ڈیوٹی کے پاکستان میں تیس پینتیس لاکھ روپے سے اوپر پڑتی ہے وہ افغانستان میں دو تین لاکھ میں کیسے مل سکتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ آپ کو سوزوکی کی لوڈنگ گاڑی اور شہزور منی ٹرک بھی وہاں نظر آئیں گے ۔ کچھ یہی حال موبائل فون کا ہے ۔ اس کی accessories تو پاکستان سے بھی زیادہ مہنگی ہیں مگر موبائل فون سستا ہے ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ سب پاکستان سے چوری کرکے وہاں پہنچائی جاتی ہیں ۔ یہ گاڑیاں اور موبائل خود یہ افغانی چھین کر افغانستان نہیں لے جاتے بلکہ اس میں ہر قوم اور نسل کا مجرم شامل ہے ۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ گاڑیاں کوئی جیب میں رکھ کر نہیں لے جاتا بلکہ یہ باقاعدہ ٹرکوں پر لوڈ ہو کر یا پھر چلا کر لے جائی جاتی ہیں ۔ یہ سوال مت کیجیے گا کہ سرحدی محافظ کیا کررہے ہوتے ہیں ۔ اگر آپ سرحدوں پر تعینات ہر محافظ کا معیار زندگی اور جائیدادیں دیکھیں تو خود پتا چل جائے گا کہ وہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا تو حال اور زبردست ہے ۔ یہ مال پاکستان میں کسی بھی ڈرائی پورٹ سے کلیئر ہوتا ہے اور گودام کی زینت بن جاتا ہے ۔ کاغذات سرحد پر جاتے ہیں اور ان پر بارڈر کراسنگ کی مہر لگتی ہے اور یوں کاغذات میں یہ مال افغانستان پہنچ جاتا ہے جبکہ بغیر ڈیوٹی دیے یہی مال پاکستان کے بازاروں میں فروخت ہو رہا ہوتا ہے
تو جناب اب بتائیے کہ مجرم کون ہیں ، ان کی سرپرستی کرنے والے یا کوئی اور ۔ جس روز جرم کی سرپرستی ختم کردیجیے ، چاہے یہ اسٹریٹ کرمنل ہوں ، لینڈ گریبر ہوں یا اسمگلر ، مجرم بھی ختم ہوجائیں گے
اب ایک آخری الزام بچتا ہے کہ ڈالر کی اسمگلنگ سے ملک کی معیشت ڈانواڈول ہوئی ۔ اس پر اور دوسر سوال پر کہ افغانیوں کے اس طرح انخلا کرنے سے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے ، گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔