اب یہ سوالات زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں کہ حماس نے یہ حملہ کیا تو کیوں کیا ۔ اس کے پیش نظر کیا اہداف تھے ۔ اس سے اسرائیل کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا اور حماس کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا ۔ اور اب کیا ہونے کے خدشات ہیں ۔
کوئی بھی فریق اپنے حریف پر حملہ اس پر فتح پانے کے لیے کرتا ہے ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل پر حملہ کرنے کا پہلا ردعمل کیا ہوگا ۔ یہی کہ وہ اپنے جدید ترین میزائیلوں سے حماس کے high value targets کو نشانہ بنائے گا ، دوسرا یہ کہ وہ غزہ پر چڑھ دوڑے گا اور اسے ایک مکمل جنگ میں تبدیل کردے گا۔ تیسرے یہ کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ مزید علاقے بھی اپنی حدود میں شامل کرلے گا ۔ اس کے جواب میں ممکنہ حکمت عملی یہ ہوسکتی تھی کہ حماس نے اس کی منصوبہ بندی کی ہو کہ وہ اپنے high value targets کو کہیں ایسی محفوظ جگہ منتقل کردے جہاں پر وہ اسرائیل کی دسترس سے باہر ہوں ، پہلے سے خندقوں کا ایسا نظام ہو کہ میزائیلوں کی بارش سے کم از کم جانی نقصان ہو، غذائی اشیاء اور اہم ادویات کا ذخیرہ ہو تاکہ محاصرے کو اس وقت تک جھیلا جاسکے جب تک محاصرہ ختم یا نرم نہ ہوجائے ۔ حلیف ممالک کے ساتھ معاملات طے ہوگئے ہوں کہ جیسے ہی حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل جوابی کارروائی کرے گا ، مصر، شام اور اردن اپنے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کے لیے اسرائیل پر حملہ کردیں گے اور حماس کو مطلوبہ سامان حرب بھی مہیا کریں گے کہ وہ فرنٹ لائن پر اسرائیلی فوج کا دوبدو مقابلہ کرسکیں اور کم از کم اسے غزہ میں نہ داخل ہونے دیں ۔
حملے کو آج آٹھواں روز ہے ۔ کہیں بھی ایسی صورتحال نظر نہیں آئی کہ حماس مقابل کھڑی ہے یا اردن ، شام و مصر کو اپنے مقبوضہ علاقوں کی فکر ہے ۔ اس حملے کا سب سے بڑا نقصان کیا ہوا ، اسے دیکھتے ہیں ۔ اب تک یورپ و امریکا میں اسرائیل کو جارح کی حیثیت حاصل تھی ۔ پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ اپنی پروپیگنڈہ مشین کے ذریعے اسرائیل کو فلسطینیوں کو حاصل نرم گوشے کو hit کرنے کا موقع ملا اور اس نے کامیابی کے ساتھ اپنا پہلا ہدف حاصل کرلیا ۔ جعلی خبروں اور وڈیو کلپ کے ذریعے اسرائیلی پروپیگنڈہ مشین نے حماس کو داعش کے برابر میں لا کھڑا کیا ۔ وہ عیسائی اور یہودی جو اب تک فلسطین کے ساتھ تھے ، اب وہ خاموش بیٹھ گئے ہیں ۔ یہ اسرائیل کی سب سے بڑی کامیابی ہے
اسرائیل کو حاصل ہونے والے باقی فوائد تو سب کے سامنے آ ہی رہے ہیں ۔ یعنی فلسطینیوں کی نسل کشی میں مزید تیزی ، مزید علاقوں پر قبضہ وغیرہ وغیرہ ۔ اس واقعے کےنتیجے میں اسرائیل کواندرونی طور پر یہ فائدہ ہوا کہ اندرونی طور پر حکومت کے خلاف جو مہم چل رہی تھی ، اب اس پر قابو پانا ممکن ہوگیا ۔ مگر نقصان یہ بھی ہوا کہ اس کے شہریوں کا اس پر سے ایک محفوظ ریاست ہونے کا اعتماد ختم ہوگیا ، اسرائیل کا ہر شہری اب دہری شہریت چاہتا ہے کہ جب بھی حالات خراب ہوں ، وہ اپنے خاندان سمیت کسی محفوظ جگہ پر بیٹھا ہو ۔
آخری سوال ۔ کیا یہ سب اسرائیل کے لیے اتنا ضروری تھا کہ اس نے بھی ایک نائن الیون کا ڈھونگ رچا ڈالا۔ دیکھنے میں اسے مزید علاقوں پر قبضے کی ایسی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی ، پولٹری مرغیوں کی طرح وہ جب چاہے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتا ہے ، اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے ، مقبوضہ علاقوں پر اس کا قبضہ پہلے سے ہی مستحکم ہے ۔ تو پھر ایسا کیوں کیا گیا؟
دیکھیں صہیونیت کے نزدیک دنیا پر قبضہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہیکل سلیمانی یا Third Temple کی تعمیر مکمل نہ ہوجائے ۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر وہ بیت المقدس کو شہید کرکے اس کی جگہ پر کرنا چاہتے ہیں ۔ ہیکل کی تعمیر کے لیے درکار انتہائی لازمی شرط سرخ بچھیا کا حصول ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے ممکن بنا لیا گیا ہے ۔ اب رکاوٹ صرف اور صرف بیت المقدس کی شہادت ہے ۔ بیت المقدس کی شہادت میں اسرائیل کو اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ یورپ اور امریکا کے عیسائی ہیں ۔ مسلمان اسی میں غلطاں رہتے ہیں کہ بیت المقدس ان کا قبلہ اول ہے ۔ یہ عیسائیوں کے لیے بھی انتہائی اہم ہے ۔ اسرائیل عیسائیوں کی اس مزاحمت کو ختم تو نہیں کرسکتا مگر وہ اسے کمزور ضرور کرنا چاہتا ہے ۔ یورپی ممالک اور شمالی امریکا کے حکمرانوں سے اسے کوئی خطرہ نہیں کہ وہ سب کٹھ پتلی ہیں ۔ خطرہ عوام سے ہے ۔ اب دیکھیں کہ حماس کے حملے کے نتیجے میں اسے اہم ترین کامیابی مل گئی کہ اب وہ فلسطینیوں پر مظالم بھی ڈھا رہا ہے اور مظلوم بھی وہی ہے ۔ اب ایسی ہی کارروائیوں کے نتیجے میں اگر مسجد الاقصیٰ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو ذمہ دار بھی طوفان الاقصیٰ والے ہی ٹھیریں گے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان ، عراق، شام ، لیبیا وغیرہ کا حشر کردیا اور دامن پر کوئی داغ بھی نہیں ۔ یہ وہ آزمودہ نسخہ ہے جو طوفان الاقصیٰ کی صورت میں آزمایا گیا ہے ۔ اس دنیا میں ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔