تنقید کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے اور اس میں پاکستانی قوم کو یدطولیٰ حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور خوبی جو ہمیں حاصل ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ سارے کام کوئی دوسرا کرے اور ہم مزے کریں ۔ ہم تو اتنے آرام طلب ہیں کہ دبلا ہونے کے لیے بھی ورزش کے بجائے کچھ کھانا پینا چاہتے ہیں ۔ ہر شخص یہی کہے گا کہ دبلا ہونے کے لیے کوئی دوا بتائیں ۔ کوئی سبز چائے میں لیموں کا ٹوٹکا استعمال کررہا ہوگا تو کوئی کچھ اور ۔ آپ کسی محفل میں بیٹھے ہوں ، مہنگائی پر بات ہو رہی ہو تو سب ایک ہی بات کہہ رہے ہوں گے کہ عوام میں دم خم نہیں ہے ورنہ ایسا نہیں ہوتا ۔ میرے بھائی عوام کوئی الگ مخلوق تو ہے نہیں ۔ یہ ہم سب سے مل کر ہی وجود میں آئی ہے ۔ ہر شخص بجلی کے بلوں سے تنگ ہے مگر جب احتجاج کی باری آئے تو ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ احتجاج کوئی اور کرلے ۔ فلسطین کے معاملے پر ہی دیکھ لیں ۔ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کے مظالم پر کوئی دو رائے نہیں ہے ۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زاید ہے مگر احتجاج میں لاکھ آدمی بھی شریک نہیں ہوا ۔ اگر کراچی کی ایک تہائی آبادی بھی اپنے گھر کے قریب کی مین روڈ پر صرف آدھے گھنٹے کو آجاتی تو پورے کراچی میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی اور پوری دنیا کو میسیج الگ جاتا ۔ یہ الگ بات کہ احتجاج سے اگر کچھ ہو رہا ہوتا تو عراق پر امریکی حملہ نہ ہوتا ۔ عراق پر حملے سے قبل یورپ میں واقعتا ملین مارچ ہوئے تھے مگر اس کے نتائج کم از کم وہ تو نہیں نکلے جو نکلنے چاہیے تھے اور امریکا و برطانیہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔علامہ اقبال نے درست ہی کہا تھا کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔ ہرن کے احتجاج پر شیر اس کا شکار نہیں چھوڑتا مگر جب بھینسے موجود ہوں تو شیر کی ہمت نہیں ہوتی کہ کسی بھینس یا اس کے بچے کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی دیکھ لے ۔
تو پھر کیا کرنا چاہیے ۔ یہی اہم ترین سوال ہے ۔ ہر شخص یا قوم اپنے وسائل اور استطاعت کے مطابق ہی معاملات کرتی ہے ۔ اگر کسی فوج میں اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ دو بدو دشمن کا مقابلہ کرسکے تو وہ شکست نہیں تسلیم کرلیتی بلکہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرتی ہے اور گوریلا جنگ میں چلی جاتی ہے تاکہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر اپنا ہدف حاصل کرسکے ۔ دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے کمزور اہداف تلاش کیے جاتے ہیں تاکہ اسے زیادہ زیادہ سے زک پہنچائی جاسکے ۔
سب سے پہلے تو دشمن کو پہچانیں ۔ کیا آپ کا دشمن اسرائیل ہے ، بھارت ہے ، یورپ ہے ۔ اصل دشمن ہے کون ۔ نہیں جناب اس میں سے کوئی بھی ہمارا اصل دشمن نہیں ہے ۔ یہ تو گدھ ہیں جو مردار کھا رہے ہیں ۔ اپنے دشمن تو ہم خود ہیں جس نے اپنے آپ کو کمزوررکھا ہوا ہے ۔ کوئی فرد ہو یا قوم ، اسے غلام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے قرض تلے دبا دیا جائے ۔ آپ اسرائیل کو ہی دیکھ لیں کہ چند لوگوں نے پانی کی کمی کے شکار اسرائیل میں community base کاشتکاری شروع کی ۔ بی بی سی کی آج کی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ اسرائیل کی آبادی کا محض سو ا دو فیصد ہیں مگر اسرائیل کی زراعت میں ان کا حصہ 33 فیصد ہے ۔ انہوں نے اسرائیل کو اس کے پاوں پر کھڑا کردیا ہے ۔ یہی حال ان کے انجینئروں ، ڈاکٹروں اور دیگر پیشہ ور افراد کا ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں آج اسرائیل کا ہمسر کوئی نہیں ہے ۔
اگر القدس کو آزاد کرانا ہے تو جناب آج سے انتھک کام شروع کردیں ۔ ایک اور سب سے بڑا مسئلہ ہمارے ساتھ یہ ہے کہ ہم اپنے پیشے میں کام کرنے کے بجائے باقی ہر جگہ ٹانگ اڑانے کو تیار رہتے ہیں ۔ عام طور پر یہ بات بطور پھبتی کہی جاتی ہے کہ فوجی افسر پاکستان میں ہر کام کرسکتا ہے۔ حالانکہ فوج میں بھرتی محض انٹرمیڈیٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور فوج میں کوئی ڈگری کورس نہیں پڑھایا جاتا بلکہ سرٹیفکٹ کورسز ہوتے ہیں مگر وہ ڈاکٹر بھی ہے ، پائلٹ بھی ، انجینئر بھی ، غرض سب کچھ ہے ۔یہ سوچ صرف فوج تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قومی سوچ ہے ۔ آپ ایک ڈاکٹر کو اپنے پیشے میں کام کرتا دیکھنے کے بجائے میڈیا میں دیکھیں گے ۔ ایک انجینئر اپنے شعبے کے بجائے عمامہ باندھے فتویٰ دیتا نظر آئے گا وغیرہ وغیرہ ۔ اگر پولیس ملزمان کا قلع قمع کرنے کے بجائے اس کی مذمت کررہی ہو تو آپ کو کیسا لگے گا ۔ مجھے کچھ ایسا ہی فلسطین کے معاملے پر صحافیوں کے احتجاج کے دوران لگا ۔
کرنے کا کام یہ ہے اہداف چنیں ۔ انجینئر اپنا ، ڈاکٹر اپنا ، صحافی اپنا اور کسان اپنا وغیرہ وغیرہ ۔ ہمارا ہدف اسرائیل نہیں ہے بلکہ وہ قوتیں ہیں جو اسرائیل ، میانمار اور بھارت جیسے ممالک کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ یہ صحافیوں کا کام ہے کہ وہ ان قوتوں کی نشاندہی کریں ، ان کے کمزور اہداف سامنے لائیں اور اس پر ضرب لگانے کے طریقے بھی بتائیں تاکہ ان پر کاری ضرب لگائی جاسکے ۔ یہ انجینئروں کا کام ہے کہ ملک میں سستی اور متبادل توانائی کے منصوبے عوام کے سامنے لائیں تاکہ ملک ترقی کی راہ پر چل سکے اور ان قوتوں کی غلامی سے نجات مل سکے ۔ یہ صنعتکاروں کا کام ہے کہ ملک کو اسمبلنگ پلانٹ بنانے کے بجائے صنعت سازی پر کام ہو ۔ یہ ڈاکٹروں اور ادویہ سازوں کا کام ہے کہ ملک بین الاقوامی فارما کمپنیوں کی مافیا کے چنگل سے نکل سکے ۔
یہ ہمارے دانشوروں کا کام ہے کہ مختلف پریشر گروپ غیر محسوس طریقے سے پاکستان میں بھی بنائیں اور ان ممالک میں بھی ، جہاں پر ان کی افادیت ہے ۔ اور پھر ان پریشر گروپوں کا استعمال بھی بروقت کریں ۔
اس طرح کے بہت سارے کام احتجاج کے لیے کیے جاسکتے ہیں ۔ اگر ہم میں سے چند فیصد چنیدہ لوگ ہی سوچ لیں کہ بطور احتجاج دو گھنٹے اپنے ہدف کے لیے کام کرنا ہے تو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کرنے کے قابل بننے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے ۔ بات کام کرنے کی ہے ۔ سمجھ لیں کہ احتجاج سے آج تک نہ کوئی ظلم رکا ہے اور نہ رکے گا۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔