دیکھنے میں یہ ایک بہترین فوجی کارروائی تھی ۔ محض سوا گھنٹے کی کارروائی میں دشمن کے 20 بحری جہاز اور 188 سو لڑاکا طیارے تباہ کردیے گئے ۔ صرف یہی نہیں ، دشمن کے 2403 فوجی بھی مارے گئے اور تقریبا 12 سو فوجی زخمی بھی ہوئے ۔ جواب میں حملہ آور فوج کے محض 129 فوجیوں کا جانی نقصان ہوا ۔ یہ کوئی اچانک حملہ نہیں تھا ، اس کے لیے مہینوں منصوبہ بندی کے ساتھ مشق بھی کی گئی تھی ۔ یہ بھرپور مشق اور حملہ آور فوجیوں کی بے جگری تھی کہ انہوں نے اتنا بڑا معرکہ سر کر لیا تھا ۔ اتنی کہانی آپ کسی کو بھی سنائیں ، واہ واہ کر اٹھے گا ۔ یہ پرل ہاربر کی کہانی ہے ۔ 7 دسمبر 1941 اتوار کا دن تھا اور دوسری عالمی جنگ عظیم پر تھی ۔ 177 جہازوں پر سوار جاپانی جانبازوں نے ہوائی کے جزیرے اوآہو (Oahu) پر مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجکر 55 منٹ پر حملہ کردیا ۔ 163 جہازوں پر سوار حملہ آوروں کی دوسری لہر 8 بجکر 50 منٹ پر پہنچی اور نو بجے جاپانی امریکی فوج کو تباہ کرکے واپس بھی ہوچکے تھے ۔
مگر کہانی یہیں تک محدود نہیں رہی ۔ امریکا اس وقت تک عالمی جنگ میں کم از کم نام کی حد تک غیر جانبدار تھا اور اس کی فوجیں جنگ میں براہ راست شریک نہیں تھیں ۔ اس حملے کے بعد امریکا نے دوسرے دن ہی جنگ میں باضابطہ شامل ہونے کا اعلان کردیا اور پھر بعد میں جاپان کو محض اسی لیے شکست تسلیم کرنا پڑی کہ امریکا نے ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم برسا دیے تھے ۔
جتنی بار میں غزہ میں اسرائیلی مظالم دیکھتا ہوں ، اتنی بار ہی میرے ذہن میں پرل ہاربر کا واقعہ گھوم جاتا ہے ۔ حماس نے طوفان الاقصیٰ کے تحت اسرائیل پر حملہ کردیا ، وہ کامیاب بھی رہے ۔ پھر ؟ اسرائیل ننھے سے غزہ میں اب تک دو لاکھ سے زیادہ مکانات کو زمیں بوس کرچکا ہے ، اسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں اور ان پر بھی مسلسل فضائی حملے جاری ہیں ۔ نہ دوائیں ہیں اور نہ ہی ایندھن کہ ٹوٹے پھوٹے اسپتال میں علاج ہوسکے ۔ روزانہ دو سو کے اوسط سے تو صرف بچے جام شہادت نوش کررہے ہیں ۔ اب تک ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ عملی طور پر غزہ ایک ایسے خونی تھیٹر میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں پر آگ اور خون کا کھیل جاری ہے اور پوری دنیا انہماک سے اس کھیل کو دیکھ رہی ہے ۔ اسرائیل کے دوست اور سرپرست کھلے عام نہ صرف اس کی اخلاقی اور زبانی مدد کررہے ہیں اور بلکہ برملا اسلحہ ، جہاز و دیگر ساز و سامان بھیج کر اس کی عملی مدد کے لیے بھی میدان میں موجود ہیں ۔ اسرائیل کے سنگی ساتھیوں نے تو انٹرنیٹ اور گوگل میپ پر لائیو ٹریفک تک بند کردیا ہے ۔ انسٹا گرام اور فیس بک فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم اور ان پر احتجاج کے حوالے سے فوری طور پر نہ صرف پوسٹ ہٹا دیتے ہیں بلکہ تنبیہ بھی جاری کرتے ہیں اور مستقل طور پر اکاونٹ بھی بند کردیتے ہیں ۔ برطانیہ ، فرانس سمیت دیگر ممالک نے فلسطین کے حق میں نکلنے والی ریلیوں تک پر پابندی عاید کی ہوئی ہے ۔
دوسری جانب فلسطینی اپنوں ہی کی چیرہ دستی کا شکار ہیں ۔ مصر نے رفح کی سرحد مسلسل بند کی ہوئی ہے کہ غزہ کو امدادی سامان کی فراہمی کا واحد راستہ ہے تو دوسری جانب اردن نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کے لیے اپنی زمین کے استعمال کی اجازت دی ہوئی ہے ۔ ہم اس کی بات نہیں کرتے کہ سعودی عرب ، ترکی ، ملائیشیا، پاکستان وغیرہ کیا کررہے ہیں اور انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ اب تک کی زمینی صورتحال یہ ہے کہ ایران نے حماس کی حمایت کا بار بار اظہار کیا ہے مگر یہ ساری صورتحال زبانی ہی ہے ۔ حماس کے پاس نہ تو وہ اسلحہ ہے جو حوثیوں کو فراہم کیا گیا تھا اور نہ ہی کہیں سے امداد کی کوئی اور صورت ہے ۔ حماس کو حزب اللہ سے بڑی امیدیں تھیں مگر اب اس بارے میں بھی حماس مایوسی کا شکار ہے کہ اس کے پاس نسبتا جدید ہتھیار موجود ہیں مگر علامتی طور پر اسرائیل پر ایک پٹاخہ پھینک دیا جاتا ہے اور بس ۔ ایران کی زبانی بڑھکیں اور اسے اچانک متواتر ملنے والی عالمی رعایتیں بھی مشتبہ ہیں جس پر سوشل میڈیا پر بہت کچھ آرہا ہے ۔
فلسطین صرف اسرائیل کی جانب سے ہی حملے کی زد میں نہیں ہے ۔ لبنان کی سرحد پر برطانوی فوج اپنے واچ ٹاورز میں موجود ہے۔ یہ واچ ٹاورز برطانوی فوج نے داعش کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے کے نام پر تعمیر کیے تھے ۔ داعش تو موجود نہیں مگر یہ برطانوی فوجی ابھی بھی یہاں پر تعینات ہیں ۔ لبنانی فوج کو تربیت دینے کے بہانے بھی برطانوی ہینڈلر براہ راست لبنانی فوج کے اندر موجود ہیں ۔ اردن میں بھی فوجی تربیت اور معاونت کے کئی معاہدے موجود ہیں جس کے تحت برطانوی فوجی مجسم موجود ہیں ۔ مصر تو ہے ہی ان کی کالونی ۔ ایک بات یہ سمجھنے کی ہے کہ یہ فوجی اقوام متحدہ کے نام نہاد فوجی نہیں ہیں کہ سربرنیکا میں موجود تھے اور وہاں پر ان کے آنکھوں کے سامنے مردوں اور لڑکوں کو ایک گراونڈ میں جمع کرکے جان سے مار دیا گیا ۔ کمسن لڑکیوں اور عورتوں کی منظم آبرو ریزی کی گئی اور انہیں قحبہ گھروں کو فروخت کردیا گیا ۔ یہ برطانوی فوج ہے جو یہودیوں سے زیادہ اسرائیل کی وفادار ہے ۔
اب تک بہت کچھ واضح ہوچکا ہے کہ غزہ میں طوفان الاقصیٰ کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا گیا ۔ آئندہ چند ہفتوں میں مزید واضح ہوجائے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوچا جائے کہ ہم ٹسوے بہانے کے علاوہ کیا کرسکتےہیں ۔ آہ و بکا کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہر سطح پر سوچا جائے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور پھر جو کچھ ممکن ہے وہ کر گزرا جائے ۔ میں امدادی سامان بھیجنے کی بات نہیں کررہا ہوں ۔ عملی اقدامات کی بات کررہا ہوں ۔ سوچ ڈالیے اور کوئی لائحہ عمل طے کیجیے ۔ معاملہ صرف الاقصیٰ یا حماس کا نہیں ہے ، امت مسلمہ کا ہے ۔ اگر اب بھی اس بارے میں کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا تو پھر سقوط اسپین کی تاریخ دہرانے کے لیے تیار رہیے کہ ایک ایک کرکے سب کی اسی طرح باری آنی ہے ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔