ایک دو نہیں چھبیس روز ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔کرہ ارض پر "ناجائز صہیونی ریاست” نے فلسطین کی ننھی اور نہتی بستی غزہ میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔۔۔۔خونخوار اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں ساڑھے آٹھ ہزار بے گناہ فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔۔۔۔خون میں لتھڑی اس طویل فہرست میں ساڑھے تین ہزار” ننھے لاشے”بھی ہیں۔۔۔۔ان پھول چہروں میں کتنے ہی شیر خوار۔۔۔۔۔۔”چمن طفلاں” مرجھائے جا رہا ہے۔۔۔۔۔غزہ میں بچوں کے حوالے سے بڑی دلخراش ہے اور ہر تین جنازوں میں ایک جنازہ کسی نہ کسی فلسطینی بچے کا اٹھ رہا ہے۔۔۔۔۔حالیہ جنگی تاریخ میں یہ بچوں کا سب سے بڑا "قتل عام” ہے۔۔۔۔اتنی بے رحمانہ نسل کشی کہ زبان خلق پکار اٹھی فرعون سنا تھا دیکھ بھی لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقوام متحدہ نے غزہ کو ہزاروں فلسطینی بچوں کا قبرستان قرار دیدیا ہے۔۔۔۔۔۔ ادارہ برائے اطفال کے مطابق غزہ میں مسلسل دم توڑتے بچوں کی صورت حال نے ہر شخص کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے بتایا کہ غزہ میں شہید بچوں کی تعداد خوف ناک ہے۔۔۔۔ 3 ہزار 450 سے زائد بچے جام شہادت نوش کر چکے اور اس میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ روزانہ 420 سے زائد بچے شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جبکہ دس منٹ میں ایک بچہ جام شہادت نوش کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ غزہ ہزاروں بچوں کا قبرستان بن چکا ہے۔۔۔۔۔اسی طرح فلسطینی وزارت صحت نے انکشاف کیا ہے کہ شہید بچوں میں ایک سال سےکم عمر کے 130 سے زیادہ بچے شامل ہیں۔۔ایک سال کے 150 سے زیادہ بچے بھی شہدا میں شامل ہیں جب کہ 2 سال کے 158 سے زیادہ بچے شہید ہوئے ہیں۔۔۔۔جیمز ایلڈر کے مطابق ان کے پاس 130نومولود انکوبیٹرز پر ہیں۔۔۔۔۔۔۔اقوام متحدہ کی گلوبل کمیونیکیشن سربراہ ملیسا فلیمنگ کا کہنا ہےکہ حالیہ تازہ ترین شہادت غزہ میں اقوام متحدہ کے سکیورٹی اور سیفٹی سربراہ سمیر کی ہوئی ہے جو اپنی اہلیہ اور 8 بچوں کے ساتھ اسرائیلی حملوں میں جام شہادت نوش کر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظمیم ‘سیو دی چلڈرن’نے دعوی کیا ہے کہ صرف 24 روز میں موت کی آغوش میں جانے والے غزہ کے بچوں کی تعداد گزشتہ 4 سال میں دنیا بھر میں جنگ زدہ علاقوں میں ہلاک بچوں سے زیادہ ہے۔۔۔۔۔جیمز ایلڈر نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں صحت کے حکام کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 940 بچے لاپتا ہیں۔۔۔انہوں نے کہا کہ یہ خطرہ ہے کہ براہ راست بمباری سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد پوری سامنے نہیں آسکتی۔۔۔۔اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے کے ترجمان جینز لائیرکے نے کہا کہ ملبے تلے دبے بچوں کے بارے میں سوچنا ناقابل برداشت ہے لیکن ان کو نکالنے کا امکان بہت کم ہے۔۔۔۔جیمز ایلڈر نے خبردار کیا کہ غزہ کی پٹی اب پیاس کی وجہ سے بچوں کی ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ غزہ کی روزانہ پانی کی فراہمی کی گنجائش 5 فیصد ہے اور پیاس کی وجہ سے بچوں کی ہلاکت ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جنگ بندی، پانی، ادویات کی فراہمی اور محاصرے میں موجود بچوں کی بازیابی ممکن نہ ہوئی تو پھر ہم معصوم بچوں کو متاثر کرنے والی اس سے بھی بڑی ہولناک صورت حال کی طرف جا رہے ہوں گے۔۔۔۔!!ایک طرف غزہ قتل گاہ بن چکی تو دوسری جانب میں اقوام متحدہ تماشا گاہ۔۔۔۔۔۔۔نشتند۔۔۔۔گفتند۔۔۔۔۔۔برخاستند۔۔۔۔کا فورم۔۔۔۔۔اٹھائیس اکتوبر کو اقوام متحدہ نے۔۔۔۔ لہو لہو غزہ۔۔۔۔۔ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کی۔۔۔۔۔۔یہ قرار داد اردن نے 22 عرب ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں پیش کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 195 ارکان کی اسمبلی میں سے فرانس سمیت 120ارکان نے قرار داد حمایت کی۔۔۔۔۔۔اسرائیل، امریکہ اور آسٹریا سمیت 14 ارکان نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ جرمنی، اٹلی اور برطانیہ سمیت 45 ارکان غیر حاضر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اردن کی جانب سے پیش قرار داد کو غزہ میں انسانی بحران اور اسرائیلی بمباری کے خاتمے کے لیے 50کے قریب دیگر ممالک نے بھی سپانسر کیا۔۔۔۔انسانی بنیادوں پر جنگ بندی سے متعلق یہ قرارداد ’نان بائینڈنگ‘ تھی یعنی فریق اس پر عمل کے پابند نہیں تاہم 7 اکتوبر سے جاری اسرائیل فلسطین جنگ کے بعد اس معاملے پر اقوام متحدہ کا یہ پہلا ردعمل تھا۔۔۔۔۔۔اقوام متحدہ میں منظورہونے والی اس قرارداد میں حماس کا ذکر شامل نہیں تھا جس پر اسرائیل بھڑک اٹھا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے اپنی دھمکیوں کو دہرا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔اسرائیلی مندوب گیلاد ایردن نے اقوام متحدہ کے فورم پر کھڑے ہو کر اقوام متحدہ کو للکارا اور کہا کہ آج ہم نے دیکھا کہ اقوام متحدہ کی ایک اونس کے برابر وقعت اور قانونی حیثیت باقی نہیں رہی۔۔۔۔۔اسرائیلی مندوب نے دھمکی دی کہ تل ابیب حماس کے خلاف ہر حد تک جائے گا۔۔۔۔۔امریکی سفیر لینڈا تھا مس نے بھی غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد منظور ہونے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔۔۔۔انہوں نے اس قرارداد میں 7 اکتوبر کے دہشتگرد حملے اور لفظ یرغمالی کے غائب ہونے کا رونا رویا۔۔۔۔۔۔سوال ہے کہ کیا اسرائیلی مندوب کی اقوام متحدہ نامی”عالمی دکان "بارے ہرزہ سرائی درست نہیں کہ 22عرب ممالک قرار داد پیش کریں۔۔۔۔۔50 دوسرے ممالک بھی اسے سپانسر کریں۔۔۔۔۔قرار داد بھی علامتی بلکہ ملامتی کہ جس پر عمل ضروری نہ ہو۔۔۔۔۔195میں سے 120ممالک اسے کثرت رائے سے منظور کریں۔۔۔۔۔۔اور وہ ملک جس کیخلاف یہ قرار داد منظور ہو۔۔۔ ادھر کھڑے کھڑے ہی اسے رد کردے۔۔۔۔۔ تو کون سی اقوام متحدہ۔۔۔۔۔کون سی قرار داد اور کون سی اکثریت رائے؟؟؟؟کیا یہ 22عرب ممالک سمیت 120اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے لیے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟؟؟کیا انہیں ایسے نام نہاد عالمی فورم سے کنارہ کشی نہیں کرلینی چاہیے۔۔۔۔کیا اقوام متحدہ کے صدر اور جنرل سیکرٹری کو ایسے کاغذی ادارے پر لعنت بھیج کر گھر نہیں چلے جانا چاہیے۔۔۔۔؟؟؟تف ایسی اقوام متحدہ پر۔۔۔۔تف ایسی قرار داد پر۔۔۔۔۔۔!!