اسرائیل اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر مسلسل عمل پیرا ہے ۔ قیام سے لے کر اب تک اسرائیل ملحقہ علاقوں پر مسلسل قبضے کررہا ہے ۔ کیا بات محض اتنی ہی ہے کہ اسرائیل کو اپنی حدود میں اضافہ کرنا ہے ، چاہے اس کی جو بھی قیمت چکانی پڑے ۔ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر شاید ہی کسی نے غور کیا ہو ۔
اس سوال کا جواب بوجھنے سے پہلے اسرائیل کے زیر قبضہ عرب علاقوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ اسرائیل کے زیر قبضہ عرب علاقے وہ ہیں جو اس نے 1967 کی محض چھ روزہ جنگ کے بعد شام ، مصر ، لبنان اور اردن سے چھین لیے تھے ۔ شام سے جولان کی پہاڑیاں اسرائیل نے قبضے میں لی تھیں ۔ یہ تقریبا 1800 مربع کلومیٹر کا پلیٹو ہے ۔ بائبل میں اسے جبل باشان کے نام سے پکارا گیا ہے ۔ یہاں کا قدیم ترین گاوں سحم الجولان وادی رقہ میں واقع تھا ۔ اسی جنگ میں اسرائیل نے مصر کا جزیرہ نما سینا اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا ۔ اس طرح سے غزہ کی پٹی میں موجود تمام فلسطینی اصل میں مصر کے شہری ہیں جنہیں اب مصر اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنے ک لیے رفاہ کی گزرگاہ پر پابندیاں لگائے ہوئے ہے ۔ اسی جنگ میں اسرائیل نے اردن کے علاقے مغربی کنارے اور جنوبی لبنان پر بھی قبضہ جمایا تھا ۔ 1967 سے لے کر 1981 تک یہ تمام مقبوضہ علاقے اسرائیل کی فوج کے زیر انتظام تھے اور اقوام متحدہ کی زبان میں یہ مقبوضہ عرب علاقے کہلاتے تھے ۔
مقبوضہ عرب علاقوں کا انتظام کرنے والی Israeli Military Governorate کو 1980 میں تحلیل کردیا گیا ۔1979 سے جاری مذاکرات کے نتیجے میں 1982 میں اسرائیل اور مصر کے درمیان معاہدہ امن ہوا جس کے تحت مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا جس کے بعد اسرائیل نے بتدریج سینا کا علاقہ خالی کرکے مصر کے حوالے کردیا ۔ جبکہ جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیلی ریاست میں ضم کردیا گیا اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارا اسرائیلی حکومت کے زیر انتظام کردیا گیا ۔ بعدازاں معاہدہ اوسلو کے تحت اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو بھی خالی کردیا اور فلسطینی قومی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت غزہ اور مغربی کنارے کا انتظام الفتح کی فلسطینی قومی اتھارٹی اور اسرائیل کو مشترکہ طور پر دے دیا گیا ۔
اب معاشی مفادات کو دیکھتے ہیں ۔ اسرائیل کی تیل کی ضروریات مفت میں ہی مقبوضہ علاقوں سے پوری ہوتی ہیں۔ اسے تیل کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ عراق ہے جہاں سے خام تیل پائپ لائن کے ذریعے ترکی پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے یہ اسرائیل کی ریفائنریوں میں پہنچایا جاتا ہے ۔ دوسرے نمبر پر یہ جولان کی پہاڑیوں سے تیل نکالتا ہے ۔ تیسرے نمبر پر لبنان کے ساحلی علاقے اور چوتھے نمبر پر غزہ کے ساحلی علاقے سے تیل نکالتا ہے ۔ صدام کے دور میں یہ عراق کو تیل کی ادائیگی کرتا تھا ۔صدام کے آخری دور میں اسرائیل کو تیل کی ترسیل بند کردی گئی تھی ۔ جب سے امریکا نے عراق پر قبضہ کیا ، اس دن سے یہ تیل اسے مفت ملنے لگا ۔ اب یہ رعایتی نرخوں پر یا یوں کہیں کہ تقریبا مفت میں ملتا ہے ۔ جولان کی پہاڑیوں سے تیل کی پیداوار 2015 میں شروع ہوئی تھی اور یوں یہ شامی تیل بھی اسرائیل مفت میں حاصل کرتا ہے ۔ غزہ کے ساحلی علاقوں سے بھی اسرائیل تیل نکال رہا ہے ۔ پہلے اس پر فلسطینی اتھارٹی کو آٹھ فیصد تک رائلٹی مل جاتی تھی۔ اب فلسطینی اتھارٹی نے نیا معاہدہ کیا ہے جس پر اسے محض چار فیصد رائلٹی ملے گی ۔ یعنی اسرائیل پہلے من پسند نرخ طے کرے گا اور پھر اس کا محض چار فیصد ( اگر اس کا موڈ ہوا )تو فلسطینی اتھارٹی کو دے گا اور اگر موڈ نہ ہوا تو دہشت گردی کے الزامات لگا کر اسے بھی روک دے گا ۔ کچھ یہی صورتحال لبنانی ساحل کی ہے
چوری کے اس تیل کی بدولت رواں برس فروری سے اسرائیل تیل برآمد کرنے والے ممالک کے کلب میں شامل ہوگیا ہے ۔ اب ایک بات پر غور کریں ۔ عراق میں روز دھماکے ہوتے ہیں جس میں سیکڑوں افراد جان سے جاتے ہیں ۔ عراق میں داعش اور ایران دونوں کا اثر و نفوذ ہے ۔ جولان کی پہاڑیاں سے متصل شامی علاقے تو ہیں ہی داعش کے زیر انتظام ۔ غزہ میں حماس کا اثر ہے تو لبنان میں حزب اللہ کا ۔ ان سب میں ایک بات مشترک ہے ۔ کوئی بھی اسرائیل کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بناتا ۔ چاہے جو حالات ہوجائیں ۔ اسرائیل کو تیل کی ترسیل ایک دن تو کیا ، ایک لمحے کو نہیں رکی ۔ اس پر آپ بھی سوچیے گا کہ آخر ایسا کیا چمتکار ہے کہ سب کچھ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کو معاشی طور پر کوئی زک نہیں پہنچاتا ۔جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں ، کیا آپ کا بھی وہی خیال ہے ۔یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل تیل خرید نہیں رہا تو کیا ہوا مگر وہ فوجی اخراجات بھی تو کر رہا ہے ۔ چاہے تیل خرید کر ادائیگی کی جائے یا ان تنصیبات کی حفاظت کے نام پر مختلف گروہوں کو رقومات بانٹی جائیں ، بات تو ایک ہی ہے ۔ آئندہ آرٹیکل میں اس سوال کا جواب بوجھیں گے کہ اسرائیل کے فوجی اخراجات کیا ہیں ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔